صدر آصف علی زرداری کی جانب سے بھٹو کیس ری
اوپن کرنے کے لئے ریفرنس سپریم کورٹ بھجوانے کے بعد قانونی ماہرین کی آراء
تو اپنی جگہ عوام میں بھی اس سوال کو بڑی شدت کے ساتھ اٹھایا جارہا ہے کہ
چونیتس برس قبل ختم ہونے والے معاملے کو دوبارہ زندہ کرنے سے آخر فائدہ کیا
ہوگا؟ پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ ان کے بانی چیئرمین کی پھانسی ایک عدالتی
قتل تھا اور کیس کی دوبارہ جانچ کا مقصد ریکارڈ درست کرنے کے سوا کچھ بھی
نہیں جبکہ قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ آئین میں اس طرح کے کیسز کو دوبارہ
کھولنے کی کوئی گنجائش ہی موجود نہیں اور اس بات سے بخوبی آگاہ ہونے کے
باوجود ریفرنس بجھوانا سمجھ سے بالا ہے۔دوسری جانب سیاسی سطح پر بھی اس
حوالے سے ملے جلے رد عمل کا سلسلہ جاری ہے لیکن عوام کے سوال کا جواب دینے
کی توفیق کسی کو بھی نہیں ہوئی کہ آخر اس سارے جھمیلے کے بعد عام آدمی کے
ہاتھ آئے گا کیا؟بات سیدھی اور صاف ہے لیکن شاید ہم سچ بولنے اور پھر اس کو
برداشت کرنے کے حوصلے سے عاری ہوچکے ہیں کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی کوئی کچھ
نہیں کہہ رہا، حالانکہ بات سیدھی اور صاف ہے کہ عوام تو دور کی بات خود
پیپلز پارٹی کو بھی نتائج معلوم ہیں لیکن اس کے باوجود”میں نہ مانوں“ کی
روش نہ صرف جاری ہے بلکہ ایک عرصہ سے Diversionپالیسی پر عمل پیرا پارٹی کی
موجودہ قیادت اور حکومت چیختے چلاتے بلکہ بڑی حد تک چنگھاڑتے مسائل سے توجہ
ہتانے کے لئے اپنے بانی تک کو سیاست میں گھسیٹ لائی ہے۔
کیس کو اچانک اور جس انداز میں ری اوپن کرنے کا ریفرنس بھیجا گیا ہے وہ تو
اپنی جگہ ،بھٹو کی پھانسی پر مٹھائیاں بانٹنے اور”مرد مومن ، مرد حق، ضیاء
الحق ضیاء الحق“ ‘کے نعروں کے الزام میں دھنسے بابر اعوان کو اس کی پیروی
سونپنے کے اقدام نے سب کو حیران کرنے کے ساتھ ساتھ پارٹی کے عزائم سے بھی
بخوبی آگاہی فراہم کردی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بھٹو کا ملکی سیاست میں
ایک منفرد مقام ہے جبکہ وطن عزیز کا دفاع مضبوط کروانے سے لے کر متفقہ آئین
کی تشکیل انہی کی مرہون منت ہے لیکن ایک جمہوری معاشرے میں ہر ایک کو
اختلاف رائے کا حق حاصل ہوتا ہے اور ہمارے خیال میں بھٹو کے مخالفین بھی
اپنے اسی حق کو استعمال کرتے ہوئے مرحوم کے بہت سے اقدامات پر اعتراض کرتے
رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے پیپلز پارٹی میں تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں
ہے اور اسی مقصد کے لئے وہ ایک کے بعد ایک مسئلہ پیدا کرتی جارہی ہے تاکہ
ایک طرف تو نقادوں کی توجہ تقیسم کی جا سکے تو دوسری جانب اس تنقید پر کان
دھرنے والے عوام کو بھی لالی پاپ ملتا رہے۔ بھٹو کیس ری اوپن کرنے کا
ریفرنس بھی اسی مقصد ہی کے تحت بھجوایا گیا ہے جبکہ اس کے بعد پارٹی کے
بانی کی سزا پر رد عمل کے حوالے سے متنازعہ حیثیت رکھنے والے ہی کو وکیل کر
کے معاملہ اور الجھا دیا گیا ہے۔
پیپلز پارٹی اپنی اس Diversionپالیسی میں بڑی حد تک کامیاب بھی رہی ہے کہ
ہر نئے مسئلے کے پیدا ہونے کے بعد عوام اس سے پہلے معاملے کو خواہ وہ کتنا
ہی سنگین اور شدید ہو بھول جاتے ہیں۔یہ تو معلوم نہیں کہ اس پالیسی کے
پیچھے کس کا دماغ کار فرما ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ بظاہر مثبت دکھائی دینے
والے اس پالیسی کے نتائج پیپلز پارٹی کی سیاست اور ساکھ پر انتہائی منفی
اثرات مرتب کر رہے ہیں جو زیادہ نہیں بس دو سال بعد ہی کھل کر سامنے آجائیں
گے۔بات بھٹو کیس کی ہو رہی ہے تو باقی معاملات کو چھیڑنے کے بجائے ہم اسی
تناظر میں پیپلز پارٹی کے عزائم کا جائزہ لیں گے۔بقول بابر اعوان تو کیس ری
اوپن کرنے کا مقصد تاریخ کے دامن پر لگے سیاہ دھبے کو صاف کرنا ہے لیکن پی
پی قیادت اس اقدام کے بعد خود اپنے دامن پر لگنے والے داغ سے تاحال بے خبر
ہے۔بابر اعوان ہی کو دیکھیں، موصوف نے بقول انہی کے بھٹو سے محبت کا ثبوت
دینے کے لئے وزارت چھوڑی ہے لیکن ذرا یہ بھی تو بتایا جائے کہ یہ محبت اس
وقت کہاں تھی جب سابق وزیر اعظم کے تختہ دار پر لٹکنے کے بعد وہ بقول
اعجازالحق سب سے پہلے ان کے والد کو مبارک باد دینے پہنچے تھے ، یہی نہیں
بلکہ انہوں نے اس سزا کی”خوشی “ میں مٹھائیاں بھی تقسیم کی تھیں جبکہ بعد
ازاں بھی موصوف ضیاءالحق کی آمریت کو جلا بخشنے میں پیش پیش رہے۔بابر اعوان
کا نیا جذبہ کتنا رنگ دکھاتا ہے یہ تو ان کے دلائل اور اس سے بھی پہلے
سپریم کورٹ کی جانب سے ریفرنس کی سماعت کرنے یا نہ کرنے پر ہی منحصر ہے
لیکن سر دست پیپلز پارٹی کو ”فائدہ“ یہ ہوا ہے کہ عوام کو بھٹو ازم کے
پرچار کے دعویداروں کے ماضی سے بخوبی آگاہ ہوگئے ہیں جو آنے والے الیکشن
میں اس کے لئے خاصا”مفید“ ثابت ہوگا کہ ماضی میں بھٹو کے مخالفین موجودہ
پیپلز پارٹی پر قابض ہونے کا پہلے ہی موجود تاثر مزید پر اثر ہوجائے گا۔
تھوڑی سی تاریخ کھنگالی جائے تو بے نظیر بھٹو کی انیس سو اٹھاسی میں
پاکستان واپسی کے بعد سے پیپلز پارٹی کسی نہ کسی طور عوامی ہمدردی ہی کے بل
بوتے پر اقتدار کی منزل تک پہنچتی رہی ہے ، دو ہزار آٹھ کے عام انتخابات
میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد تو یہ ہمدردی اپنے عروج پر تھی نام نہاد
خاموش انقلاب کے ذریعے حکومت سنبھالنے والی پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت
اپنی ہی نااہلیوں اور عاقبت نااندیش پالیسیوں کے سبب اس ہمدردی کو انتہائی
نفرت میں تبدیل کرچکی ہے جبکہ اسے دو سال بعد ہونے والے عام انتخابات میں
اپنی بقاء کے لئے کوئی سہارا بھی دکھائی نہیں دے رہا لہٰذا اسی کمی کو پورا
کرنے کے لئے اس نے بھٹو ازم کو زندہ کرنے کا نعرہ لگایا ہے اور اسی نعرے کے
تحت موجودہ قیادت اپنے بانی کی سزا کے حوالے سے عدالت عظمی تک جا پہنچی
ہے۔پیپلز پارٹی کا خیال ہے کہ عدلیہ نے ہمیشہ اس کے ساتھ نا انصافی کی ہے
جبکہ وہ یہ بھی جانتی ہے کہ قانونی لحاظ سے اس ریفرنس کی کوئی حیثیت نہیں
اور پہلی ہی تین یا چار سماعتوں کے بعد اسے واپس کر دیا جائے گا لہٰذا اس
نقطے کا فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کرتے ہوئے اندھیرے میں تیر چلانے کے ساتھ
ساتھ آئینی پیچیدگیوں کو کیش کروانے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے لیکن یہ حقیقت
فراموش کر دی گئی ہے کہ اسی کی دہائی اور دوہزار گیارہ کی عدلیہ اور عوام
دونوں ہی میں زمین آسمان کا فرق ہے لہٰذا یقینی طور پر یہاں بھی نفع کے
بجائے الٹا سیاسی نقصان ہی دکھائی دے رہا ہے۔
رہ گئے عوام تو انہیں نہ تو اس کیس کے دبے رہنے میں کوئی نقصان ہے اور نہ
ہی اوپن ہونے میں کوئی فائدہ۔بھٹو کیس کھلنے سے پہلے بھی وہ ناکردہ گناہوں
کی سزا بھگت رہے ہیں اور بقول پیپلز پارٹی اس عدالتی قتل کا ریکارڈ درست
ہونے(اگر ہوگیا تو) کے بعد بھی وہ ناانصافی، بنیاد وسائل سے محرومی اور
سانس کی ڈور قائم رکھنے کے لئے کولہو کے بیل کی طرح لگے بندھے چکر ہی میں
گھومتے رہیں گے کہ ایک کے بعد ایک مسئلہ پیدا کر کے اقتدار کو طوالت دینے
والوں نے تو ان سے نفع یا نقصان بارے سوچنے تک کی حس بھی چھین لی ہے۔ |