ویلفئیر پارٹی آف انڈیا کی تاسیس

زائد از تیس سال کے غور و فکر، کوئی پندرہ سال کے مختلف تجربات، چھ سال تک جلسوں، سیمناروں کے انعقاد اور جنتر منتر پر سیاسی مظاہروں نیز دو سال کی تگ دو کے بعد آخر کار جماعت اسلامی ہند کی سرپرستی میں ایک غیر فرقہ ورانہ سیاسی جماعت ’ویلفیر پارٹی آف انڈیا ‘ کا قیام 18 اپریل کو دہلی میں عمل میں آگیا۔

اپنے قیام کے وقت سے ہی جماعت اسلامی عملی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لینے کے موقف پر قائم ہے۔ اس نئی پارٹی کے قیام سے اس کا یہ موقف بدل نہیں گیا ہے البتہ اس میں یہ گنجائش پیدا کر لی گئی ہے کہ جماعت کے جو ارکان سیاست کے خار زار میں اترنا چاہتے ہیں ، وہ جماعت کا رکن رہتے ہوئے سیاسی سرگرمیوں میں شریک ہوسکتے ہیں۔ ہمیں اس سے بحث نہیں کہ اصولاً یہ بات کتنی درست ہے اور عملاً اس کے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، لیکن ہم سمجھتے ہیں یہ درمیان کا راستہ جماعت نے طویل غور و فکر اور مختلف تجربات سے گزر کر نکالا ہے اور یہ اس کے لئے عافیت کا راستہ ہے۔

قومی اجتماعی زندگی پر اثر انداز ہونے کی جماعت کی پہلی بڑی کوشش تو 1965 میں کل ہند مسلم مجلس مشاورت کے قیام کی صورت میں سامنے آئی تھی۔ ملکی سطح پر جس طرح اس کا والہانہ خیر مقدم ہوا تھا، وہ بے مثال ہے۔ لیکن بہر حال یہ کوشش سیاسی عمل میں شرکت کے زمرے میں نہیں آتی، البتہ مشاورت نے ابتدا میں سیاسی پریشر گروپ کے طور پر موثر کردار ادا کیا۔لیکن افسوس کہ جلد ہی یہ تنظیم حصوں بخروں میں تقسیم ہوگئی اور اس کی آواز کمزور پڑ گئی۔

اس کے دس برس بعد 1975ء میں ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ اور جماعت پر غیرآئینی پابندی سے ایک نئی صورتحال پیدا ہوئی۔ جماعت کے اکثر کارکنان اختراعی الزامات کے تحت جیلوں میں بند کردئے گئے ۔21 ماہ کی ایمرجنسی کے بعد جب1977ءمیں جیلوں کی دروازے کھلے تو ملک ایک نازک اور نادر صورتحال سے دوچار تھا۔ملک کے جمہوری دستوری نظام کو دستوری آمریت میں تبدیل کئے جانے کا خطرہ لاحق تھا۔اس صورتحال کے پیش نظر جماعت میں ایک نئی بحث کا آغاز ہوا۔ جماعت کو ہندوستان کی سرگرم سیاست میں کوئی رول ادا کرنا چاہئے یا نہیں؟ اگرچہ اصولاً جماعت کی نظر میں اس طرح کے جمہوری نظام کے ساتھ معاونت کی گنجائش نہیں، جیسا ہمارے ملک میں نافذ ہے اور جس میں خدا کی بادشاہت کے بجائے عوام کے نمائندوں کو سیاہ و سفید کا مالک تسلیم کیا جاتا ہے، ، لیکن یہ محسوس کیا گیا کہ دستوری آمریت کے مقابلے میں یہ جمہوری دستوری نظام کمتر درجہ کی خرابی ہے ۔ اس میں دعوت و تبلیغ کے ذریعہ اصلاح کی جو گنجائش ہے وہ دستوری آمریت میں ممکن نہیں۔چنانچہ جماعت نے اپنی بنیادی اساسی پالیسی سے گریز کو ایک مجبوری کے طور پر قبول کیا اور اس تحریک میں خاموش معاونت پر آمادہ ہوگئی جس کی قیادت جے پرکاش نارائن اور مولانا سید عبد اللہ بخاری ؒ جیسے بے لوث قائدین کر رہے تھے۔ چنانچہ جماعت کے کارکنوں کو پہلی مرتبہ اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کی اجازت دی گئی اور منظر عام پر آئے بغیر جماعت کے کارکنوں نے پوری طاقت سے نظام کی اس متوقع تبدیلی کو روکنے کے لئے کام کیا۔

اس وقتی کوشش کے کامیاب نتائج کے پس منظر میں جماعت میں یہ بحث شروع ہوگئی کہ جماعت کو ملک کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہئے یا نہیں؟ اس سوال پر غور کرنے کے لئے 1978ءمیں،26تا30 مئی میں بھوپال میں جماعت کے عمائدین کا ایک پانچ روزہ اجتماع ہوا، جس کو ہندی کی اصطلاح میں ’چنتن بیٹھک‘ کہا جائے گا۔ اس میں بڑی تفصیل کے ساتھ اس سوال پر غور و خوض ہوا مگر کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوسکا۔ بعد میں بھی یہ بحث جاری رہی اور یہ سوال بار بار جماعتی حلقوں میں زیر غور آتا رہا۔ دسمبر 1992ءمیں بابری مسجد کے انہدام کے بعد جب جماعت پر بلاجواز پابندی عائد کردی گئی، تب جماعت کے ایک سرکردہ رہنما اور موقر پالیسی ساز مولانا شفیع مونسؒ(ولادت یکم مئی 1915ء۔ وفات 6اپریل 2011) کی پہل پر ’فورم فار سیکولر ڈیمو کریسی اینڈ کمیونل ہارمونی‘ کا قیام عمل میں آیا۔ صاف ذہن کے باوزن غیر مسلم دانشوروں کو ساتھ لیکر بنایا گیا یہ فورم ایک کارگر پریشر گروپ ثابت ہوا۔لیکن جماعت کے ایک بڑے طبقے نے اس کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا، چنانچہ زیادہ عرصہ اس کی سرگرمیاں جاری نہیں رہ سکیں۔

جماعت کے اکثر فعال کارکن ’سیکولر‘ کا مطلب’ لادینی ‘لیتے ہیں اسی لئے سیکولر عنوان سے کوئی بھی پلیٹ فارم یا سرگرمی ان کے لئے قابل قبول نہیں ہوتی۔لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ ہندوستان کے آئین میں سیکولر کی اصطلاح لا مذہبیت یا مذہب بیزاری کے مفہوم میں نہیں بلکہ ’مذہب کی بنیاد پر عدم تعصب کی پالیسی ‘کے معنے میں استعمال ہوئی ہے۔یہ تصور فاسد ہے کہ جو شخص نہ اپنے دین و عقیدے پر قائم ہو اور دوسرے کے دین پر، یہاں چادر چڑھا دی، وہاں متھا ٹیک لیا، وہ سیکولر ہے۔ہرگز نہیں۔ درحقیقت سیکولر وہ ہے جو اپنے اصولوں پر کاربند رہے اور دوسروں کے اس حق کا احترام کرے کہ وہ بھی اپنی اقدار پر قائم رہ سکیں۔زمانہ قدیم سے ہندوستان کا معاشرہ اسی اصول پر کاربند رہا ہے۔

ہم ایک ایسے ملک کے باشندہ ہیں جس کے دستور کی بنیاد ہی سیکولرزم پر قائم ہے۔ چنانچہ ہمارا دستور اصولاً ملک کے ہر باشندہ کی مذہبی اور سماجی قدروں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ اسی دستور کے تحت ہم اپنے اختیارات کی بحالی اور ناانصافیوں کے ازالہ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں ہندوﺅں کی اکثریت فرقہ پرست نہیں ہے بلکہ مذہبی اور سماجی رواداری کی قائل ہے۔ چنانچہ ایسے غیر مسلموں کو ساتھ لیکر، جو فکر اور عمل دونوں اعتبار سے سیکولر نظریہ پر کاربند ہیں، ملی اور قومی مسائل کے حل پر متوجہ ہونا باعث عار نہیں سمجھا جانا چاہئے ۔ مولانا شفیع مونس مرحوم سے اپنی ملاقاتوں کے دوران میں نے محسوس کیا کہ اس حقیقت کا بہت واضح تصور ان کے پیش نظر رہتا تھا۔جماعت کے نصب العین ’اقامت دین‘ کے بارے میں بھی ان کو کوئی ابہام نہیں تھا۔اقامت دین کا مطلب طالبانی نظام نہیں بلکہ یہ ہے کہ معاشرہ کو ہر طرح کے جبر و ظلم ،استحصال اور خودغرضیوں سے نجات دلائی جائے، جس میں صاحب اختیار اللہ کے سامنے جوابدہی کے احساس سے حقدار کو اس کا حق دینے کے لئے فکر مند ہو۔ یہ معاشرہ انصاف پر اور اس سے بھی بڑھ کر احسان کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔اس کا بہترین نمونہ وہ دور ہے جس کو ہم خلفائے راشدین کا دور کہتے ہیں۔ جس میں صرف مسلمان ہی محفوظ و مامون نہیں تھے بلکہ غیر مسلم بھی محفوظ تھے اور حق کے خلاف کسی زبردست کا کوئی زور کسی زیر دست پر نہیں چلتا تھا۔گاندھی جی نے بھی اس دور کو تاریخ انسانی سنہرا دور تسلیم کیا ہے اور ایک مرحلہ پر کانگریسیوں کو تلقین کی کہ وہ حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عمرؓ کا اپنا آئیڈیل بنائیں۔ چنانچہ اس مثالی معاشرے کے قیام کے پہلے قدم کے طور پر ناانصافیوں کو مٹانے کے لئے غیر مسلموں کو ساتھ لے کر منظم جدوجہد پر اعتراض کا جواز نہیں ہونا چاہئے۔ ہم سمجھتے ہیں ویلفیر پارٹی کا قیام اسی غرض سے عمل میں آیا ہے۔ آسام میں مولانا بدرالدین اجمل کی قیادت میں یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کی کامیابی اور اس کی ملت کے لئے مفید خدمات ، ترکی میں جسٹس اینڈ ویلفیر پارٹی کی حکیمانہ پالیسیاں، جس سے لادینیت کا شکنجہ کمزور پڑا ہے ، مصر میں اخوان المسلمین کا اپنی سابق حکمت عملی سے رجوع کرنا اور سیکولر جمہوری نظام میں شمولیت کا فیصلہ، کچھ ایسے واقعات ہیں جن سے جماعت کے اندر یقیناً اس سوچ کو تقویت حاصل ہوئی ہوگی کہ قومی سطح پر اس تجربہ سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

جماعت جس نہج کی تنظیم ہے اس میں ایسے افراد کم ہیں جو ذہنی سطح پر سیاسی مشغولیتوں کے لئے آمادہ یا مفید ہوں۔ چنانچہ اس نے درمیان کی یہ راہ نکالی کہ جماعت اسلامی ہند کا کردار حسب سابق برقرار رکھا جائے گا، البتہ اس کے ایسے کارکنان جو سیاسی سرگرمیوں کے لئے موزوں مزاج رکھتے ہیں ، اس نئی سیاسی پارٹی میں رول ادا کریں گے۔ اس کو جس طرح تشکیل دیا گیا ہے اس سے تو یہی پیغام ملتا ہے کہ ویلفیر پارٹی آف انڈیا نہ تو خالص جماعت اسلامی کا کوئی ذیلی شعبہ ہے اور نہ صرف مسلمانوں کی جماعت ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ مسلم قیادت والی ایک سیکولر پارٹی ہے۔ یہی وجہ ہے ملک کی کئی سرکردہ سیکولر شخصیات اس کے ساتھ آگئی ہیں ۔ تنظیم کے صدر بیشک جماعت اسلامی کے ایک سیکریٹری مجتبیٰ فاروق (اورنگ آباد، مہاراشٹرا)کو بنایا گیا ہے۔ ان کا صحیح پس منظر ، میرے علم کی حد تک یہ ہے کہ جناب فاروق کو سیکریٹری کے منصب پر لایا ہی اس لئے گیا تھا کہ سیاسی میدان میں ان کی خدمات سے فائدہ اٹھایا جائے۔ چنانچہ ان کے لئے جو نیا شعبہ مخصوص کیا گیا وہ ہے ہی:’شعبہ ملی و ملکی مسائل‘۔ جنرل سیکریٹری سید قاسم رسول الیاس کو بھی بجا طور پر جماعت کا سیاسی ترجمان کہا جاسکتا ہے۔ عہدیداران میں بطور نائب صدور فادرابراہم جوزف، للتھا نائر(سابق وزیر کرناٹک) ڈاکٹر ظفرا لاسلام خان، ایڈیٹر انگریزی پندرہ روزہ ملی گزٹ،مولانا عبدالوہاب خلجی(جمیعت اہل حدیث)، الیاس اعظمی ، سابق ایم پی (لوک سبھا) کی شمولیت سے یہ پیغام جاتا ہے کہ یہ صرف مسلمانوں کی یا جماعت اسلامی کی تنظیم نہیں ہے بلکہ اس میں عیسائی اور دیگر غیر مسلم مکتبہ فکر کی نمائندگی بھی ہے۔ جنرل سیکریٹریز میں پروفیسر سہیل احمد خاں، پروفیسر رما پنچال(مدھیہ پردیش)، محترمہ خالدہ پروین اور مسٹر پی سی ہمزہ کی موجودگی اور سیکریٹریز میں پروفیسر رما سوریہ راﺅ، اختر حسین اخترایڈو کیٹ، عامر رشید اور مسٹر سبرا مانی کی شمولیت بھی یہی پیغام دیتی ہے۔

البتہ اس کا اصل امتحان تو اسی وقت ہوگا جب یہ عوام میں جائے گی۔ یہ اندیشہ بجا ہے کہ جماعت اسلامی کی عوامی اپیل بڑی ہی کمزور ہے۔ عوام میں نفوذ کے لئے خدمت خلق سب سے موثر طریقہ ہے ۔ مصر کے پس منظر میں لادینی طاقتیں اخوان سے اسی لیے ڈری ہوئی ہیں کہ پابندیوں کے باوجود اس نے خدمت خلق کی سرگرمیوں کی بدولت عوام میں گہرا نفوذ حاصل کر لیا ہے۔غزہ میں حماس کی کامیابی اور لبنان میں حزب اللہ کی عوامی مقبولیت کی شاہ کلید بھی خدمت خلق میں مستعدی اور وسعت ہے۔نوجوانوں میں نفوذ کا بہترین ذریعہ کھیل کود کا شعبہ ہے، جس کا سرے سے جماعت میں کوئی تصور ہی نہیں۔ہم بس یہ امید ہی کرسکتے ہیں نعروں، تقریروں، جلسوں اور دھرنوں کے دائرے سے باہر نکل کر یہ پارٹی اپنی پالیسی اور پروگراموں میں ان تمام تدابیر کو اہمیت کے ساتھ شامل کریگی، جن سے عوام جماعت کی طرف متوجہ ہوں۔ اس ضمن میں سیرت رسول ﷺ سے رہنمائی ملتی ہے۔بصورت دیگر چناﺅ کمشین کے رجسٹر میں دو ہزار جماعتوں کے ناموں میں ایک نام کا اضافہ اور ہوجانا، مقصد براری کے لے کافی نہیں ہوگا۔ (ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 180840 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.