’’کیوں‘‘ کو سمجھنے کی ضروری ہے․․․!

جدید مغربی تہذیب کی ترقی و نشوونما کا مکمل انحصار سودی عالمی مالیاتی نظام کا مرہونِ منت ہے۔جہاں دنیا اس نظام کو مسلمہ معیار سمجھتی ہے، وہاں پاکستان بھی اسی نظام کی تائید کر رہا ہے،حالاں کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو ایک نظریے کے تحت معرض وجود میں آیا ،ویسے اسے تو اسلامی روایات اور قوانین کے تحت چلایا جانا چاہیے تھا ،مگر بدقسمتی سے اس کی ترقی و نشوونما کی بنیاد ہی غیر اسلامی طرز نظام پر قائم کی گئی ہے۔پاکستان میں حکومت کے لئے نظام جمہوریت پسند کیا گیا،لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ پاکستانی معاشرے کے لئے پارلیمانی نظام ساز گار نہیں۔اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ہم نے مغرب کے طرز حکمرانی کی نقل تو کر لی ،مگرتضاد کے ساتھ۔ہمارے ہاں؛جمہوریت کے نام پر اہل زر الیکشن جیت کر آتے ہیں،ان کی الیکشن میں کامیابی کی بنیاد دھوکے اور دھاندلی پر کھڑی ہوتی ہے ۔نفرت اور تعصبات کی آگ بھڑکاتے ہوئے ایوانوں میں داخل ہوتے ہیں۔انہیں میں سے کابینہ تشکیل پاتی ہے اور وزیر اعظم اور وزراء اعلیٰ بھی انہیں شرپسند لوگوں میں چنے جاتے ہیں۔یہی لوگ اپنے مفادات کے تابع آئین اور قوانین کے ساتھ کھیلتے ہیں۔یہ سلسلہ آہستہ آہستہ منزلیں طے کرتا ہوا،اس حال میں پہنچ چکا ہے،جہاں بے انصافیوں اور حق تلفیوں کی بھرمار ہے اور ظلم و زیادتی کرنے والوں کو سزا بھی نہیں ملتی ۔پیسے کی طاقت بولتی ہے۔اقتدار کی ہوس ہر گھٹیا کام کروارہی ہے۔جمہوریت میں طاقت کا سرچشمہ عوام کو کہا جاتا ہے،مگر عوام نا امید،بے یارومدد گار اور بے بس ہو کر رہ گئی ہے۔

ایک جانب سود،سودی بینکاری،کارپوریٹ سرمایہ کاری،انشورنس،سٹہ بازی،قمار بازی اور دیگر لاتعداد غیر اسلامی معاشی تصورات رائج کر رکھے ہیں،دوسری جانب جمہوریت کے نام پر عوام کو ملوکیت اور غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر رکھا ہے۔عوام بار بار ڈسی گئی،مگر اس بارعمران خان کی حکومت سے جس فریب کے ساتھ عوام نے دھوکا کھایا 72برسوں میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔عوام نے سوچا نہیں تھا کہ ایسی حکومت ان کا مقدر بنے گی۔جس نے تبدیلی کے نام پر ملک و قوم کو برباد کر کے رکھ دیا۔پاکستانی لوگ خوش تھے کہ ہمارے ملک کے خزانے کو جن سابق حکمرانوں نے لوٹا ہے، تبدیلی آئے گی،لوٹی رقم واپس آ جائے گی،اگر وہ نہ بھی ملی تو کم از کم آگے سے کرپشن کا خاتمہ ہو جائے گا اور پاکستان ’’کرپشن فری‘‘ملک بن کر دنیا کے نقشے پر جگمگائے گا،لیکن موجودہ حکمران مملکت کو اس بھونڈے طریقے سے چلا رہے ہیں کہ جیسے پاکستان ان کی جاگیر ہو۔عمران خان تمام ملکی نظام کو اپنے من پسند غیر منتخب لوگوں کے ذریعے چلا رہے ہیں،جو ان کی نگاہوں کو خیرہ کرے،اسے نوازنے سے رکتے نہیں،چاہے وہ عدالتی نا اہل ہو۔جہانگیر ترین عمران خان کے دست راست ہیں۔یہی ان کا عہدہ بھی ہے۔اسی لئے وہ سرکاری مشینری کی میٹنگز اپنے زیر صدارت منعقد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔وہ اپنی غیر قانونی سرگرمیاں دن دھاڑے کر رہے ہیں۔اربوں روپے آٹا،چینی ،خیبرپختونخوا میں اربوں بٹورے گیے،مگر ان سے سوال کرنے والا کوئی نہیں ہے۔کیوں کہ حکمران دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے میں ماہر ہیں،یہ اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی بجائے ،کبھی عوام کو بے صبرے قرار دیتے ہیں اور کبھی مخالفین کو سازشی کہتے نہیں تھکتے۔پنجاب بربادی کے دھانے پر پہنچ چکا ،مگر عمران خان عثمان بزدار کو تبدیل نہیں کر رہے ۔وہ اپنی ضد پر قائم ہیں،بارہ کروڑ عوام روز بروز دلدل میں پھنس رہے ہے،لیکن مجال ہے کہ وزیر اعظم کے کان میں جوں تک رینگی ہو۔انہوں نے حکومت سنبھالتے ہی بھینسیں اورگاڑیاں بیچ دیں اور دوسری طرف قیمتی گاڑیوں کو درآمد بھی کر لیا۔جس سے قومی خزانے کو بڑا ٹیکہ لگایا گیا۔آئے روز کرپشن کے سیکینڈلز کی بھر مار ہے،مگر شفافیت کا دعویٰ آج بھی قائم ہے۔کہاں گئی ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کا نعرہ؟آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر خودکشی کے دعوے بھی ہوا ہو گئے ۔ایسی شرمناک شرائط پر قرض لیا،جس کا کوئی حکومت سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔پورے ملک کو گروی رکھ دیا گیا۔18ماہ میں ملک کو مذید ہزاروں ارب کا مقروض بنا دیا۔آئی ایم ایف،ورلڈ بینک،سعودی عرب اور متحدہ امارات کے حکمرانوں سے کا سہ گدائی پھیلائی۔عام استعمال کی آشیاء پر ٹیکسوں کی بھر مار کر کے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا اور ان سے ناجائز طور پر کھربوں بٹور لیے۔

عمران خان نے کنٹینر پر بار بار کہا تھا کہ ملک میں 15ارب روزانہ کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں ۔اگر عمران خان حکومت نے وہی پندرہ ارب روزانہ کی کرپشن روک لی ہے ،کیوں کہ اب پاکستان میں کرپشن فری حکومت ہے تویہ5475ارب سالانہ قومی خزانے میں ڈال رہی ہے۔سابقہ ادوار میں حکمرانوں نے غریب عوام کی سہولت کے لئے سبسڈی دی گئی تھیں،لیکن موجودہ حکومت نے وہ سبسڈی واپس لے کر اربوں بچت کی،لیکن ان سب اقدامات کے باوجود ملک میں کوئی میگا پروجیکٹ شروع نہیں کیا گیا۔عوام کو ریلیف دینے پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔عمران خان حکمرانی سے پہلے سادگی کا درس دیتے تھکتے نہیں تھے،مگر حکومت سنبھالتے ہوئے چند ماہ نہیں گزرے تھے کہ ان کے وزراء کے پروٹوکول پر اربوں لٹائے جا رہے ہیں۔حکومت کے وزیر ،مشیر،ایم این اے ،ایم پی اے یا غیر منتخب عہدیداران ،ان کی طرزِ زندگی میں انقلابی تبدیلی ڈھکی چھپی نہیں ہے۔حکمرانوں نے ملک کے وسائل کو شیر مدر سمجھ لیا۔عوام کو غلام کر خود ہر قسم کی جوابدہی سے مبرا سمجھ لیا ہے۔آج عمران خان کی کابینہ بصیرت سے عاری اور بصارت سے محروم نظر آتی ہے۔یہاں سکول برباد ، ہسپتال برباد،ادارے تباہ حال، پالیسیاں پارلیمنٹ کو تشکیل دینا ہوتی ہیں،فیصلے کابینہ صادر کرتی ہیں،لیکن یہاں ساری قوت عزت ماب شہنشاہ عمران خان کے ہاتھ میں ہے ۔ایسا کیوں کر ہو رہا ہے؟یہی ایک سوال ہے،جسے ڈھونڈنے کی اشد ضرورت ہے ۔

ملک و قوم جس دوراہے پر پہنچ چکی ہے وہاں صبر و تحمل درکار ہے،طاقت کے بل پر نہیں بلکہ غورو فکر اور نہایت نجابت کے ساتھ حالات بہتری کی طرف لانا ضروری ہے۔کیوں کہ ہم نے جمہوری نظام برطانیہ سے نقل کیا ہے ۔ہمارا نظام تعلیم فرسودہ ہے ۔ہماری سول سروس کا نظام غیر ملکی حکمرانوں کی دین ہے۔ہم خرابی در خرابی پرکارفرماں ہیں۔ایسا کیوں ہے؟

عمران خان کی نیت پر شاید کوئی شک نہیں کر رہا۔کوئی نہیں چاہتا کہ وہ کامیاب نہ ہوں۔باہر حال عمران خان نے کافی محنت کے بعد یہ مقام حاصل کیا ہے،وہ ضرور چاہتے ہوں گے کہ اگر انہیں یہ مقام مل گیا ہے تو وہ تاریخ میں کچھ اچھے کاموں کی لسٹ اپنے نام کر جائیں۔لیکن ابھی تک ان کی حکومت بحرانوں کی زد میں ہے۔جو وہ دعوے یا وعدے عوام سے کرتے رہے ہیں،ان میں کوئی ایک بھی پورا نہیں کر سکے،بلکہ اس راستے پر قدم بھی نہیں بڑھا سکے۔اس کی مثال بلدیاتی ادارے کی اہمیت عمران خان سے زیادہ کون کہتا رہا ہے،مگر حکومت میں آنے کے بعد شہری حکومت کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے ،حالاں کہ بلدیاتی اداروں کے بغیر جمہوریت خستہ حال ہو جاتی ہے۔ایسا کیوں کر ہوا ہے؟

اسی ’’کیوں‘‘کا جواب عمران خان کو ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ سلیقہ مندی اور بردباری کا ثبوت دیتے ہوئے،فہم فراست سے اجتماعی مشاورت کو فروغ دیں۔عمران خان کے متعلق یقین ہے کہ وہ اَنا پرست نہیں ہیں۔کیوں کہ اگر وہ اَنا پرست ہوتے تو ایم کیو ایم ،مسلم لیگ (ق) اور شیخ رشید کو اپنے ساتھ حکومت کا حصہ نہ بناتے۔کیوں کہ ایم کیو ایم کے ساتھ دشمنی ،ق لیگ کی قیادت کو ڈاکو،لٹیرا کہنا،شیخ رشید کو اپنا چپڑاسی نہ رکھنے والی شخصیت ان کے ہم نوالہ ہم پیالہ بن سکتی ہے تو وہ کبھی اَنا پرست نہیں ہو سکتی۔عمران خان کو اپنے سیاسی مخالفین کو زچ اور ہراساں کرنے کی سوچ سے باہر نکل کر ملک و قوم کا سوچنا ہو گا اور ’’کیوں‘‘کے سوال کو ڈھونڈ کر اس کا تدارک کرنا ہو گا۔اپنی عادات پر غور کریں،جس کی وجہ سے بائیس کروڑ عوام مشکل ترین حالات سے دوچار ہے۔یا تو سیدھی طرز سے حکومت کریں ورنہ کمبل جھٹک کر بچوں کے پاس برطانیہ روانہ ہو جائیں اور عوام کی جان چھوڑ دیں ۔یہ ان کا عوام پر بڑا احسان ہو گا۔
 

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 153 Articles with 95150 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.