|
پردیس میں دو بیٹیوں کے ساتھ میرے شوہر نے طلاق دے کر گھر سے نکال دیا ۔
ایک 16 سالہ لڑکی کی داستان جس نے ہمت کی مثال قائم کر دی
میرا نام ثمرہ ہے ۔ بچپن میں باقی لڑکیوں کی طرح میں بھی ڈاکٹر بننے کے
خواب دیکھا کرتی تھی میں بڑی بڑی یونی ورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنا چاہتی
تھی میں چار بہنوں میں سب سے بڑی تھی- میرا تعلق ایک پاکستانی فیملی سے تھا
جو روزگار کے لیے عرب امارات میں رہائش پزیر تھی میرے والد ایک آئل پلانٹ
میں ملازمت کرتے تھے جب کہ میری والدہ ایک پاکستانی اسکول میں بطور ٹیچر
نوکری کرتی تھیں ۔میرا شمار ایک بہت ہی ذہین ، حاضر جواب طالب علموں میں
ہوتا تھا -
ایک دن جب میں دسویں جماعت میں تھی میری والدہ میرے پاس آئيں اور انہوں نے
مجھے بتایا کہ میرا ایک رشتہ آیا ہے لڑکا کینیڈا میں آئی ٹی کے شعبے سے
وابستہ ہے اور اس کی عمر 28 سال ہے ۔ لڑکے کی ماں کو میرے لمبے قد کے سبب
میری تصویر بہت پسند آئی ہے اور انہوں نے مجھے اپنے بیٹے کے لیے پسند کر
لیا ہے شروع میں تو مجھے اپنی امی کی بات ایک مذاق سے زیادہ نہ لگی مگر امی
نے بہت سنجیدگی سے جب یقین دلایا کہ یہ سب وہ میرے بہتر مستقبل کے لیے کر
رہی ہیں تاکہ میں کینیڈا جیسے بڑے ملک میں تعلیم حاصل کر سکوں-
اس حوالے سے میری امی نے جب میری بات میرے ہونے والے شوہر سے کروائی تو میں
نے ان سے بھی یہی درخواست کی کہ میں آگے پڑھنا چاہتی ہوں تو انہوں نے مجھے
بھی یہی یقین دلایا کہ ہم اپنی زندگی میں پلاننگ کریں گے اور اس وقت تک بچے
نہ ہوں گے جب تک ہم نہیں چاہیں گے- اس وقت اپنی کم عمری کے سبب مجھے ان کی
باتیں سمجھ نہ آئیں کیوں کہ نہ تو میں شادی کے اصل معنوں سے واقف تھی اور
نہ ہی مجھے یہ پتہ تھا کہ بچے کیسے ہوتے ہیں-
اور اس طرح جولائی 1999 میں میری شادی کراچی میں انجام پائی جس دن پہلے دن
میں نے اپنے شوہر کو دیکھا مگر ابھی صرف نکاح کیا گیا تھا رخصتی اس وقت تک
ملتوی کر دی گئی تھی جب تک کہ میرے امیگریشن کے کاغذات نہیں آجاتے ہیں ۔ اس
کے بعد اگست 2000 میں میرے امیگریشن کے کاغذات بھی آگئے اور میں رخصت ہو کر
کینیڈا اپنے شوہر کے پاس آگئی اس موقع پر میرے ساتھ میری خالہ کی دی گئی
کچھ نصیحتیں تھیں جس سے زيادہ مجھے شادی شدہ زندگی کے بارے میں کچھ بھی پتہ
نہ تھا ۔ اس رات میں پہلی بار میری شادی شدہ زندگی کا باقاعدہ آغاز ہوا جس
کے نتیجے میں پہلے مہینے ہی میں امید سے ہو گئی حالانکہ میرے شوہر نے شادی
سے پہلے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ ہم بچوں کی پیدائش کے حوالے سے پلاننگ کریں
گے- مگر یہ پلاننگ کیسے کی جاتی ہے کم عمری کے سبب مجھے اس حوالے سے کوئی
معلومات نہ تھی-
ان دنوں میرے شوہر نے میرا کسی حد تک خیال بھی رکھا انہوں نے میرا داخلہ
ایک کالج میں بھی کروا دیا اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اکثر میرے لیے میری پسند
کی چیزیں بھی لے کر آتے تھے- مگر میری بیٹی کی پیدائش سے دو مہینے پہلے
میرے شوہر کے ماں باپ ہمارے پاس کینیڈا شفٹ ہو گئے جس کے سبب مجھے ماسٹر
بیڈ روم سے چھوٹے بیڈ روم میں شفٹ ہونا پڑا اور میری پوری زندگی بدل گئی۔
سترہ سال کی عمر میں میں ایک بیٹی کی ماں بن گئی مگر اس کے بدلے میرا تعلیم
حاصل کرنے کا خواب ادھورہ رہ گیا-
|
|
میری ساس کو میرے شوہر کا مجھ سے بات کرنا پسند نہ تھا اس وجہ سے میرے شوہر
نے گھر کے سکون کے لیے مجھے نظر انداز کرنا شروع کر دیا- میرے نصیب میں
میری ساس کی اترن رہ گئی ان کا بچا کچھا کھاتی اور سارا سارا دن گھر کے کام
کرتی رہتی اور کسی بھی کمی کی صورت میں میرے شوہر مجھے دھنک کر رکھ دیتے ۔
میرے پاس فون بھی نہ تھا اس وجہ سے میں اپنے والدین سے بھی رابطہ نہ کر
سکتی تھی-
دو سال تک شوہر کی گالیاں اور مار کھا کھا کر مجھے یہ محسوس ہونے لگا تھا
کہ شائد میں ہی ایک کامیاب بیوی نہیں ہوں اور میں اپنے شوہر کو خوش رکھنے
میں ناکام ہوں- جب میری بیٹی تین سال کی ہوئی تو مجھے اپنی بچی کے ساتھ
ہفتے میں دو بار اس کے لرننگ سنٹر لے جانے کی اجازت ملی ۔ یہ دن میری آزادی
کے دن ہوتے تھے اس سینٹر کی مالک ایک پاکستانی تھی جس نے میری حالت سے
اندازہ لگا لیا کہ میں شوہر کی جانب سے تشدد کا شکار ہو رہی ہوں اس نے تمام
حالات جاننے کے بعد میرے والد سے میری بات کروائی جو کہ میرے حالات سن کر
سکتے میں آگئے- مگر انہوں نے کہا کہ مجھے اس وقت تک یہ سب برداشت کرنا ہو
گا جب تک کہ مجھے کینیڈا کی شہریت نہیں مل جاتی کیوں کہ اس کے بغیر میرا
شوہر مجھ سے میری بیٹیاں چھین لے گا- اس دوران میں نے اپنی تعلیم کے سلسلے
کو بھی دوبارہ شروع کیا اور ہائی اسکول کے کورسز پاس کر لیے مگر یونی ورسٹی
کی تعلیم کے معاملے میں میرے شوہر نے ہمیشہ پیسے نہ ہونے کا بہانہ کر کے
منع کر دیا-
2005 میں میں نے اپنے شوہر سے پاکستان جانے کی اجازت لی تو انہوں نے پیسے
نہ ہونے کی بنا پر منع کر دیا مگر میرے ابو نے ٹکٹ بھجوا دیے جس کے سبب میں
پانچ سال بعد پاکستان آسکی جہاں پر میرے گھر والے میری حالت دیکھ کر شاک ہو
گئے- میرا وزن بہت کم ہو چکا تھا اور خوداعتمادی ختم ہو چکی تھی اس موقع پر
میرے والدین کو سب باتوں کا پتہ چلا تو دوسری جانب میرے شوہر نے معافی
تلافی کی اور منت سماجت کر کے مجھے علیحدہ گھر لے کر دینے کے وعدے پر
دوبارہ کینیڈا بلا لیا-
اب میرے شوہر دو دو گھروں کا خرچہ اٹھا رہے تھے جس کے سبب ہماری گزر بسر
بہت تنگی میں ہو رہی تھی شروع کے دن تھوڑے بہتر تھے مگر میرے شوہر دوبارہ
سے پہلی روش پر لوٹ آئے- اس دوران میں دوبارہ سے امید سے ہوگئی مگر اب میں
نے اپنے فلیٹ میں بے بی سٹنگ بھی شروع کر دی جس سے مجھے کچھ آمدنی ہو جاتی
اور میں کچھ پیسے اپنے شوہر سے چھپا کر پس انداز بھی کرنے لگی تاکہ اس بار
پاکستان جاؤں تو واپس نہ آؤں-
پانچ مہینے کے بعد اپنی بہن کی شادی کے لیے جب میں دوبارہ کراچی آئی تو اس
موقع پر میرے ابو بہت سخت بیمار تھے ان کے گردے فیل ہو چکے تھے اور وہ مرنے
کے قریب تھے- مرنے سے دو دن قبل انہوں نے مجھے اپنے پاس بٹھا کر کہا کہ
مجھے ہمت کرنی ہے اور اپنی بیٹیوں کے لیے ایک مثال بننا ہے- اس دوران میرے
والد کے انتقال کے سبب میرے شوہر پاکستان آئے اور اس موقع پر بھی ان کا
رویہ بہت مثبت نہ تھا اور ان کو میری ضرورت صرف اپنے مطلب کے لیے ہی تھی اس
بار میری امی نے مجھے کہا کہ مجھے اپنے شوہر کے ساتھ واپس چلے جانا چاہیے
کیوں کہ میری والدہ بیوہ ہو چکی تھیں اور ان کے اوپر ابھی دو بہنوں کی ذمہ
داری بھی تھی-
|
|
واپس آکر میں نے ایک جانب تو بے بی سٹنگ کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا اس کے
ساتھ ساتھ پیسے جوڑ کر اپنی یونی ورسٹی کی تعلیم کا سلسلہ بھی شروع کر دیا
جس پر میرے سسرال والوں نے مجھ سے قطع تعلق کر لیا- مگر میں اپنی تعلیم کے
اخراجات خود ہی اٹھا رہی تھی اس کے ساتھ ساتھ اپنے کمائے گئے پیسوں سے شوہر
کا ہاتھ بھی بٹا رہی تھی تو اس وجہ سے وہ مجھے کچھ نہ کہہ سکے اور اس طرح
شادی کے دس سال بعد میری تعلیمی سلسلے کا دوبارہ سے آغاز ہو گیا- یونی
ورسٹی کی تعلیم نے اور وہاں ملنے والی کامیابیوں نے دوبارہ سے میرا اعتبار
بحال کر دیا-
مگر میری شادی شدہ زندگی بد ترین ہوتی جا رہی تھی مگر ایک بار جب میرے شوہر
نے مجھ پر ہاتھ اٹھانے کی کوشش کی تو میں نے ان سے کہا کہ اگر انہوں نے
مجھے مارنے کی کوشش کی تو میں فون کر کے پولیس کو بلا لوں گی- میری یہ بات
انہیں اتنی بری لگی کہ اسی وقت انہوں نے مجھے طلاق دے دی اور جس گھر میں ہم
رہ رہے تھے وہ بھی چھوڑ دیا اب میں اس گھر میں اپنی بیٹیوں کے ساتھ تنہا
تھی اور مجھے اس گھر کو معاہدے کے مطابق تین ہفتوں میں خالی کرنا تھا- خوش
قسمتی سے مجھے یونی ورسٹی انتظامیہ کی مدد سے ایک تین کمروں کا اپارٹمنٹ مل
گیا جس کے اندر اپنا سامان شفٹ کرنے کے بعد ایک کمرہ ایک پاکستانی لڑکی کو
کرائے پر دے دیا جو کہ میری غیر موجودگی میں میری بیٹیوں کا خیال رکھتی تھی-
|
|
اس دوران میں نے پانچ پانچ جگہ نوکری کی اور اپنی یونی ورسٹی کی تعلیم مکمل
کی اس دوران مجھے یونی ورسٹی کی جانب سے بہترین ترین کارکردگی کے سبب وظیفے
سے بھی نوازا گیا آج میں رائل بنک آف کینیڈا میں بطور کمرشل اکاونٹ مینیجر
نوکری کر رہی ہوں ۔ میری زندگی ان تمام لڑکیوں کے لیے ایک مثال ہے جو کہ
حالات کے سبب حوصلہ ہار بیٹھتی ہیں-
|