دنیا کو سب سے پہلے کورونا وائرس سے باخبر کرنے والے ڈاکٹر لِی بھی انتقال کر گئے

image


پہلی مرتبہ کورونا وائرس سے خبردار کرنے والے چینی ڈاکٹر لِی وینلیانگ چین کے مقامی ہسپتال میں انتقال کر گئے ہیں۔

ڈاکٹر لِی کورونا وائرس کا شکار ہوئے تھے اور اب ایک مقامی ہسپتال نے، جہاں ان کا علاج جاری تھا، ان کی موت کی تصدیق کر دی ہے۔

ڈاکٹر لِی نے گذشتہ برس دسمبر میں اپنے ساتھی ڈاکٹروں کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے متعلق تنبیہ کرنے کی کوشش کی تھی تاہم اس وقت چین میں حکام نے انھیں ’غلط اطلاعات پھیلانے‘ سے باز رہنے کو کہا تھا۔

اس سے قبل ان کی موت کے حوالے سے متضاد خبریں سامنے آ رہی تھیں مگر اب ایک چینی اخبار ’پیپلز ڈیلی‘ نے رپورٹ کیا ہے کہ ڈاکٹر لِی جمعے کی صبح چین کے مقامی وقت کے مطابق دو بج کر 58 منٹ پر انتقال کر گئے تھے۔

جمعرات کو ریاستی سرپرستی میں چلنے والے میڈیا گلوبل ٹائمز نے پہلے کہا تھا کہ ڈاکر لی وینلیانگ انتقال کر گئے ہیں تاہم بعد میں یہ رپورٹ کیا گیا کہ ان کی حالت بہت نازک ہے۔

چین میں کورونا وائرس سے اب تک کم از کم 560 افراد ہلاک اور 28 ہزار متاثر ہوئے ہیں۔

موت کی خبر کیسے رپورٹ کی گئی؟
گلوبل ٹائمز اور دیگر چینی ذرائع ابلاغ نے پہلے یہ رپورٹ کیا تھا کہ 34 سالہ ڈاکٹر لی کورونا وائرس کی وجہ سے انتقال کر گئے ہیں۔

یہ خبریں دیگر چینی ذارئع ابلاغ میں بھی چلیں اور بین الاقومی اداروں نے اسے رپورٹ کرنا شروع کر دیا۔ عالمی ادارہ صحت نے بھی غم کا اظہار کرتے ہوئے ایک ٹویٹ کی تھی۔

لیکن پھر گلوبل ٹائمز نے ووہان سینٹرل ہسپتال سے ایک رپورٹ چلائی کہ ڈاکٹر لی کے دل کی دھڑکن مقامی وقت کے مطابق شام ساڑھے نو بجے بند ہو گئی تھی جسے بحال کر لیا گیا تھا۔ ادارے نے بعد میں کہا کہ ان کی حالت نازک ہے۔

چینی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ویبو پر ان کی موت کی خبروں پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔

ڈاکٹر لی کون تھے؟
ڈاکٹر لی ووہان کے مرکزی ہسپتال میں آنکھوں کے ڈاکٹر کے فرائض سرانجام دے رہے تھے اور انھوں نے 30 دسمبر کو اپنے ساتھی ڈاکٹروں کو کورونا وائرس سے خبردار کیا تھا۔

اپنے ساتھی عملے سے یہ بات کرنے کے بعد مقامی پولیس ڈاکٹر لی کے پاس آئی اور انھیں تنبیہ کی کہ وہ کورونا کے پھیلنے سے متعلق باتیں کرنا بند کر دیں۔
 


مگر ایک ہی ماہ بعد فروری 2020 میں جب اس ڈاکٹر نے مقامی ہسپتال کے بستر پر لیٹ کر یہ کہانی سوشل میڈیا پر شیئر کی تو چین میں ان کا خیر مقدم ایک ہیرو کی طرح کیا گیا۔

سوشل میڈیا سائٹ پر انھوں نے اپنی کہانی یوں شروع کی تھی کہ ’تمام احباب کو خوش آمدید، میں لِی وینلیانگ ہوں اور ووہان سینٹرل ہسپتال میں ماہرِ امراض چشم کے طور پر کام کر رہا ہوں۔‘

اس وقت تک 34 سالہ ڈاکٹر لی کے بقول وہ ایسے سات مریضوں کو دیکھ چکے تھے اور ان کا خیال تھا کہ ان مریضوں پر سارس جیسے کسی وائرس نے حملہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ سارس وائرس کی عالمی وبا سنہ 2003 میں پھیلی تھی۔

انہوں نے 30 دسمبر کو اپنے ساتھی ڈاکٹروں کو ایک مشترکہ گروپ میں پیغام بھیجا تھا جس میں انہوں نے ساتھیوں کو وائرس سے متعلق متنبہ کیا تھا اور مشورہ دیا تھا کہ وہ متاثرہ مریضوں کا علاج کرتے ہوئے حفاظتی دستانے اور کپڑے پہنیں تاکہ وائرس انھیں متاثر نہ کر سکے۔

اس پیغام کے چار دن بعد انہیں پبلک سکیورٹی بیورو کے دفتر میں طلب کیا گیا جہاں انہیں ایک تحریر پر دستخط کرنے کو کہا گیا۔ اس خط میں ڈاکٹر لی پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ ’غلط قسم کے دعوے‘ کر کے ’شدید نقص امن‘ کے مرتکب ہوئے ہیں۔
 

image


اس خط میں مزید لکھا تھا کہ 'ہم آپ کو متنبہ کرتے ہیں: اگر آپ نے اپنی ہٹ دھرمی اور ضد جاری رکھی اور اس غیر قانونی سرگرمی کو فروغ دیا تو آپ کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ کیا آپ کو سمجھ آئی ہے؟'

اس خط کے نیچے ڈاکٹر لِی سے دستخط لیے گئے اور ڈاکٹر لِی نے لکھا 'جی میں سمجھ گیا ہوں۔'

ڈاکٹر لِی ان آٹھ افراد میں سے ایک شخص تھے جنھیں ’افواہیں پھیلانے‘ کے الزام میں تفتیش کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

جنوری کے آواخر میں ڈاکٹر لِی نے اس خط کی کاپی سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر شائع کی اور بتایا کہ جب انھوں نے وائرس کے حوالے سے لوگوں کو متنبہ کرنے کی کوشش کی تو ان کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا تھا۔

اس کے بعد مقامی حکام نے ڈاکٹر لِی سے معذرت بھی کی مگر اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔

جنوری کے ابتدائی ایام میں ووہان میں حکام بضد تھے کہ یہ وائرس صرف ان لوگوں میں پھیل سکتا ہے جو متاثرہ جانوروں کے ساتھ براہ راست کام کرتے ہیں، یعنی مویشی یا دیگر جانوروں کی منڈیوں میں۔

اس وقت تک متاثرہ مریضوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹرز کو بھی کسی طرح کے حفاظتی اقدامات کرنے کی بابت رہنمائی فراہم نہیں کی گئی تھی۔
 

image


اس خط کو سائن کرنے کے ایک ہفتے بعد ڈاکٹر لِی ہسپتال میں کالے موتیے کا شکار ایک خاتون کا علاج کر رہے تھے۔ انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ آنکھوں کی بیماری کے علاوہ وہ خاتون کورونا وائرس سے بھی متاثر تھیں۔

اپنی سوشل میڈیا کہانی میں ڈاکٹر لِی نے بتایا تھا کہ اس خاتون میں موجود وائرس سے متاثر ہونے کے چند دن بعد 10 جنوری کو انھیں کھانسی شروع ہوئی۔ ان کے والدین بھی بیمار پڑ گئے جنھیں ہسپتال لایا گیا۔

اس واقعے کے دس روز بعد یعنی 20 جنوری کو چین نے باضابطہ طور پر نئے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا اعلان کرتے ہوئے ہنگامی صورتحال کے نفاذ کا اعلان کیا۔

ڈاکٹر لِی کے بہت سے ٹیسٹ ہوئے مگر ابتدائی طور پر ان میں کورونا وائرس کی موجودگی کی تشخیص نہیں ہوئی، تاہم 30 جنوری کو ان میں وائرس کی موجودگی کی تشخیص ہو گئی تھی۔

اپنے جسم میں وائرس کی موجودگی کے حوالے سے کی گئی پوسٹ کے ساتھ انھوں نے ایک ایموجی بھی پوسٹ کی جس میں ایک کتا بنا ہے جس کی آنکھیں پیچھے کی جانب گھومی ہوئی ہیں اور زبان منھ سے باہر لٹک رہی ہے۔

اس پوسٹ کو ہزارہا لوگوں نے سراہا اور اس پر اپنی آرا کا اظہار اور ڈاکٹر لِی کی سپورٹ میں پیغامات لکھے۔

ایک صارف نے لکھا کہ ’ڈاکٹر لِی ایک ہیرو ہیں۔ مستقبل میں ڈاکٹر کسی بھی متعدی بیماری کے پھیلاؤ سے متعلق تنبیہ کرنے سے قبل مزید خوفزدہ ہوں گے۔

’ملک میں محفوظ عوامی صحت کے ماحول کے لیے ہزاروں ڈاکٹرلِی جیسے ڈاکٹرز کی ضرورت ہے۔‘


Partner Content: BBC

YOU MAY ALSO LIKE: