ڈاکٹر غلام شبیررانا
ایتھنزسے دوسومیل شمال کی جانب مقام اسٹاگیر ا ( Stagira) ارسطو کی جنم
بھومی ہے ۔ ارسطو کاباپ نکوماشش (Nicomachus)شعبہ طب سے وابستہ ایک متمول
شخص تھا اور مقدونیہ کے بادشاہ ’ایمن ٹاس ‘ (Amyntas III of Macedon)کاذاتی
معالج تھا ۔سال 2020میں ارسطو کی پیدائش کودو ہزار چار سو چار سا ل بیت گئے
مگر آج بھی قدیم یونانی فکر و فلسفہ کے اس انتہائی معتبراور موقر نمائندے
کے عالمی ادبیات اور فلسفے پر اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ ارسطو نے طب کی
ابتدائی تعلیم اپنے باپ سے حاصل کی ۔ جب ارسطو کی عمر محض تیرہ سال تھی
ارسطو کی والدہ اور والدکاانتقال ہو گیا۔اٹھارہ سال کی عمر میں ارسطو
ایتھنز پہنچااور افلاطون اکیڈمی میں افلاطون کاشاگر د بن گیا۔پیہم بیس برس
تک ارسطو نے افلاطون سے فلسفے کے شعبے میں اکتساب ِ فیض کیا۔ایتھنز کی
معاشرتی زندگی کے اسرارو رموز ارسطو کی دلچسپی کا محور تھے ۔افلاطون نے
اپنے ہونہار شاگرد ارسطوکی صلاحیتوں کوہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا اور اس
کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اُسے’ ذہانت مجسم‘ اور اس کے مکان کو ’ پڑھنے
والے کا گھر ‘ قراردیا۔ اپنے یتیم شاگرد ارسطو کی تعلیم و تربیت میں
افلاطون نے گہری دلچسپی لی۔ مقدونیہ کے بادشاہ فلپ ( Philip II of Macedon)
نے اپنے بیٹے سکندر (Alexander III of Macedon)کی تعلیم وتربیت کے لیے
ارسطو کو اس کا اتالیق مقرر کیا۔سولہ سال کی عمر تک سکندرمسلسل ارسطو کی
نگرانی میں تعلیمی مدارج طے کرتا رہا۔ اپنے باپ فلپ کے قتل کے بعد
336,BCمیں سکندرنے عنان اقتدار سنبھالی تو اس نے نہایت فیاضی سے کام لیتے
ہوئے ارسطو کی قدر افزائی کوئی کسر اُٹھانہ رکھی ۔ ارسطو نے اس پر سکون
ماحول میں اپناعلمی و ادبی کام جاری رکھا قدیم یونانی فلسفی سقراط ( B470
BC,D,399BC : Socrates)کے شاگرد اور ایتھنزکے ممتاز فلسفی اور مفکر افلاطون
( Plato :B, 429 BC ,D,348 BC )نے تخلیق فن کے لمحوں میں نقالی،تخلیق ادب
کے مقاصداوراس کی نوعیت اور ادب پاروں کی ہمہ گیر نوعیت کی وسعت اور جامعیت
پر خیال افروز مباحث کا آغاز کیا۔افلاطون کی وفات کے بعد ارسطو نے افلاطون
اکیڈمی کوخیر باد کہہ دیا۔ترپن سال کی عمر میں ارسطو نے لائی سم (
Lyceum)کے نام سے ایک درس گاہ قائم کی جہاں نیچرل سائنس،فلسفہ ،علم و ادب
،حیاتیات اور علوم وفنون پر تحقیقی کام ہوتا تھا ۔ارسطو ( 384 BC-322BC:
Aristotle) کو اس بنا پر تنقید کابنیاد گزار قرار دیا جاتاہے کہ اس نے اپنی
وقیع تصانیف ’ بوطیقا ‘ (Poetics) اور ’ رطوریقا ‘ (Rhetoric) یعنی فن
خطابت میں اپنے استاد افلاطون کے فن کے بارے میں پیش کردہ مباحث جن میں فن
کو ’ نقل‘ کہنا شامل ہے سے اختلاف کرتے ہوئے اُسے ایک منضبط اور مربوط فکری
نظام کے قالب میں ڈھالا ۔ ارسطو نے تاریخ ِادب میں سب سے پہلے فلسفہ کو جن
مختلف شاخوں میں تقسیم کیا ان میں منطق،ما بعد الطبیعات ،فطری فلسفہ ،اذہان
کافلسفہ ، سیاسیات ،علم بیان اور اخلاقیات شامل ہیں ۔شاعری کے فن اورنوعیت
کے بارے میں اپنی تصنیف’ بوطیقا ‘میں ارسطو نے ان مقاصد کا ذکر کیا ہے
جنھیں ایک تخلیق کار تخلیق فن کے لمحوں میں پیشِ نظررکھتا ہے ۔ دیارِ مغرب
میں پروان چڑھنے و الی شعری و ادبی روایت کے سوتے ارسطو کی تصنیف ’ بوطیقا
‘ہی سے پُھوٹتے ہیں۔ عربی اور فارسی شعر و ادب کی روایت کو بلندآ ہنگ
عطاکرنے میں خطابت ،فصاحت اور بلاغت کے اہم موضوع پر ارسطو کی تصنیف ’
رطوریقا ‘ کو کلید ی اہمیت حاصل ہے ۔ تخیل کا انسلاک اُن مشاہدات سے ہے جو
سرحدِ حسیات سے آ گے نکل کرمظاہر کے باطن میں پنہاں تعلق کے بارے میں آ گہی
سے متمتع کرنے کا وسیلہ ہیں۔ تنقید میں تخیل کی اہمیت مسلمہ ہے ان خیالات
سے معلوم ہوتاہے کہ تخلیق کار فصاحتِ کلام کے اعجازسے قارئین ِ ادب کے فکر
و خیال کو اس طرح مہمیزکرتاہے کہ وہ تخلیق کار کے اشہبِ قلم کی جولانیوں
اورادب پارے میں پنہاں گنجینۂ معانی کے طلسم کے تمام حقائق کو جان لیتاہے ۔
فصاحت کے معجزنما اثر سے تخلیق کار اور قاری کے مابین ایک معتبر ربط پیدا
ہوجاتاہے ۔ایک زیرک تخلیق کار بلاغت کے اعجاز سے کم سے کم الفاظ میں زیادہ
وسیع موضوعات ،مفاہیم اور مطالب کو پیرایۂ اظہار عطاکرتا ہے ۔ بلاغت کے
سلسلے میں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ یہ کلام اقتضائے حال سے مطابقت
رکھتا ہے اور اختصار اور جامعیت اس کے امتیازی اوصاف ہیں۔کلام میں نہ اس
قدراختصارہوکہ مدعا ہی عنقا ہو جائے اور نہ شیطان کی آ نت جیسی طوالت کہ
بیزار کن اکتاہٹ بلائے جان بن جائے ۔بلاغت کے فن میں تخیل و استدلال کی
احسن ترتیب یعنی منطق اور درست الفاظ کے بر محل استعمال یعنی صرف و نحوکو
بہت اہمیت حاصل ہے ۔
افلاطون نے مطالعۂ فن اور مطالعۂ اخلاق کوایک ہی چیزقرار دیاجب کہ ارسطو نے
اپنی تصنیف’ بوطیقا‘میں اس سے اختلاف کرتے ہوئے اپنے مدلل جواب میں ان کی
جداگانہ حیثیت کو اُجاگرکیا۔ارسطو نے ادب میں جمالیات کی اہمیت کو محسوس
کرتے ہوئے جمالیاتی اصول وضع کیے جن کے اعجاز سے تخلیقی عمل کو منضبط کرنے
میں مدد ملی ۔ارسطو نے اس جانب توجہ مبذول کرائی کہ جب کسی بھی تخلیقی فن
پارے کے محاسن کامعاملہ ہوتو ان کا تعلق جمالیات سے ہوتاہے ۔ مثال کے طور
پر :
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھیے جا کر نظر کہاں
اپنے حقیقی مفہوم کے مطابق یہاں استعما ل ہونے والے الفاظ خوب ‘ اور ’ خوب
تر ‘ اخلاقیات کے بجائے جمالیات کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔
ادبی اور نظری تنقید پر اپنی نوعیت کی دنیاکی سب سے پہلی کتاب کی حیثیت سے
ارسطو کی تصنیف ’ بوطیقا ‘ کی اہمیت و افادیت ہر دور میں مسلمہ رہی ہے ۔
گزشتہ کئی صدیوں سے مغرب میں ارسطاطلیسی مکتبۂ فکر ( Aristotelian thought
)کو رو بہ عمل لانے والے اسے فلسفہ میں ارسطو کی روایت کے حوالے سے’
Aristotelianism‘کہتے ہیں ۔ارسطو نے ادب اورفنون لطیفہ سے متعلق علوم جن
تین حصوں میں تقسیم کیا ہے اُن میں تخلیقی علوم ،نظری علوم اور عملی علوم
شامل ہیں ۔ارسطو نے تخلیقی علوم میں شاعری اور خطابت ،نظر ی علوم میں
طبیعات،مابعد الطبیعات اور ریاضی جب کہ عملی علوم میں اخلاقیات اورسیاسیات
کو شامل کیاہے ۔ارسطو کی تصنیف ’ بوطیقا‘ کا پہلاحصہ چھبیس ابواب پر مشتمل
ہے جن میں المیہ کابیان غالب ہے ۔’ بوطیقا‘ کا دوسرے حصے کا موضوع طربیہ
تھامگر یہ حصہ ابلقِ ایام کے سموں کی گرد میں اوجھل ہو کر تاریخ کے طوماروں
میں دب چکاہے اوراب اس کا کہیں سراغ نہیں ملتا۔اپنی تصنیف ’ بو طیقا ‘ میں
ارسطو نے جن اہم ترین بنیادی اصطلاحات پر توجہ مرکوز رکھی ہے ان میں
نقل،پلاٹ ،سقم ،تزکیہ نفس اور آفاقیت نمایاں ہیں ۔ارسطو کی تصنیف ’ بو طیقا
‘ کے مختلف ابواب میں شامل موضوعات کی تفصیل درج ذیل ہے :
باب نمبر ایک تا باب نمبر پانچ : شاعری کی اصناف اور تخلیقِ فن کے
مدارج،انتقاد ِ ادب کے اصول اور ان کے پس ِپردہ کار فرماعوامل کا نفسیاتی
پس منظر، المیہ اور طربیہ کے مسائل
باب نمبر چھے تاباب نمبر اُنیس : المیہ کی تعریف ،المیہ کے عناصر اور المیہ
کے اہم موضوعات
باب نمبربیس تاباب نمبر بائیس : شاعری کے لسانی حوالے
باب نمبر تئیس تا باب نمبر چھبیس : تخلیقِ شعر اور نقدو نظر کے مسائل
ارسطو کے بحر علم کی غواصی کرتے وقت بوطیقا کا مطالعہ کرتے وقت قاری کچھ
تشنگی سی محسوس کرتاہے ۔ان کی تفصیل درج ذیل ہے :
۱۔ غنائیہ شاعری کو ارسطو نے لائقِ اعتنا نہیں سمجھا۔
۲۔ ارسطو نے بوطیقا میں رزمیہ اور طربیہ پر اپنے خیالات کااظہار کرتے وقت
اختصار سے کام لیاہے ۔اس جہان ِمعانی سے اس کا سرسری انداز میں گزر
جاناحیران کن ہے ۔
۳۔بوطیقا میں اقلیم شعر کی طرف بھرپور توجہ نہیں دی گئی بل کہ صرف المیہ کو
موضوع ِ بحث بنایاگیاہے ۔
۴۔ اپنے عہد کے تعصبات کی اسیری نے ارسطو کے اسلوب کو متاثر کیا۔
۵۔ المیہ کے موضوع پر ارسطو نے جس طرح سیرحاصل بحث کی ہے اس کے نتیجے میں
تخلیق فن کے متعد دمحرکات نظر انداز ہوگئے ۔ ادبی تاریخ کے مطالعہ سے یہ
واضح ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ احساس پید ہونے لگاکہ یہ انداز
فکر اقتضائے وقت کے مطابق نہ تھا۔
۶۔لیسنگ ( Lessing ) نے کہا تھاکہ قارئین کو چاہیے کہ وہ ارسطوکو سمجھنے کے
لیے ارسطو کے حوالے ہی کو معتبر سمھیں ۔
۷۔ بوطیقا میں اصطلاح ’ تقلید ‘ کو ارسطونے کئی مقامات پر استعمال کیا ہے
۔ہر بار اس اصطلاح کاموقع و محل اور مفاہیم و مطالب کا متغیر ہوجاناقاری کو
حیرت زدہ کر دیتاہے ۔
ارسطو کاطریقِ کار
۱۔ ارسطو نے تخلیقِ شعرکے بارے میں پایا جانے والاالہامی اوروجدانی
تصورلائقِ استردادٹھہرایا۔
۲۔ ارسطو نے اس بات پر زور دیا کہ ادب میں استقرائی ،تجزیاتی اورسائنسی
طریق کار کورو بہ عمل لانے کی مساعی پر توجہ دی جائے ۔
۳۔ فارم کے اعتبار سے تخلیقِ شعر کو ارسطو نے انسانی فطرت کے اہم تقاضے سے
تعبیر کیا۔
۴۔ارسطو نے اس بات سے اتفاق کیا کہ فطری طور پر انسان میں نقالی
یاتقلیدکامادہ موجود ہوتاہے ۔
۵۔ ارسطوکاخیال ہے کہ فلسفہ کے مانندشاعری بھی انسانی حیرت اور استعجاب
کوتحریک دینے کا وسیلہ ثابت ہوتی ہے ۔
۶۔ اپنے منطقی مزاج کی بناپر ارسطو نے یہ واضح کیا کہ اس عالمِ آب و گِل کے
مظاہر اور مختلف اشیاکی اصلیت اور جوہر کی تفہیم کے لیے یہ امر نا گزیر ہے
کہ ان سب کی ارتقائی کڑیوں کابہ نظرِ غائر جائزہ لیاجائے ۔
۷۔ادبی مسائل کاتاریخی اور حیاتیاتی نقطہ ٔ نظر سے مطالعہ کرنے کے سلسلے
میں ارسطو کو اوّلیت کا اعزازحاصل ہے ۔
جہا ں تک ارسطو کی فکر ی اسا س کا تعلق ہے اس کے بارے میں اہم نکات درج ذیل
ہیں :
۱۔ تقلید کی اصطلاح جسے ارسطو نے معنوی وسعت عطاکی یہ قدیم یونانی مفکرین
کے ہاں مستعمل رہی ہے ۔افلاطون نے بھی تقلید کے بارے میں خیال افرو ز مباحث
کا سلسلہ جاری رکھا۔ارسطو نے تقلید کی اصلاح اسی فکری منہاج پر استوار کی
جو ماضی کی روایت کا حصہ رہیں ۔
۲۔ارسطوکاخیال تھاکہ تخلیقی علوم کے قواعد و ضوابط کوآفاقی صداقتوں کی اساس
پر استوار کرنا بعید از قیاس ہے ۔ غالباًیہی وجہ ہے کہ ارسطو نے شاعری کے
لیے آفاقی نوعیت کے قوانین کی تشکیل کو لائق اعتنا نہیں سمجھا ۔
۳۔ارسطو نے اپنی تصنیف ’ بوطیقا ‘ میں جن ہمہ گیر اصولوں کا ذکر کیا ہے اُن
کے سوتے فطرت کی عکاسی کرنے والے ادب سے پُھوٹتے ہیں۔ان اصولوں کی ہمہ گیر
افادیت ہر عہد میں مسلمہ رہی ہے ۔
شاعری کی ماہیت کے بارے میں ارسطو نے درج ذیل امور کی صراحت کی ہے :
۱۔ارسطو نے تخلیق فن کے لمحوں میں عمل تقلید کی بات کی ہے ۔ارسطو کا خیال
ہے کہ عمل تقلید انی نوعیت کے اعتبار سے تخلیقِ نو سے مماثلت رکھتاہے ۔
۲۔شاعرانہ عمل ایک تخلیق کار کی وسعت ِنظر اور تخلیقی بصیر ت کامظہر ہوتاہے
اس لیے شاعری کو محض مظاہر ِ کائنات سے وابستہ حقائق اور واقعات کی نقالی
قرار نہیں دیاجاسکتا۔
۳۔ارسطو نے شاعری کو وسیع ترمعانی عطا کیے ۔وہ شاعری کو نہ تو محض تقلید
اورنقالی سمجھتا ہے اور نہ ہی اسے فریب ِ نظر ، وہم و گماں اورسراب قرار
دیتاہے ۔
تاریخ کے مسلسل عمل اور شاعری کے حوالے سے ارسطونے جن خیالات کا اظہار کیا
وہ درج ذیل ہیں :․
۱۔ ہر عہد کی بڑی شاعری اپنی ہمہ گیری،آفاقیت اورآفاقی صداقتوں کی ترجمانی
کی بنا پر روح اورقلب کی گہرائیوں میں اُتر جاتی ہے ۔
۲۔ اپنی تاثیر کے اعتبار سے بڑی شاعری اس عالم ِ آب و گِل کے تمام مسائل کا
احاطہ کرتی ہے ۔ایسی شاعری کو زمان و مکان کے حصار میں مقید نہیں کیا
جاسکتا۔
۳۔فلسفہ اور شاعری میں قدر مشترک یہ ہے کہ دونوں کامطمح نظر ایک ہے اس لیے
ان میں تضادکا کوئی تصور نہیں ۔ فلسفہ اور شاعری کی منزل مقصود ایک ہے
۔دونوں کائناتی اور آفاقی صداقتوں کی جستجو کے لیے انہماک کا مظاہرہ کرتی
ہیں۔
ارسطو کے نزدیک ادب ور فنون لطیفہ کے لیے جمالیاتی عنصر کو کلیدی اہمیت
حاصل ہے ۔ بڑی شاعری کے لیے جمالیاتی عنصرکی موجودگی ناگزیر ہے ۔ بڑی شاعری
میں جہاں تک اخلاقی عنصر کاتعلق ہے یہ اضافی اور ثانوی نوعیت رکھتاہے ۔ عمل
تقلید اور فطرت کے موضوع پر ارسطو نے واضح کیاہے کہ فن ہمیشہ فطرت کی تقلید
کو شعاربناتاہے ۔اس انگارۂ خاکی نے سدا تقلید کے معروض میں عمل پیراہوتے
ہوئے تخلیق فن کو مطمح نظر بنایا ہے ۔مشابہت اور نقالی کی اشیا میں سدا
فعال انسان ہی شامل رہے ہیں۔بہار اور خزاں کے سیکڑوں مناظر میں اخلاق اور
کردار کے اعتبار سے انسان کے متعد رُوپ ہیں جن میں بلند، پست ،ہمدر اور بے
درد شامل ہیں ۔ ارسطو کا خیال ہے کہ انسانوں کاطرزِ عمل ہی ان کے امتیاز ی
اوصاف کا تعین کرتاہے ۔
اِس بے ثبات عالمِ آ ب و گِل میں انسان کی حیات ِمستعارمعروض ِ تقلید (
Object Of Imitation)کے سو اکیا ہے ۔ معمولی سی آب جُو کو بحرِبے کراں
،قطرے کوآبِ رواں ذرے کو آب وتاب عطا کرکے خورشید جہاں تاب کی تمازت
عطاکرنے والی اشہبِ قلم کی جولانی اور فکر و خیال کو مہمیزکرنے والی تحریک
تخلیق ( Inspiration)ید بیضاکا معجزہ دکھاتی ہے ۔ اسی کے اعجاز سے گل دستہ
ٔ معانی کو نیا ڈھنگ اور ایک گلِ تر کا مضمون سورنگ سے باندھنے کاقرینہ
نصیب ہوتاہے ۔ ارسطو نے شاعری کو تقلید ( Imitation)ایک صورت قرار دیتے
ہوئے اس کی جو چار صورتیں پیش کی ہی ں ان میں رزمیہ ،المیہ،طربیہ اور
غنائیہ شامل ہیں۔ ارسطو نے ’ بوطیقا‘ا میں شاعری کی ماہیت او ر تزکیہ نفس
کے موضوع پر خیال افروز مباحث کا آغاز کیا۔ ارسطو کی مساعی سے شعروادب کی
تحسین کے متعدد در وا ہوتے چلے گئے ۔ ارسطو کا خیال تھاکہ حساس تخلیق کار
کی تخلیقی فعالیت سے اشعار سے نمو پانے والے جذباتی تاثرات ان خوابیدہ
جذبات کو ایسی تمازت سے متمتع کرتے ہیں جواظہار کی نئی راہیں تلاش کرتے
ہیں۔ اپنی روانی کے لیے راہ نہ پانے کی صورت میں ندی نالے جب چڑھنے لگتے
ہیں تو سب رکاوٹوں کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتے ہیں ۔اسی طرح بڑھتے
ہوئے جذبات بھی اپنے اخراج کے لیے موزوں صورت تلاش کر لیتے ہیں۔جذبات کے اس
انداز میں اخراج کے عمل کو ارسطو نے تزکیہ ٔ نفس( Katharsis) سے تعبیر کیا
ہے ۔ حبس کے ماحول میں انسان شدید گھٹن اور اعصابی تناؤ کا شکارہو جاتاہے
۔جب متاعِ لو ح و قلم چھین لی جائے اور لبِ اظہار پر تالے لگا دئیے جائیں
تو قیامت کے اس دکھ میں ایسی نفسیاتی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے کہ اگر جذبات
کا اظہار نہ ہو سکے تو ہرطرف مرگِ ناگہانی کا آسیب منڈلانے لگتاہے ۔تزکیہ
نفس کا تعلق اخلاقیات سے زیادہ نفسیات سے ہے ۔شاعر تخلیق فن کے لمحوں میں
تزکیہ نفس کرتاہے جب کہ قاری اس کی شاعری پڑھ کر اپنے جذبات کی تسکین اور
تزکیہ نفس کی ممکنہ صورت تلاش کر لیتے ہیں ۔پر جوش شاعری ہو یا برائے نام
قافیہ پیمائی ہر صورت میں اظہارو ابلاغ کے لیے آ ہنگ و صوت کے موزوں
معائرناگزیرہیں ۔اس قسم کے حالات کو پیشِ نظررکھتے ہوئے احمدفراز نے
کہاتھا:
ضبط لازم ہے مگر دُکھ ہے قیامت کا فرازؔ
ظالم اب کے بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا
ارسطو نے اپنی کتاب ’ بوطیقا ‘ میں المیہ کے موضوع پر مدلل گفتگو کی ہے ۔اس
کا خیال ہے کہ المیہ ایک ایسی فعالیت کی نقالی کا نام ہے جس میں جذبات کو
پوری صداقت اور سنجیدگی کے ساتھ، ایک خاص حجم ،مناسب آ ہنگ اورخلوص کے ساتھ
پیرایۂ اظہار عطاکیا جائے ۔ ایک تخلیقی فن کاراپنے ذہن و ذکاوت کو رو بہ
عمل لاکر المیہ میں پوری سنجیدگی کے ساتھ ایسے عمل کی تقلیدکی سعی کرتا ہے
جو اس کے دل پر اُترنے والے سب موسموں کے احوال سے مزین ہو ۔المیہ کا آغاز
،وسط اور اختتام گہری معنویت کا حامل ہوتاہے ۔تخلیق ِ فن کے لمحوں میں ایک
مرصع سازکی حیثیت سے المیہ نگاربیانیہ کے بجائے ایسا موثر ڈرامائی انداز
اپناتاہے جس میں ترحم اور اضطراب کی کیفیات سے جذبات کے تزکیہ کی صورت پیدا
ہو جاتی ہے ۔ ارسطو نے المیہ کے بارے میں لکھاہے :
,, Tragedy ,then ,is an imitation of an action that is serious ,complete
and of a certain magnitude ; in language embellished with each kind of
artistic ornamnent,the several kinds being found in separate parts of
the play in the form of action ,not of narrative ;through pity and fear
effective the proper purgation of these emotions.,, (1)
المیہ افردا کی نہیں بل کہ زندگی کے افعال کی ایسی نقالی سے عبارت ہے جس
کاانحصار کام کی وضع پر ہے نہ کہ کام کے معیارپر ۔ خیال و کردار در اصل
قدرتی اسباب ہیں جن سے افعال کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ان افعال کی کامیابی
یاناکامی پلاٹ کے ارتقا ئی مدارج میں شامل ہے ۔ ارسطو نے المیہ کے چھے
عناصر بیان کیے ہیں جن پر افعال کے معیار کاانحصار ہے ۔
۱۔ پلاٹ ( Plot)،۲۔کردار(Character)،۳۔خیال (Thought) ،۴۔زبان(
Diction)،۵۔نظارہ ( Spectacle)،گیت سنگیت ( Song)
ارسطو کے نزدیک المیہ کااہم ترین اصول پلاٹ ہے اور یہی المیہ کی روح بھی ہے
۔پلاٹ کی ترتیب میں خارجی عوامل کے بجائے داخلی وحدت کو پیش نظر رکھناازبس
ضروری ہے ۔ ارسطو نے پلاٹ کی سادہ اور پیچیدہ دو قسمیں بتائی ہیں ۔ ایک
ایسا کام جو واحد اور پیہم رواں ہووہ سادہ کہلاتاہے ۔ایسے پلاٹ میں مقدر کا
بدلنا دنوں کے اُلٹ پھیرکی شناخت کی احتیاج نہیں رکھتا۔پیچیدہ پلاٹ میں
گردشِ ایام کے نتیجے میں تقدیروں کے بدلنے کا انسلاک تدبیروں اور نیّتوں کے
اُلٹنے اور شناخت سے ہوتاہے ۔ شناخت کے بارے میں ارسطو نے اس امر کی صراحت
کر دی ہے کہ یہ لاعلمی سے علم کی طرف لے جانے کا وسیلہ ہے ۔ ابن الوقت
،موقع پرست ،مفاد پرست اور محسن کش سفہا کے مکر کی چالوں سے جب محبت میں
ہوس اور حرص کی اسیری بڑھ جائے تو محبت بھی نفرت میں بدل جاتی ہے ۔ ایسی
محبت کے الم ناک انجام پر دِل خون کے آنسوروتا ہے۔المیہ کی شناخت میں
انسانیت شناسی کلیدی کردارکی حامل سمجھی جاتی ہے ۔ارسطو نے کام کے پیہم
رواں دواں رہنے پر اصرارکیاہے ۔ترکِ تعلقات بلاشبہ ایک المیہ ہے ۔اس
کااحساس وقت گزر جانے کے بعد ہوتاہے ۔ ٓٓ نسو روتاہے اس میں انسانیت شناسی
کلیدی کردارادا کرتی ہے ۔پلاٹ کے آغاز،وسط اور اختتام میں توازن ناگزیر ہے
۔پلاٹ در اصل افعال کی نقالی کانام ہے زندگی کے مختلف واقعات کو ا ِس میں
ترتیب کے ساتھ پیش کیا جاتاہے ۔ جس طرح کسی تصویر کے رنگ اسے خاص معنویت سے
متمتع کرتے ہیں اسی طرح المیہ کے کردار ہیں جو المیہ کومختلف رنگ عطاکرتے
ہیں ۔ماہر مرصع ساز کی طرح المیہ نگار درپیش حالات کی مناسب انداز میں مرقع
نگاری کر تے ہوئے ایسے کردار متعارف کراتا جومعاشرتی زندگی کے بارے میں
تکلم کے سلسلوں کو آگے بڑھاتے ہیں۔ کردار افعال کے ترک وانتخاب کے ذریعے ان
اخلاقی مقاصدکی جانب متوجہ کرتے ہیں جومعاشرتی زندگی کوراحت اور مسرت سے
معمور کردیتے ہیں۔المیہ نگار کاخیال سے معاملہ بہت اہم ہے۔وادیٔ خیال
کااحوال اور مطالب کو الفاظ کے قالب میں ڈھالنے میں الفاظ کی اہمیت مسلمہ
ہے ۔حسین و دل کش مظاہر فطرت اور مناظر کے مشاہدے کی اپنی ایک خاص نوعیت کی
جذبات کشش ہے جس کاکرشمہ دامن ِ دل کھینچتاہے ۔ مرزا اسداﷲ خان غالب ؔ (
1797-1869)نے کہاتھا:
المیہ میں مختلف افعال کے تابع کرداروں کونمایا ں مقام حاصل ہے ۔نرغہ ٔ اعد
امیں کرداروں پر جو صدمے گزرتے ہیں وہ ان سے اس قدر پریشان اورخوف زدہ
ہوجاتے ہیں کہ اُن کی اُمید مرگِ ناگہاں پر منحصر رہتی ہے ۔کرداروں کی یہی
قابل رحم حالت ان کی المیہ کیفیت کو سامنے لاتی ہے ۔ارسطو کاخیال ہے کہ
کردار صرف اُسی صورت میں متاثر کرتے ہیں جب وہ کسی اچھے مقصدکے لیے سر گرم
ِ عمل ہوں۔کچھ کردار ایسے بھی ہوتے ہیں جنھیں شجاعت میراث میں ملتی ہے ۔
اگر کردارزندگی کی حقیقی ترجمانی کریں توالمیہ کی تاثیربڑھ جاتی ہے ۔المیہ
میں افراد کی نہیں بل کہ زندگی کے مختلف افعال کی نقالی کی جاتی ہے ۔زندگی
افعال سے عبارت ہے اور اس کا اختتام بھی ایک فعل ہی ہے ۔یہ کردار ہی ہیں جو
دار پر لٹک کر ہر وارسہتے ہیں اور المیہ کے بہاؤ میں ہمہ وقت بہتے ہیں۔جس
طرح مصور مختلف رنگوں کی آمیزش سے اپنی پسندیدہ تصویر کو جاذبِ نظربناتاہے
اسی طرح المیہ نگاراپنے خاص کرداروں کو متعارف کر انے کے بعداپنے اسلوب
کواثر آفرینی عطا کرتا ہے ۔اگر رنگ پرکشش نہ ہوں تو تصویر بالکل متاثر نہیں
کرتی اسی طرح اگر کردار بے جان ہوں توالمیہ سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا
بعیدازقیاس ہے ۔المیہ میں رنگ،خوشبو ،حسن و جمال ،عروج و زوال اور جذباتی
کیفیات کے سبھی استعارے کرداروں کے دم سے ہیں۔المیہ نگار اپنے اشہبِ قلم کی
جولانیوں سے قاری کو فکر و خیال کی ایسی وادی میں پہنچادیتاہے جہاں اِک
گونہ بے خودی اُس کی منتظر ہوتی ہے نرغہ ٔ اعدا میں انسان اپنی زندگی سے
مایوس ہوجاتاہے ۔ انتہائی خوف کے باعث اس کی زندگی قابلِ رحم ہوجاتی ہے
۔المیہ کی تفہیم کے حوالے سے یونانی دیومالاسے ماخوذایک واقعہ پیش ہے :
وہ چاہتا تھا کہ کاسہ خریدلے میرا
میں اُس کے تاج کی قیمت لگا کے لوٹ آیا
خبر مِلی ہے کہ سونا نکل رہا ہے وہاں
میں جِس زمین پہ ٹھوکر لگاکے لوٹ آیا ( راحت اندوری )
یونانی دیومالا کے مطابق تھیسلے ( Thessaly) میں واقع میلوبیا (Meliboea)کے
بادشاہ پو ئیاس ( Poeas) کے شجاع بیٹے فیلو ککٹس( Philoctetes)کی بہادری
،مہم جوئی اور خطر پسند طبیعت کی ہر طرف دھوم مچی تھی ۔ جادو کی کمان رکھنے
والاوہ ایسا ماہر ناوک انداز تھا جس کا نشانہ کبھی خطانہ ہوتا تھا۔اس نے
ہیری کلز(Heracles) کی آخری آرام گاہ کا راز فاش کر دیااور اس کی بد دعاسے
ایک سفر میں سانپ کے کاٹنے سے اُسے پاؤں پر ایسازخم لگا جو مندمل نہ
ہوسکا۔اس زخم سے بیمار کر دینے والی عفونت و سڑاند کے بھبھوکے اُٹھتے تھے
۔شہر کے لوگوں کی نفرتوں ،حقارتوں اور عداوتوں سے عاجزآ کروہ روپوش ہو
گیا۔کینہ پرور اور حاسد اس لیے اس مہم جو کے خون کے پیاسے تھے کہ وہ جنگ
تورجان (Torjan War ) جیتنے کے لیے وہ طلسماتی کمان اور تیرحاصل کرناچاہتے
تھے جو فیلو ککٹس کوہیری کلز نے دی تھی۔اُس کے زخم سے نکلنے والی بُو کی
وجہ سے اُنھوں نے فیلو ککٹس کو ڈھونڈنکالا۔ سگمنڈ فرائڈ اور کارل مارکس پر
کام کرنے والے اپنے عہد کے ممتاز امریکی ادیب،نقاد اور دانش ور ایڈ منڈولسن
(Edmund Wilson :1895-1972)نے اپنی کتاب زخم اور کمان( The wound andthe
bow)میں اسی جانب اشارہ کیا ہے ۔ عالمی شہرت کے حامل ممتاز جرمن ناول نگار
تھامس من ( : 1875-1955 Thomas Mann )کے اسلوب میں بھی اس یونانی دیو
مالائی کہانی کا پرتو ملتاہے ۔
ایک تخلیق کار اپنے تخیل کو متعددنئی جہات سے آ شنا کرتاہے ،یہ خیال ہی ہے
جو کسی چیزکے وجودیا عدم کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ صادر کر سکتاہے
۔المیہ میں وہ ممکنہ حدتک یہ دیکھتا ہے کہ حالات وواقعات کی مناسبت سے
اظہارو ابلاغ کی صورت تلاش کی جائے۔گفتگو اورتکلم کے سلسلوں کاتعلق بھی
خیال سے ہے ۔طے شدہ معائر اور مسلمہ اصولوں کا برملااعلان خیال کا امتیازی
وصف سمجھاجاتاہے ۔مفاہیم ،مطالب اورمدعا کو پیرایۂ اظہارعطاکرنے میں کسی
بھی زبان کے الفاظ کلیدی کردارادا کرتے ہیں۔المیہ نگار کے اسلوب میں یہی وہ
جوہر ہے جو نظم و نثر کی تخلیقات کو روح اورقلب کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر
جانے والی اثر آفرینی سے ثروت مند بنانے کا وسیلہ ہے ۔اسلوب کی زیب و زینت
میں موسیقیت و ترنم کااپنا ایک الگ مقام ہے ۔نالے کو پابند نے کرنا ہی
تخلیق کارکا کمال ہے ۔ نظارے کی اپنی ہی بات ہے جس کی جذباتی کشش پتھروں سے
اپنی تاثیر کا لوہا منوانے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔لفظی مرقع نگاری سے ایسا
نظارہ منصۂ شہودپر آتاہے کہ قاری چشمِ تصورسے المیہ سے وابستہ واقعات اور
مقامات دیکھ لیتاہے۔یہ تصنع سے بَری ہے اور اس کا احساس سے گہرا تعلق ہے ۔
المیہ میں جب تدبیریں اُلٹی ہو جاتی ہیں،قسمت کی لکیریں بدل جاتی ہیں
،تقدیریں بگڑجاتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے حالات کی کایا پلٹ جاتی ہے تواس
میں قارئین کاتجسس بڑھنے لگتا ہے۔ نو آبادیاتی دور میں مرزا اسداﷲ خان غالب
ؔ ( 1797-1869)نے اپنے ان اشعار میں پریشاں نظری کی مظہر شبیہ سازی اور
مشاہدے کے بارے میں حقیقت پسندانہ اندازمیں کہاہے :
اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہیں
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کِس حساب میں
بازیچہ ٔ اطفال ہے دنیامرے آ گے
ہوتاہے شب و روز تماشا مرے آ گے
حکیم مومن خان مومن( 1800-1851)نے کہا تھا:
ناوک انداز جدھر دیدہ ٔ جانا ں ہوں گے
اور بن جائیں گے تصویر جو حیراں ہو ں گے
ارسطو نے واضح کیاہے کہ المیہ ہمیشہ اچھے حالات کے بعد خراب حالات پیداہونے
کانام ہے۔سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑوں کی زدمیں آنے کے بعدجب روزمرہ زندگی کے
معمولات درہم برہم ہو جائیں اور یاس و ہراس کے ہجوم میں سینہ و دِل حسرتوں
سے چھا جائے تو اسے ایک المیہ سے تعبیر کیاجاتاہے ۔ المیہ کا اہم ترین مقصد
یہ ہے کہ اس میں انسان کی اُس زبوں حالی ،درماندگی اوربر گشتہ طالعی
کااحوال مذکورہوتاہے جو پیمان شکنوں کی سادیت پسندی ،محسن کش برادرانِ یوسف
کی کینہ پروری ،عادی دروغ گو سفہاکی انسان دشمنی یاخلوص کے بندوں کی اپنی
ہی کسی انتہائی مہلک غلطی یاخطا کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوتاہے ۔ خواجہ
حیدر علی آتش ؔ (1778-1848)نے انسانی زندگی کے اس المیے کے بارے میں کہا
تھا:
ہمیشہ میں نے گریباں کو چاک چاک کیا
تما م عمر رفوگر رہے رفو کرتے
نہ پُوچھ عالمِ بر گشتہ طالعی آتش ؔ
برستی آگ ،جو باراں کی آرزو کرتے
المیہ میں تاثیر ،رنگ ،خوبی اور حسن کے استعارے گیت ،سنگیت اورموسیقیت کے
مرہونِ منت ہیں۔ذیل میں اردو کے ممتاز شاعر ندا فاضلی ( 1938-2016)کی ایک
نظم سے اقتباس پیش کیا جارہاہے جس میں المیہ کے سب عناصرپوری شدت کے ساتھ
جلوہ گرہیں ۔ندا فاضلی کی اِس المیہ نظم میں حوالہ جاتی عنصر بہت اہمیت کا
حامل ہے ۔نظم کے حوالہ جاتی (Referential)پہلو کو پیشِ نظر رکھے بغیر قاری
کے لیے اِس المیہ نظم کا حقیقی استحسان کرنا ممکن ہی نہیں۔ پس نو آبادیاتی
دور میں قیام پاکستان کے وقت ندا فاضلی کا پورا خاندان ہجرت کر کے کراچی
منتقل ہو گیا لیکن ندا فاضلی نے تنہا ممبئی میں قیام کا فیصلہ کیا۔جب ان کے
والد کا کراچی میں انتقال ہوا تو بر صغیر کے ان دونوں ہمسایہ ملکوں میں
سرحدی کشیدگی کے باعث والد کے جنازے میں شامل ہونا بہت مشکل تھا۔اس دنیا
میں جب عزیزدائمی مفارقت دے جاتے ہیں تو تخلیق کار حرمتِ غم کے بارے میں
اپنے جذبات کوپیرایۂ اظہار عطاکرتے ہیں ۔اس سانحہ کو انھوں نے اپنی
نظم’’والد کی وفات پر ‘‘ میں ان الفاظ میں بیان کیا ہے :
والد کی وفات پر (نظم)
تمھار ی قبر پر
میں فاتحہ پڑھنے نہیں آیا
مجھے معلوم تھا
تم مر نہیں سکتے
تمھاری موت کی سچی خبر جس نے اُڑائی تھی
وہ جُھوٹا تھا
وہ تم کب تھے
کوئی سُوکھا ہوا پتہ ہوا سے ہِل کے ٹُو ٹا تھا
مری آنکھیں
تمھارے منظروں میں قید ہیں اب تک
میں جو بھی دیکھتا ہوں
سوچتا ہوں
وہ۔۔۔۔وہی ہے
جو تمھاری نیک نامی اور بد نامی کی دنیا تھی
کہیں کچھ بھی نہیں بدلا
تمھارے ہاتھ
میری انگلیوں میں سانس لیتے ہیں
میں لکھنے کے لیے
جب بھی قلم کاغذ اُٹھاتا ہوں
تمھیں بیٹھا ہوا میں اپنی ہی کرسی میں پاتا ہوں
بدن میں میرے جتنا بھی لہو ہے
وہ تمھاری
لغزشوں،ناکامیوں کے ساتھ بہتا ہے
مری آواز میں چھپ کر
تمھارا ذہن رہتا ہے
مری بیماریوں میں تم
مری لا چاریوں میں تم
تمھاری قبر پر جس نے تمھارا نام لکھا ہے
وہ جُھوٹا ہے
تمھاری قبر میں مَیں دفن ہوں
تم مجھ میں زندہ ہو
کبھی فُرصت ملے تو فاتحہ پڑھنے چلے آنا
ندا فاضلی اپنے احباب سے رشتۂ دِ ل استوار کر کے زندگی بھر محبتوں کے گل
ہائے رنگ رنگ کھلاتے رہے لیکن ہوائے دشت فنا کے مسموم بگولے سب پھولوں کو
اُڑ ا لے گئے۔یہ المیہ زندگی کے حقائق کامظہر ہے اوراس میں کوئی بات خلاف ِ
عقل نہیں ہے ۔تخلیق کار نے مستقل مزاجی کوشعار بناتے ہوئے اپنے جذبات کواس
المیے میں سمیٹاہے۔
یہ کائنات ابھی نا تمام ہے اسی لیے تو دما دم صدائے کن فیکوں سنائی دے رہی
ہے ۔ادب اور شاعری کی اقلیم میں رونما ہونے والے واقعات متعددنئے امکانات
سامنے لاتے ہیں۔ آفاقی صداقتوں کے مظہر بعض واقعات ایسے ہوتے ہیں جن کاوقو
ع پذیر ہونا منطقی اور امکانی اعتبار سے درست معلوم ہو ۔ سانسوں کی صلیبوں
پر لٹکتی ہوئی لاشیں دیکھ کر اس عہد کے انسان کی بے حسی اور بے بسی واضح
ہوجاتی ہے ۔ ارسطو نے اپنے نظریۂ امکانات میں سیلِ زماں کے تھپیڑوں کے بارے
میں لکھاہے :
" According to the law of probability or necessity ,will admit of a
change from bad fortune to good, or from good fortune to bad." (2)
المیہ نہ صرف کسی مکمل فعل کی نقالی پر مبنی ہوتاہے بل کہ اس میں متعدد
لرزہ خیز ، خوفناک ، اعصاب شکن اور قابلِ رحم حالات کی مرقع نگاری کی جاتی
ہے ۔ان واقعات میں تجسس اور حیرت کی کیفیت المیہ کو مقاصد کی رفعت کے
اعتبارسے ہم دوشِ ثریاکر دیتی ہے ۔ جب زمین بھی دل کے مانند دھڑکنے لگے تو
جان لینا چاہیے کہ یہ کسی حادثے کا انتباہ ہے۔ تغیر حالات اور زمانے کے
اتفاقات کے نتیجے میں رونما ہونے والے واقعات کو سامنے لانے والا المیہ
پتھروں سے بھی اپنی تاثیر کا لوہا منوا لیتاہے ۔ انسان کی حباب اور سراب کی
سی ہستی کااقراریا انکار کیسے ممکن ہے سچ تو یہ ہے کہ اس عالمِ
ناپائیدارمیں حیاتِ مستعار خواب میں گفتار کے مانندہے ۔ زندگی کا ساز بھی
انوکھاساز ہے جوہمہ وقت بج رہاہے مگر کوئی اس کی آواز پر کان دھرنے پر
آمادہ نہیں ۔ عہدنا پرساں میں ہر کوئی اپنی فضامیں مست پھرتاہے کسی کو حساس
تخلیق کار کی چشمِ نم کی جانب دیکھنے کی فرصت ہی نہیں۔ ممتاز پاکستانی شاعر
جون ایلیا ( 1931-2002)نے حیات ِ بے ثبات کے المیہ کے بارے میں سچ کہا تھا:
میرا سانس اُکھڑتے ہی سب بین کریں گے روئیں گے
یعنی میرے بعد بھی یعنی سانس لیے جاتے ہوں گے
مطالعہ ٔ ادب کے شائقین یہ بات اکثر سنتے چلے آ رہے ہیں کہ تخلیق کار کو
معاشرے کے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے وہی طرز عمل اپنا نا چاہیے جو
اِقتضائے وقت کے عین مطابق ہو ۔یہ انداز ِفکر بہ جائے خود محلِ نظر ہے اس
طرح تو تخلیقی عمل کو حدود و قیودمیں محصورکر دیا جائے گااورتخلیق کار کے
افکار کی آزادانہ روانی کے سامنے بے جا قدغنوں کی سد سکندری حائل ہو جائے
گی۔متاعِ لوح و قلم چھیننے والے اس طرح حریت فکر کا علم تھام کر آگے بڑھنے
والے ادیبوں کاگلا گھونٹ کر من مانے نتائج حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔اگر
ادب کو مفاد پرست استحصالی عناصر نے اپنا آلۂ کار بنالیاتو مقاصدکے اعتبار
سے ادب کو ہم دوش ِ ثریا کرنے کی مساعی کبھی ثمر بار نہیں ہو سکتیں ۔ ارسطو
نے المیہ کے فعال کرداروں کی شناخت کے جو چار طریقے بتائے ان میں
اشارات،اپنی مرضی کی شناخت ،حافظہ اور مناظرہ شامل ہیں ۔ارسطو کے خیال میں
شناخت وہی معتبر ہے جوواقعات سے نمو پائے ۔ارسطو نے لکھا ہے :
, "But ,of all the recognitions, the best is that which arises from the
incidents themselves,where the starting discovery is made by natural
means." (3)
ارسطو نے بوطیقامیں اس امر کی صراحت کر دی ہے کہ صرف وہی قابل قدر کردار
قارئین کے ذوق سلیم کی تسکین کرتے ہیں جنھیں ارفع مقاصد کے حصول کی خاطر
تخلیق کیاجاتاہے۔ کلاسیک یونانی فلسفی سقراط ( Socrates : B,470BC,D: 399BC
)سے بھی قدیم یونانی فلسفی پروٹاگورس ( B:486BC,D:411BC،Protagoras )نے
نویں یا آٹھویں صدی قبل مسیح سے تعلق رکھنے والے قدیم یونانی شاعر ہومر(
:Homer ) کے الیڈ اوراوڈیسی ( Iliad and the Odyssey ) میں اسلوب پر جو
اعتراضات کیے ارسطو نے وہ سب کے سب مسترد کر دئیے ۔ارسطو نیپروٹاگورس کی
ہومر پر تنقید کولفظوں کے اُلٹ پھیر کی مظہر ایسی حیلہ سازی قرار دیاجو
حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی ۔ارسطو نے یونانی فلسفی سوفسٹ (Sophist)کے ان
خیالات سے اتفاق کیاکہ شاعری کی جانچ پرکھ کے لیے ایسے ذوقِ سلیم کی احتیاج
ہے جو تخلیق ِ ادب کی اختصاصی مہارت اور فنی معائر پر کامل دسترس سے متمتع
ہو۔ جہاں تک شاعری کا تعلق ہے ارسطو نے بتایا ہے کہ اگر شاعری میں خرد کی
گتھیاں سلجھانے اور انسانیت کی فلاح کا عنصر شامل ہوتو یہ فطرت کا مسرورکن
عطیہ ہے ورنہ یہ محض مجذوب کی بڑ بن کر رہ جاتی ہے ۔المیہ دردناک ،قابل رحم
یااخلاقی صورت میں سامنے آ سکتاہے ۔اس کا وہی پیچیدہ روپ فکر و خیال کو
مہمیز کرتاہے جس میں حالات کی کایا پلٹ جانے کااحوال مذکور ہو۔رحم،خوف
،اشتعال اور پسندایسے روّیے ہیں جوالمیہ میں اپناالگ رنگ دکھاتے ہیں
۔استعاراتی طوالت کے بارے میں تخلیق کار کو محتاط رہناچاہیے ۔المیہ کے وقوع
پذیر ہونے میں ہوشیار و عیار بد معاش ،شاطر ومہم جُو حاسد ،سفلہ سادیت پسند
اور آستین کے سانپ نہایت تکلیف دہ روپ اپنا لیتے ہیں۔ان کو بیخ و بن سے
اُکھاڑ پھینکناانتہائی ضروری ہے ۔ جس طرح شاعری میں حقیقت نگاری بہت اہم ہے
اسی طر ح تنقید میں بھی حرفِ صداقت کا کلیدی کردار ہے ۔ارسطو نے واضح کیاکہ
حساس نوعیت کی جسمانی کیفیات،ذہنی تشکیلات اور جذباتی مدو جزرفکر وخیال
کواس طرح تحریک دیتاہے کہ قافلۂ شوق نقد و نظر کے جہانِ تازہ کی جانب بڑھنے
لگتاہے۔ارسطو نے تنقید کو تخلیق سے کم نہیں سمجھااس کاخیال ہے کہ افرادکے
لیے راحتوں ،مسرتوں اور کامرانیوں کی جستجو میں تنقید اور تخلیق دونوں نے
ہمیشہ جس انہماک کامظاہرہ کیاہے وہ ان کے ربط باہم کی دلیل ہے۔تخلیق ادب کو
کسی صورت میں بھی سرسری نہیں سمجھناچاہیے۔ایک تخلیق کار اپنے خون ِ جگر سے
گلشنِ ادب کو سیراب کرتاہے تب کہیں نخلِ شعرپر برگ و بار کی صورت دکھائی
دیتی ہے ۔ایک ادب پارہ خواہ وہ محض معلوماتی نوعیت کے مواد پرمنحصر ہواس کی
تخلیق کوئی سہل کام نہیں۔اس کی تخلیق میں جو سخت مقام آتے ہیں اُن کا ادراک
ایک کٹھن مرحلہ ہے ۔تنقید میں ذاتی پسند و ناپسند اور سیاسی مداخلت اسے
اپنی منزل سے دُور لے جاتی ہے ۔اس قسم کا مسموم ماحول ستائش ِ باہمی کو
پروان چڑھاتاہے جس کے نتیجے میں تخلیقِ ادب کے صحت مند روّیوں کوشدید ضعف
پہنچتاہے ۔ارسطو کا خیال ہے کہ ادبی تنقید کو شعاربنانے والوں کو اپنے طرزِ
عمل پر ازسر ِنو غور کرناچاہیے تا کہ وہ حقائق کو سرابوں سے نکالنے کی کوئی
صورت پیدا کر
سکیں ۔
---- |