میاں نواز شریف اگر اپنی سیاسی ساکھ باقی رکھنا چاہتے تو
لندن کے بجائے لاہور شریف ہسپتال میں داخل ہو جاتے.
ذوالفقار علی بھٹو زمین کے نیچے جا کر بھی اگر آج زندہ ہے تو محض رحم کی
بھیگ نہ مانگنے کی وجہ سے.
اگر لندن کے اسپتالوں میں شفاء ہوتی تو بیگم کلثوم صاحبہ کبھی بکس میں نہ
آتی .
پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف جن کے بارے میں باہر جانے کی
خبریں آسمان کو چھو رہی تھی اور آخر سچ ثابت ہوئی اگر وہ اپنی سیاسی ساکھ
کو بحال رکھنا چاہتے تو باہر نہ جا کر ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے بتا
دیتے کہ میاں نواز شریف کا نہ صرف انتخابی نشان شیر ہے بلکہ شیر کی سی کچھ
خصلتیں بھی موجود ہیں. جو دنیا میں آیا ہے اس کو ایک دن جانا ہی ہے پھر
رسوائی کی موت کیوں قبول کی جائے ساری زندگی شان سے جی کر رسوائی کی موت
مرنا اگر قبول کرتا تو ٹیپو سلطان کرتا جس کے پاس کوئی دوسرا حل ہی نہ تھا
لیکن اس نے موت کو لگا گلے کر رہتی دنیا تک اپنا نام سنہری حروف کے ساتھ
باقی چھوڑ دیا جسے آج ہم فخر سے یاد کرتے ہیں مثالوں میں بیان کرتے ہیں اور
تاریخ میں دھراتے ہیں. اگر اس وقت وہ مصلحت کا شکار ہو جاتا تو تب بھی اس
نے مرنا اسی وقت ہی تھا لیکن رسوائی کی موت مرتا. میر جعفر اور میر صادق
بھی اپنے مقررہ وقت تک جی کر مر گئے لیکن تاریخ انہیں غدار وطن کے نام سے
پکارتی ہے. یہ حقیقت ہے کہ موت سے پہلے کوئی مر نہیں سکتا تو پھر کاہے تین
دہائیوں پر محیط تاریخ کو داغدار کیا جائے. ہم سیاست سے نابلد سہی لیکن محب
وطن کے طور پر اپنا خیالات کو آپ تک پہنچانے کا حق رکھتے ہیں.
ہم نہیں چاہتے کہ آپ کی بیماری کا تمسخر اڑایا جائے یا آپ کا شمار بھاگنے
والوں میں کیا جائے. سانچ کو انچ نہیں تو پھر آپ کو اپنی اس ساکھ کو بحال
رکھنا چاہیے تھا جس ساکھ کی خاطر آپ نے اپنے جیون ساتھی کو لندن کے
اسپتالوں میں تن تنہا چھوڑ کر وطن واپس لوٹ آئے تھے. آپ سے زندگی نے کیا
کیا امتحان نہیں لیے لیکن آپ کوہ گراں کی طرح ڈٹے رہے جمے رہے محض ملکی
سالمیت کی خاطر آپ نے کون سا باد و باراں کا سامنا نہیں کیا اب چند سانسوں
کی خاطر وطن سے دور جا کر حریفوں کو مذید ہرزہ سرائی کا موقع دینا اپنی عقل
سے بالاتر ہے. ذوالفقار علی بھٹو اپنے اصولوں کی بنا پر آج بھی زندہ مانے
جاتے ہیں اگر وہ ایک بار لڑکھڑا جاتے تو آج عام لوگوں کی طرح مٹی کا ڈھیر
سمجھے جاتے. آج پورا خاندان تہ خاک ہے لیکن عوام کی زبان پر ایک ہی نعرہ ہے
کہ بھٹو َزندہ ہے. جب کہ بھٹو نہیں بھٹو کے الفاظ اور اصول زندہ ہیں. اور
یہی اصول انہیں امر کر گئے ہیں.
لندن کے اسپتالوں میں اگر شفا ہوتی تو بیگم کلثوم صاحبہ کبھی نہ مرتی بلکہ
صحت یاب ہو کر واپس وطن آتیں لیکن موت نے یہ بتا دیا کہ ہر جگہ آ کر رہتی
ہے اس کے لیے مشاطہ کی جھونپڑی ہو یا فرعون کے محل کچھ معنی نہیں رکھتے. آپ
لاہور ہی کے کسی اسپتال یا اپنے بنائے ہوئے اسپتال میں داخل ہو کر علاج
معالجہ کرا کر بانی پاکستان کی طرح کی ایک مثال قائم کر جاتے. ہم آپ کی
سلامتی کے لئے دعا گو ہیں لیکن اس حقیقت سے انحراف نہیں کہ شفا اسپتالوں
میں نہیں بلکہ منجانب اللہ ہے. آپ اگر باہر نہ جاتے تو فیض احمد فیض کا یہ
شعر کتنا صادق آتا کہ. جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم ______ جو چلے تو جاں سے
گزر گئے........ صد افسوس کہ آپ یوں نہ کر پائے اور تاریخ کے پہلے باب میں
آتے آتے کئی بہت دور چلے گے... .؛ |