جناب خلیل الرحمن صاحب!
اسلام علیکم!
جناب آپ کا پتا مجھے نہیں پتا تھا اس لئیے خط لکھنے کے لئیے یہ پلیٹ فارم
استعمال کر رہی ہوں ۔مجھے امید ہے آپ کو برا نہیں لگا ہوگا ۔پہلے تو آپ
کو بہت مبارک ہو آپ کے ڈرامے ٌ میرے پاس تم ہو ٌ کی بے تحاشا کامیابی کی
۔جناب آپ کے ڈائیلاگ نے تو کمال کردیا ۔اتنے سالوں سے اتنے سارے رائیٹرز
عورت کو مظلوم دکھانے کے لئیے ۔انہیں معاشرے میں با عزت با وقار دکھانے کے
لئیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے آپ کے صرف ایک ہی ڈائیلاگ ٌدو ٹکے کی
عورت ٌ نے وہ کمال کیا کہ عورت کو ہزاروں سال پرانے اوقات کی کھائی میں ڈال
کر اسے اس کی اوقات دکھا دی ۔میں آپ کی تعریف کئیے بنا نہیں رہ سکتی ۔آپ
کے قلم میں یقینا علامہ اقبال ، سرسید سے بھی ذیادہ طاقت ہے انہوں نے تو
صرف سوئی ہوئی قوم کو جگایا اور علیحدہ وطن کا خواب دکھایا جبکہ آپ نے اس
قوم کے مردوں کے اس مردہ ہوتے احساس کو کہ بے وفائی صرف ان کا حق ہے عورت
کا نہیں دوبارہ زندہ کردیا ۔ایسا کیوں ہے خلیل صاحب کہ سالہا سال سے پستی
ہوئی عورت کی سچی کہانی کسی کے دل پر اثر نہ کی۔۔نہ ٌرسوائی ٌ میں رسوا
ہوتی عورت کسی کو دکھی اور نہ ہی اس کو لوٹنے والوں سے اس قوم کو کوئی غرض
ہے۔نہ اس کے شوہر سےقوم کے لوگوں کو نفرت ہوئی۔۔ایسا کیوں خلیل الرحمن
صاحب؟۔ ٌسمی ٌ ڈرامے میں لڑکی کی زبردستی شادی پر بھاگ جانے پر اس کو زندہ
آگ لگا دی گئی ۔حالنکہ یہ کہانی سچی تھی لیکن کسی کے دل کو نہ ہلا سکی جو
آپ کے ڈرامے ٌمیرے پاس تم ہو ٌ کی فرضی کہانی نے کی۔اور تو اور ڈرامہ ٌبے
وفا ٌ میں مرد کی بے وفائی پر نہ تو کسی کا اشک گرا اور نہ اپنا گھر ٹوٹتے
ہوئے محسوس ہوا۔جتنی گالیاں ۔جتنی بد دعاٖئیں اس قوم کے لوگوں نے دانش کی
بیوی کو دی ہیں اگر وہ انڈیا کو دی ہوتیں تو یقینا کشمیر آزاد ہوچکا ہوتا
۔۔جتنا اس کی بیوی کو کوسا اتنا کرونا وائرس کو کوسا ہوتا تو وہ صفحہِ ہستی
سے بغیر ڈاکٹروں سے جنگ لڑے ہی ختم ہوچکا ہوتا۔میں تو واقعی آپ کی معترف
ہوگئی ہوں ۔لیکن مجھے ایک بات سمجھ میں نہیں آئی کہ اس ڈرامے کے ہٹ ہونے
میں آپ کے ڈائیلاگ کا کردار تھا یا ہمارے ملک کی عورتوں کا ۔کیونکہ ڈرامہ
دیکھنے والوں کی اکثریت عورتوں کی ہے اور مردوں کو بھی وہی بتا تی ہیں کہ
آج کل کونسا ڈرامہ ہٹ ہورہا ہے یوں بھی ٹی۔وی میں آجکل زیا دہ تر عورتوں
کے حقوق کے حوالے سے لگنے والے ڈراموں کے تھوڑے بہت اثرات نے مردوں کو ٹی
۔وی سے کافی حد تک دور کردیا تھا لیکن آپ نے تو اس ڈرامے کے ذریعے نہ صرف
ان کے اس برتری کے احساس کو جو سو رہا تھا جگا دیا بلکہ ٹی ۔وی کے نیوز
چینل سے ڈراموں کے چینل تک لے آئے ۔گو کہ زیا دہ تر مردوں نے اپنا آپ
دانش کے کیریکٹر کے قریب نہیں پایا لیکن پھر بھی ان کی غیرت نے خوب خوب جوش
مارا اور تو اور گاؤں میں دیکھے جانے والے اس ڈرامے میں دانش کی بیوی کو
کارو کاری کے جرم میں مارنے کا فیصلہ بھی یقینا ہوا ہوگا اگر دانش کی بیوی
کو نا مار سکے تو کیا ہوا انہیں تو ایک عورت کی سزا میں ساری عورتوں کے مار
ڈالنے میں بھی کوئی اعتراض نہیں ۔مزیدِبرآں خلیل ارحمن صاحب آج کل جو
ڈرامے چل رہے ہیں ۔کئی سال کی محنت مشقت کے بعد عورت کو اونچا مقام دینے کے
لئے ۔عورت کو عام سے خاص بنانے کے لئیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے آپ
نے اچھا کیا کہ ایک عورت کو ٌدو ٹکے کی ٌ کہہ کر ساری عورتوں کو دو ٹکے کا
کردیا ۔
آپ پلیز ناراض مت ہوں کہ میں نے ان این جی ۔اوز کی طرح آپ پر طنز کیا جو
عورتوں کے حقوق کے لئیے کام کر رہی ہیں ۔ایسا نہیں ہے ۔آپ کو پتا ہے آپ
کے ڈرامے کی مقبولیت کی وجہ بھی عورتیں ہی ہیں ۔ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے
ملک کی ۹۹۔۹۹ فیصد عورتوں نے اپنے آپ کو مہوش کے کردار میں خود کو محسوس
نہیں کیا ۔اور نہ خواہش رکھتی ہیں ۔اور یہی ان کی مہوش سے نفرت کو بھی ظاہر
کرتی ہے۔جبکہ ملک کے ذیادہ تر مردوں کا کیریکٹردانش کی بجائے شاہوار جیسا
ہے پھر بھی انہوں نے دانش کا دکھ محسوس کیا ۔ بلکل اسی طرح میری جیسی چند
لفظوں سے واقفیت رکھنے والی رائیٹرز اور این۔جی۔اوز جو مرد کے بے رحم
معاشرے میں عورت کو اس کا اصل مقام دینے ۔ان پر ظلم و تشدد ،بربریت ختم
کرنے کی کوشش کر رہی ہیں انہیں بھی تکلیف ہوئی کہ جس عورت کے اندر انہوں نے
اتنے عرصے کی جدو جہد کے بعد اس احساس کو ذندہ کیا کہ تم منفرد ہو اور تم
کو صرف تمہارے کردار کے ساتھ۔تمہارے نام کے ساتھ پہچانا جائے ۔ایک عورت کی
سزا سب عورتوں کو کیوں ؟ مجھے یاد ہے بچپن میں اگر کوئی لڑکی اپنے کسی
آشنا کے ساتھ بھاگ جاتی تو اسکول سے بہت سی لڑکیوں کو نکال لیا جاتا ۔اور
گھر والے ان کو اس نظر سے دیکھتے اور ان پر پہرے بڑھا لیتے کہ جیسے یہ سب
بھی بھاگ جائیں گی ۔خلیل صاحب آپ نے تو اسی زمانے کی یاد تاذہ کردی اب تو
عورت اپنے جائز حق کے لّیے بھی کھڑی ہوگی تو مہوش جیسی ہونے کا طعنہ سہے
گی۔
خلیل صاحب یوں تو آپ نے ایک ٹی۔وی شو میں یہ کہہ کر کہ جس بات پر آپ کا
ایمان نہیں ہوتا آپ نہیں لکھتے بات کہہ کر بات ختم کردی لیکن جانے کیوں اس
کے باوجود میں آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ اللہ نے اگر آپ کے اندر یہ
صلاحیت رکھی ہے کہ آپ کے الفاظ ،ڈائیلاگ اس قوم کے سب مردوں اور عورتوں کے
دل پر اثر کرتے ہیں ۔انہیں رلاتے ہیں ۔احساس دلاتے ہیں تو پلیز ان کے بارے
میں بھی لکھئیے جو غریب کے گھر میں بیٹھی بیٹھی جہیز نہ ہونے کے سبب بوڑھی
ہوجاتی ہے تب مجھ جیسی خاکسار ان کے لئیے کہتی ہے
جانے کتنے چاند گزرے
وقت کی دہلیز پہ
بند در کی کھڑکی سے
سیاہ بالوں میں چاندنی چمکے
وقت کی دہلیز پہ
امیدوں کے روشن چہرے
جلتے،بجھتے ،بجھ سے گئے ہیں
خالی جیبیں لے کر پھر بھی
قیمت پوچھتے رہتے ہیں
وقت کی دہلیز پہ
کم دِکھتی آنکھوں سے
گرتے اٹھتے قدموں سے
بند در کی کھڑکی سے
ہر بکنے والے کو
دیکھتے ہی رہتے ہیں
جانے کتنی بیٹیوں والے
کچی نیند سوتے سوتے
پکی نیند سوجاتے ہیں
وقت کی دہلیز پہ
جناب خلیل صاحب کچھ ایسا لکھئیے کہ لوگوں کی نظر جہیز کے ذیادہ وزن اور
لڑکی کے کم عمر،کم شکل اور کم وزن سے نکل کر لڑکی کی سیرت،کردار پر جائے
بلکہ ہاں یا نہ کا حق صرف لڑکے والوں کے پاس نہ ہو بلکہ عورت کو بھی اس کا
حق حاصل ہو۔خلیل الرحمن صاحب آپ سے ایک اور بھی درخواست ہے کہ آپ خود
قرآن کو ترجمے کے ساتھ پڑھیئے اور عورت کو ان مردوں کی سوچ جنہیں قرآن
میں صرف عورتوں کا سنگسار کرنا نظر آتا ہے۔ان کو چار شادیاں نظر آتی ہیں
۔عورت کا محکوم ہونا نظر آتا ہے ۔عورت کا اصل مقام ۔اس کے حقوق کی بحالی
کی سوچ میں بدل دیجئے۔ خلیل صاحب جب ہمارے ملک کی تقریبا سب عورتیں مہوش سے
نفرت کرسکتی ہیں تو ملک کے سارے مرد نہ سہی ۔۔لیکن دانش جیسے تو چند ایک ہی
ہونگے ۔پھر عورت کے لئیے کون آواز اٹھائے گا ۔۔عورت بھی عورت کے خلاف اور
مرد بھی عورت کے خلاف اور آپ جیسے دانش مند مصنف بھی عورت کے خلاف لکھیں
گے تو اس ظلم کی چکی میں پستی عورت کا کیا بنے گا۔
جناب بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح میں نے بھی اپنے ناول ٌمیرا فیصلہ قرآن
کرے گا ٌ میں عورتوں پر ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ہے گو کہ نہ تو میری
تحریر میں وہ دم ہے کہ عورت پر ظلم ڈھانے والوں کے دلوں پر ایک ہی وار میں
اثر ہو اور نہ ہی قلم میں آپ کے جیسی طاقت کے ساری قوم یک جا ہوکر عورت کو
کارو کاری جیسی بے رحم رسم سے نجات دلا سکے ۔لیکن نجانے کیوں لگتا ہے میری
ایک کمزور سی کوشش کو آپ کے اس ڈرامے نے اور کمزور کردیا۔
جناب خلیل صاحب آپ کیا پورا پاکستان آپ کی صلاحیت کا معترف ہے ۔تو پھر
کچھ ایسا لکھئیے کہ یہ قوم جو کشمیر ڈے تو منا سکتی ہے لیکن کشمیریوں کے
لئے آزادی کی کھوکھلی کوششیں ،تقریریں کرنے کی بجائے س ان کے سچے جزبے
جگائیے کیونکہ انسان کو منزل اس کے جزبے کے مطابق ملتی ہے۔
جناب خلیل صاحب کاروکاری جیسی بے رحم رسم کے خلاف لکھیں۔رشوت کے خلاف
،بچیوں پر جنسی تشدد کے خلاف لکھیں۔مہوش نے تو خود کو بیچا تھا اور دانش سے
بے وفائی کی تھی آپ اس ملک کو بیچ کر اس ملک سے بے وفائی کرنے والوں کے
خلاف لکھیئے۔ اس ملک کے نوجوانوں کو رٹے کی بجائے پریکٹیکل تعلیم حاصل کرکے
نیم جاہل ہونے سے بچائیے۔
جناب خلیل صاحب اگر آ پ یہ سب نہیں کرسکتے تو پلیز جو لوگ اپنی کم
صلاحیتوں کے باوجود عورتوں کو ان کا مقام دلانے کی انتھک محنت کر رہے ہیں
۔ان کو ایک باعزت مقام دینے کی کوشش کررہے ہیں اور آپ مہوش جیسا کردار جو
یا تو اس معاشرے میں ایگزیسٹ ہی نہیں کر تا اور اگر ہے بھی تو اتنی ساری
باوفا عورتوں کی وفاؤں کے قدموں میں تو ایسے کردار کو سامنے لا کر عورت کی
لازوال وفاؤں کے باوجود کالی کرنے والوں کی جھوٹی اناؤں کو مت جگائیں۔
امید ہے میری کڑوی باتوں کو آپ دوائی سمجھ کر ہضم کرلیں گے۔
وسلام
آپ کے لئیےدعا گو
عذرا فیض
|