تخلیق کار زندگی کو جتنے زاویوں اور جتنی صورتوں میں
دیکھتا ہے وہ ایک عام شخص کے دائرے سے باہر ہوتا ہے ۔ زندگی کے حسن اور اس
کی بد صورتی کا ایک گہرا تجزیہ شعر وادب میں ملتا ہے ۔ زندگی اتنی سادہ
نہیں جتنی بظاہر نظر آتی ہے اس میں بہت پیچ ہیں اور اس کے رنگ بہت متنوع
ہیں ۔ وہ بہت ہمدرد بھی ہے اور اپنی بعض صورتوں میں بہت سفاک بھی ۔زندگی
اور حالات لازم و ملزوم ہوتے ہیں ،حالات کے زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہوتے
ہیں۔حالات اچھے بھی ہو سکتے ہیں اور خراب بھی لیکن حالات کا لفظ عمومی طور
پر زندگی کی منفی صورتوں کا ہی غماز ہوتا ہے ۔ گزرے ہوئے اچھے وقت کو یاد
کر نا دکھ کی کیفیت بھی ہے اور حال کی بدصورتی کا نوحہ بھی۔
کہتے ہیں کہ شاعری کے ا ندا زبیاں کا کمال ہے کہ چند اشعار میں وہ باتیں
کہہ دی جاتی ہیں جو طویل سے وطویل نثر میں بھی بیان نہ ہو سکیں۔ زندگی کے
بارے میں متعدد تصورات موجود ہیں۔کچھ تصورات روایات کی صورت طرز زندگی کا
تعین کرتے ہیں۔جب انسان زندگی کے امور ر رموز اور حقائق کو سمجھنے لگتا ہے
تو وہ زندگی کا بیان کس انداز میں کرتا ہے۔یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ شعر
کہنے وا لے کے اپنے حالات زندگی ہوتے ہیں جس کے تناظر میں وہ اپنا نقطہ نظر
بیان کرتا ہے۔تاہم کسی ایک شعر سے شاعر کے مکمل اظہار بیاں کا تجزئیہ نہیں
کرنا چاہئے۔کوئی شعر کسی خاص واقعہ،کیفیت،صورتحال کا عکاس ہوتا ہے،اسے ہم
شاعر کی مکمل شخصیت قرار نہیں دے سکتے۔شاعری میں شاعر کی زندگی کا وقت
معلوم ہونا اس حوالے سے بھی اہم ہوتا ہے کہ اس سے اس دور کے حالات و واقعات
کی روشنی میں شاعر کی شاعری کو بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔
زندگی کو دیکھنے،محسوس کرنے،اس کو سمجھنے کے حوالے سے شعراء کا بیان زندگی
کی حقائق کے مختلف منظر نامے پیش کرتا ہے جس کو ملا کر ایک وسیع تناظر میں
دیکھتے ہوئے ،زندگی کو سمجھنے کی کوشش کرنے والوں کو ایک اچھا منظر پیش کر
سکتا ہے جس سے انسان اپنی عمر بھر کی سعی کی راہ کا تعین کرتے ہوئے اپنی
زندگی کو بہتر رخ عطا کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔کوئی زندگی کو دکھوں کا گھر
قرار دیتا ہے،کوئی حسرتوں کی آماجگاہ اور کوئی عیش و عشرت کا سامان۔کوئی
اسے ناقابل بیاں قرار دیتا ہے اور کوئی نہ سمجھنے والی شے قرار دیتا ہے۔
یہاں ہم شعراء کی نظر سے زندگی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔شاعروں کی فکر
ہمیں زندگی کے مختلف رنگوں سے روشناس کراتی ہے۔غالب زندگی اور غم کو لازم و
ملزوم قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ موت آنے تک انسان غم سے نجات نہیں پا
سکتا۔کوئی زندگی اور اس کا حاصل محبت کو قرار دیتا ہے اور کوئی محسوسات کی
رنگینیوں کو ہی زندگی قرار دیتا ہے۔کوئی زندگی کی خوبصورتی رنج و الم کو
قرار دیتا ہے اور کوئی خوشیوں کو ہی زندگی قرار دیتا ہے ،خوشی کے ایک لمحے
کو دکھوں بھری زندگی پر محیط سمجھتا ہے۔جون ایلیا زندگی کو اپنے اپنے انداز
میں گنوانے کا ہنر قرار دیتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ جو گزاری نہ جا
سکی ہم سے،وہ زندگی گزاری ہے ہم نے۔
فراق گورکھپوری زندگی کا اظہار یوں کرتے ہیں کہ موت کا تو علاج شاید ممکن
ہو لیکن زندگی کا کوئی علاج ممکن نہیں۔بہادر شاہ ظفر زندگی کو ایسے چار دن
قرار دیتے ہیں جن میں سے دو دن آرزو اور دو اس آرزو کے انتظار کو قرار دیتے
ہیں۔یہی بات ندا فاضلی یوں بیان کرتے ہیں کہ زندگی چند خواب اور چند امیدیں
ہیں، انہی سے انسان بہل جانے پہ مجبور ہوتا ہے۔ خواجہ میر درد سیاحت اور
جوانی کو ہی زندگی قرار دیتے ہیں۔جبکہ ندا فاضلی زندگی کی عملی مصروفیات کو
کتابوں کے علم پہ حاوی قرار دیتے ہیں اور زندگی کو ایسا طوفان بھی قرار
دیتے ہیں کہ جس میں انسان جینے کی تمنا میں مر مر کر جیتا ہے۔
کئی شعراء زندگی کے ایسے مقام کا ذکر بھی کرتے ہیں جس میں خوشی اور غم کا
ہونا یا نہ ہونا برابر قرار پا تا ہے، کوئی اسے بے حسی سے تعبیر کرتا ہے
اور کوئی اسے اک مقام شعور قرار دیتا ہے۔ ساحر لدھیانوی زندگی کو نظر کے
حسن کا کمال سمجھتے ہیں کہ کسی کی نظر سے دنیا کو کیوں دیکھیں کہ ہمارے پاس
فقط زندگی کو دیکھنے ،محسوس کرنے والی نظر ہی تو ہے۔احمد فراز زندگی کا
گزرنا یوں دیکھتے ہیںکہ جیسے کسی اجنبی ،کسی مستعار حالات میں جیا
جائے۔فانی بدایونی زندگی کو ماضی کی ایسی یاد قرار دیتے ہیں جس میں انسان
مر مر کر زندہ رہتا ہے۔
صدا انبالوی زندگی کو ایسا گھاٹے کا سودا قرار دیتے ہیں جس میں عمر بڑہنے
کے ساتھ ساتھ زندگی کم ہوتی جاتی ہے۔حیدر علی جعفری زندگی کو ایک سفر قرار
دیتے ہیں جس میں انسان آتا ہے،ٹہرتا ہے اور چلا جاتا ہے۔بیدم شاہ وارثی
زندگی کو اک ایسی مختصر کہانی قرار دیتے ہیں جسے موت نے ایک فسانہ بنا رکھا
ہے۔خلیل قدوائی زندگی کے لئے عمل کی حسرت کرتا ہے کہ زندگی تو نیک ارادوں
میںہی گزر جاتی ہے۔انور شعور زندگی کی ضروریات کو حسرتوں میں شمار کرتا ہے۔
ظفر صہبائی کا کہنا ہے کہ انسان نے جو پڑھا ہوتا ہے ، اس کے مطابق جینا
ممکن نہیں ہوتا ،زندگی کو کتابوں سے الگ کر کے دیکھنا چاہئے۔شاد عارفی آرزو
کو ہی زندگی قرار دیتے ہیں کہ اس کے بغیر زندگی گزارنا مشکل ہوتا ہے۔ برج
نرائن زندگی کو انسان کی ہوس قرار دیتے ہیں کہ اک مٹھی خاک کے انسان کو ایک
نہیں بلکہ دوجہانوں کے غم لاحق ہوتے ہیں۔منیر نیازی زندگی کو ایسی خوبصورتی
قرار دیتے ہیں جس میں زندگی ایک سی نہیں رہتی۔احسن مارہروی کا کہنا ہے کہ
مجھے غم اور خوشی کے بارے میں معلوم نہیں،اگر یہی زندگی کی صورت ہے تو
زندگی کیا ہے۔اطہر نفیس کے بقول زندگی دھوپ اور سائے کی صورت حساب برابر کر
دیتی ہے۔
ساغر صدیقی موت کو زندگی کی کوئی کڑی قرار دیتے ہیں۔احمد ندیم قاسمی زندگی
میں شمع کی مانند دوسروں کو راہ دکھانے کو اہم قرار دیتے ہیں کہ انسان تو
مر جاتا ہے لیکن کسی کی رات کو صبح میں تبدیل کر دیتا ہے۔اختر شیرانی کہتے
ہیں کہ زندگی خوشی سے گزر جاتی اگر عیش کی طرح غم کی بھی قدر کی جاتی۔حیات
امروہوی زندگی کو ایسا ساز قرار دیتے ہیںجو بے آواز بج رہاہے۔ظفر اقبال ظفر
کہتے ہیں کہ ہم لوگ ہمیشہ قسطوں میں مرتے رہے لیکن جینے کا ہنر پھر بھی نہ
سیکھ سکے۔کالی داس گپتا کہتے ہیں کہ زندگی کو لاکھ فانی کہو لیکن زندگی کا
مقصود غیر فانی ہے۔ْمائل لکھنوی زندگی کے گزر جانے کو ناقابل بیاں کہتے ہیں
کہ گزارنے کی شے گزار دی ہم نے۔احمد فرید زندگی کو منافق قرار دیتے ہیں کہ
انسان زندگی کا ہی شاہکار ہے اور زندگی کا ہی مارا ہوا ہے۔
دیکھا جائے تو زندگی کا ایک ہی دن ہوتا ہے،جس میں صبح ہوتی ہے،دوپہر،شام
اور پھر رات۔بچپن میں جاننے،کھوج لگانے کی لگن ہوتی ہے، جوانی میں تمنا
کرنے اور پانے کی ،عمر کا اگلا حصہ کئے گئے اعمال کا بدلہ چکانے میں گزرتا
ہے،پھر جب معاملات،حقائق سمجھ آنے لگتے ہیں تو زندگی کی رات ہو جاتی ہے۔اور
جب رات کے وقت زندگی کی حقیقت سامنے آتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ
یادیں،کاروبار زندگی کے معاملات،تمنائیں،آرزوئیں،حسرتیں،حاصل کرنے،پانے کی
خواہش و کوشش، سب بیکار موضوعات تھے جن میں عمر رائیگاں گزر گئی۔رات کے اس
لمحے انسان محسوس کرتا ہے کہ جینے کو دل تو نہیں لیکن اب تو جینا سیکھنا
شروع کیا ہے، کیا ہمارے ذہن ،ہمارے خیالات کا یہی اختتام ہے؟
بقول شاعر حسین مشیر علوی ، آج کی رات غم دوست میں شدت ہے بہت ، جن سے الفت
تھی بہت ان سے شکایت ہے بہت ، کتنی یادیں ہیں چلی آتی ہیں کمزور و نڈھال ،
غم جاناں کی کشا کش غم دوراں کے سوال ، چاند کو چھونے کی خواہش انہیں پانے
کا خیال ، بے شمار آرزوئیں حسرت و ارمان وصال ، عمر اپنی انہی بیکار خیالوں
میں دھری ، چھا گیا پھر انہی خابیدا نگاہوں کا فسوں ، ذہن میں کھلنے لگے
پھر تیری یادوںکے کنول ، آج پھر ہونٹ تصور میں تیرے چوم لئے ، جذبہ شوق سے
ہونے لگیں پلکیں بوجھل ، ہائے ٹوٹی ہے کہاں جا کے خیالوں کی کمند ، ہائے
رنگینی ایام کہاں سے لائوں ، عیش و عشرت کا وہ اک جام کہاں سے لائوں ، رندی
حافظ و خیال کہاں سے لائوں ، وہ حسین صبح وہ حسین شام کہاں سے لائوں ، میرے
آوارہ خیالو مجھے سو جانے دو ۔یوں زندگی نہ سمجھنے کی نہ سمجھانے کی،نہ
گزرنے کی نہ گزارنے کی، یہ انسان کا زاویہ نظر ہے کہ وہ کس بات کو اہمیت
دیتا ہے اور کن امور کو حاصل زندگی تصور کرتا ہے۔سوال یہ ہے کہ کیا انسان
کی زندگی کا یہ شعور اس کی موت کے بعد بھی جاری رہتا ہے؟
|