ایک نظر پیار کی - قسط نمبر: 1

تابندہ بیگم اپنے پسندیدہ ناول کی ورق گردانی میںمصروف تھیں جب فون کی بیل بج اٹھی۔
ہیلو، جیآپا کیسی ہیں آپ؟ اسکرین پر بہن کا نمبر دیکھ کر انہوں نے خوش دلی سے کہا۔
کیا؟ اچھا۔۔۔۔۔ یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے۔ انکے لہجے میں خوشی سے ذیادہ حیرت تھی۔ پاس بیٹھے احزم اور انکے شوہر اطیب بھی اپنی گفتگو چھوڑ کرانکی طرف متوجہ ہو چکے تھے۔
ہاں ہاں کیوں نہیں۔ میں تو صبح سے ہی آجاونگی۔ احزم کو بھی لے آونگی۔
تابندہ کے منہ سے اپنا نام سن کر احزم کی بے چینی بڑھنے لگیتھی۔ یا اللہ کہیں وہ خبر نہ ہو جسکا ڈر تھا۔ اسکا دل زور سے ڈھڑکا۔۔۔
چلیں ٹھیک ہے آپا۔ تابندہ نے فون رکھا تو احزم اور اطیب کی سوالیہ نظریں انکی منتظر تھیں۔
آپا کا فون تھا مہرش کی منگنی طے ہو گئ ہے۔ اسی اتوار کو رسم ہے۔
شکر ہے۔۔۔۔۔ بے ساختہ احزم کے منہ سے نکلا۔
ہاں میں بھی یہی سوچ رہی ہوں۔ مگرحیرت اس بات پرہے کے اسکی منگنی غزوان کے ساتھ ہو رہی ہے۔ بتاو ذرامہرش اور غزوان ایکدوسرے کو پسند کرتے تھے۔ اورآپا بیگم میرے بیٹے کے پیچھے پڑی تھیں۔ اور اس وجہ سے ہم شہزین کا رشتہ مانگنے سے ڈر رہے تھے کے کہیں وہ مہرش کا ہاتھ نہ مانگنے پر انکار نہ کردیں۔
شہزین کا نام سن کر احزم کے ہونٹوں پر مسکراہٹآگئ تھی۔
اٹس اوکے مما۔ اسکی شادیغزوان سے ہو یا کسی اورسے خوشی کی بات یہ ہے کے اب آپ خالہ سے میرے اور شہزین کے رشتے کی بات کر سکتی ہیں۔
ویسے مہرش بھی اچھی لڑکی ہے۔ اطیب نے پہلی بار گفتگو میں مداخلتکی۔
ارے کیسی باتیں کر رہے آپ۔ ایک ہی بیٹا ہے ہمارا اسکی ذندگی اس نابینا لڑکی کے سپرد کردوں۔ حد کرتےہیں آپ بولنے سے پہلے سوچ لیا کریں۔رقیہ کے تو تین بیٹے ہیں۔ پھر سگی بھتیجی ہے۔ اگر ایک بہو نابینا لے آئے گی تو کیا فرق پڑے گا۔ انہوں نے رکھائ سے جواب دیا۔
اطیب اعوان انکی سوچ پر افسوس کرتے رہ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رخشندہ نے فون رکھا تو مہرش وہاں سے ملنے والے جواب کی منتظر تھی حالانکہ اسے یقین تھا کے اسکا انتظار بے جا ہے پھر بھی جو آس اسکےدل میں تھی اسے نظر انداز کرنا رخشندہ کے بس کی بات نہیں تھی۔
تابندہ سے بات ہو گئ ہے۔ بہت خوش ہو رہی تھی۔ صبح سے ہی آجائے گی احزم کے ساتھ ۔ وہ شاید خود بھی اسکے سوالات کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھیں اس لئے خود ہی بتانے لگیں۔
اور کچھ نہیں کہا خالہ جان نے؟ اس نے پوچھ ہی لیا۔
اور۔۔۔۔ اور کیا کہنا تھا اسنے بس ایک دو دن میں بازار جاوں گی تو اسے بلا لونگی۔ ایک سے دو ہونگے تو شاپنگ کرنے میں آسانی ہوگی۔ ابھی تو اتنے کام پڑے ہیں اتنی جلدی میں ہوا ہے سب۔۔۔۔۔۔
امی اگر میں بینائ سے محروم نہ ہوتی تو آپکواتنی جلدی نہیں ہوتی نہ۔۔۔۔۔ اس نے دکھی دل سے کہا۔
کیسی باتیں کر رہی ہو مہرش بیٹیاں تو جتنی جلدی اپنے گھر کی ہو جائیں اتنا اچھا ہے۔ پھر غزوان بہت اچھالڑکا ہے۔ اچھی جاب' اچھی شکل و صورت خوش مزاجاور سب سے بڑھ کر تم سے محبت کرتا ہے۔ ورنہ تمہاری پھپھو کو اس رشتے کے لئے قائل کرنا آسان نہیں تھا۔ وہ اسکے پاس بیٹھ کر اسے پیار سے سمجھارہی تھیں۔
اسی لئے تو کہہ رہی ہوں امی جان آپ منع کردیں پھپھو کو۔ غزوان اتنے اچھے ہیں انہیں تو کوئ بھی لڑکی مل جائےگی۔ مجھ سے شادی کرکے تو انکی ذندگی بھی اندھیری ہو جائے گی۔وہ اداسی سے بولی تو رخشندہ کی آنکھیں بھی بھر آئیں۔
نہیں بیٹا اس سے شادی کرکے تمہاری ذندگی روشنہو جائے گی۔ اس سے پہلے تو تم نے کبھی اپنی کمزوری کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ آج جب اللہ نے تمہاری ذندگی میں روشنیکی کرن بھیجی ہے تو مایوسی کی باتیں مت کرو۔ اور پھر کیا کمی ہے تم میں نگاہیں بے نور ہیں تو کیا ہوا تمہارا چہرہ تو چاند کی مانند روشنہے۔ پھر اتنا اچھا کھانا پکاتی ہو گھر کی صفائی اور سجاوٹ کا خیال رکھتی ہو۔ آج کل کی لڑکیوں میں یہ سلیقہ ڈھونڈنے سے نہیں ملتا اپنی شہزین کو ہی دیکھ لو بس موبائل اور ٹی وی کے علاوہ کوئی دوسرا کام ہی نہیں۔تم تو لاکھوں میں ایک ہو۔جس گھر جاوگی چار چاند لگا دو گیانشاءاللہ ۔
رہنے دیں امی جان اگرمیں اتنی اچھی ہوتی تو۔۔۔۔۔۔۔وہ آگے کچھ بولے بغیر ہی چلی گئ تھی لیکن رخشندہ جانتی تھیں اسکے دل کی بات درحقیقت اسکے دل میں یہ آس جگانے والی وہ خود ہی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مہرش ایک پری میچیور بےبی تھی۔ایک موقع پر تو رخشندہ اور جنید اسکی ذندگی کی آس سے ہی نا امید ہو چکے تھے۔ بہت دعائوں اور مننتوں کے بعداسے ذندگیکی دولت تومل گئ لیکن وہ بینائی کی نعمت سے محروم تھی یہ اندازہ رخشندہ کو کچھ عرصے بعد ہوا جب انہوں نے غور کیا کے مہرش باقی بچوں کی طرح نہیں مسکراتی۔تب ڈاکٹرز نے انہیں بتایا دراصل بچے ہمیں دیکھ کر مسکرانا سیکتھے ہیں اور آپکی بیٹی دیکھ نہیں سکتی۔ شروع میں تووہ بہت روئیں پھر جنید نے انہیں حوصلہ دیا انکےآنسو انکی بیٹی کی محرومی دور نہیں کرسکتے لیکن انکیتربیت مہرش کی ذندگی سنوار سکتی ہے اور پھر انہوں نے ہمت نہیں ہاری تعلیمسے لیکر تربیت تک کسی چیز میں کمی نہیں آنے دی مہرش 4 سال کی تھی جب شہزین کی پیدائش ہوئی لیکن مہرش کے معاملے میں وہ حساس تھیں۔ مہرش کے دل میں احزم کا خیال ڈالنے والی بھی وہ خود تھیں وہ اور تابندہ بھی دو ہی بہنیں تھیں جب بھی جنید مہرش کیشادی کے لئے پریشان ہوتے رخشندہ بے فکری سے کہتیں مجھےمہرش کے رشتے کی کوئی فکر نہیں تابندہ اسے احزم کے لئے ضرور مانگے گی آخر ایسے موقعوں پر اپنے ہی کام آتے ہیں۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کے تابندہ کی آنکھیں کچھ اور ہی خواب دیکھ رہی ہیں۔وہ اپنے بیٹے کی شادی شہزین سے کرنا چاہتی تھیں اور خود احزم کی بھی یہی خواہش تھی۔ لیکن وہ مہرش کی وجہ سے رشتہ مانگنے سے ڈرتی تھیں اور احزم کو یہ ڈر تھا کے کہیں اس دوران شہزین کا رشتہ کہیں اور طے نہ ہوجائے ۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی آئندہ
 

Sana Waheed
About the Author: Sana Waheed Read More Articles by Sana Waheed: 25 Articles with 35263 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.