ٓآج یوم یک جہتی ء کشمیر ہے بھلا ہو قاضی حسین احمد کا
انہوں نے نوے کی دہائی میں اس دن کو منانے کا اعلان کیا اس کے بعد سرکاری
سر پرستی میں اس دن کو بڑی شان اور شوکت سے منایا جاتا ہے ۔تھڑ دلے کہا
کرتے ہیں اس سے کیا فائدہ ہو گا تو پھر جناب نمازیں بھی چھوڑئے روزے بھی نہ
رکھیں اس لئے کہ آپ جیسوں کو اس میں بھی کوئی فائدہ نہیں دکھائی دیتا۔دکھیے
دی گل دکھیا جانے میاں محمد نے کیا خوب کہا تھا لوگ مرتے ہیں کیا ڈھارس
بندھانے والے اس دکھ میں شریک لوگوں کی وجہ سے جانے والا واپس آ جاتا ہے
۔فرہاد نے تیشے سے نہر نکالی اس لئے کہ وہ اس کام میں لگا رہا ہمیں بھی
پورا یقین ہے کہ جس طرح ہم لوگ ایک مدت سے کشمیری بھائیوں کے دکھ بانٹ رہے
ہیں آوازیں بلند کر رہے ہیں کشمیری خون دے رہے ہیں اور ان کی جد وجہد جاری
ہے میرا اﷲ کرے گا کشمیر آزاد ہو گا۔مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ کشمیر
آزاد ہو کر پاکستان کا حصہ بنتا ہے یا آزاد رہتا ہے یا پھر اس کا انتحاب
انڈیا ہی ہے مجھے تو غرض اس سے ہے کہ جئے مزے سے زندگی گزارے شان سے ۔البتہ
وزارت خارجہ سے درخواست ہے کہ وہ اقوام متحدہ میں یہ چیز نوٹ کرائے کہ
گزشتہ سات ماہ سے جاری کرفیو کے نتیجے میں ہو سکتا ہے بھارت کشمیریوں کی
تعداد کم کرنے میں کامیاب ہو نسل کشی کا بھی ڈر ہے بھارتی بھیڑئے پہلے
مسلمان کشمیری خواتین کے اوپر بد نگاہی کا اظہار کر چکے ہیں ۔ہندو انتہا
پسند اس کرہ ء ارض پر غلاظت کا ایک ڈھیر ہے قارئین کشمیر سے ہمارا وہی رشتہ
ہے جو پاکستان کے بنتے وقت تحریر ہوا تھا مسلم اکثریت کے علاقے پاکستان کا
حصہ یعنی بات اسلام سے ہی جڑی ہے یعنی بنیاد لا الہ الاﷲ ہے ۔
ہم یہ دن اس وقت منا رہے ہیں جب کشمیری نریندرا مودی کے جبر کی انتہا دیکھ
رہے ہیں کسی کو احساس ہے کہ اسی لاکھ لوگ کرفیو میں ہیں مریض کس حالت میں
ہوں گے اسکول کالج کھلے ہیں یا نہیں جنازے دفن ہو رہے ہیں یا گھر میں ہی
گڑھا کھودا جا رہا ہے۔حیرت ہے کہ انسانی حقوق کا واویلا کرنے والے اس ظالم
کا ہاتھ نہیں روک رہے کوئی آگے بڑھ کر بھارت کو مجبور نہیں کر رہا کہ وہ اس
بھیانک فیصلے سے باز آئے ۔آج مسئلہ یہ ہے کہ کشمیر کی شام الم کب شروع ہوئی
اور کیسے یہ قیامت ٹوٹی یہاں اس وقت اسی لاکھ سے زائد لوگوں کی زندگی کا
سوال ہے۔امت مسلمہ کا یہ گھمبیر مسئلہ ہے جس کے بارے میں پترا جایا میں
عمران خان اور ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد بھی ذکر کر رہے ہیں۔میں
حیران ہوں کے میڈیا کا ایک طبقہ عمران خان پر انگلی اٹھا رہا ہے کہ وہ اپنا
کردار ادا نہیں کر رہے۔میں ان سے ان کالموں میں کئی بار سوال اٹھا چکا ہوں
کہ دنیا کا ضمیر جنجھوڑنے کا ہر وہ حربہ آزمایا گیا ہے جو اس مسئلے کے حل
کی طرف جاتا ہے کوئی ڈیڑھ سال پہلے مودی کہاں کھڑا تھا اور آج وہ اپنے کالے
کاموں کی وجہ سے اکیلا ہو رہا ہے کس نے مودی کو چھوٹا آدمی کہا تھا کس نے
ڈونلڈ ٹرمپ کو حدود میں رکھا تھا کون تھا جو اقوام عالم کے سامنے پاکستان
کا کیس لے کر گیا اور دھبنگ انداز میں مسئلہ فلسطین،کشمیر اور نبی پاک کے
خاکوں کا معاملہ اٹھایا ۔مان لیجئے اور کہہ دیجئے کہ وہ عمران خان ہی
تھا۔مجھے تو ان لوگوں پر حیرت ہے جو کشمیر کے لئے ہزاروں سال لڑنے کی بات
کیا کرتے تھے اور ان کی نسل میں اقتتدار آیا تو راجیو گاندھی کی آمد پر
کشمیر ہاؤس کے بورڈ اتروا دئے گئے ایک مہاشے کے بارے میں کہا گیا کہ اس نے
اپنے دور میں سکھوں کی لسٹیں بھارت کے حوالے کیں۔
قارئین یہ بنارسی ٹھگ تھے اقتتدار کے لئے بہت کچھ کر گئے ایک نے تو حد کر
دی کہ جو بھارتی کھاتے ہیں وہ ہی ہم بھی کھاتے ہیں اور جس رب کو وہ پوجتے
ہیں اس کی عبادت ہم بھی کرتے ہیں گویا یہ پاکستان ویسے ہی بنایا گیا تھا
۔یہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ ریلوے اسٹیشنوں پر ہندو پانی اور مسلمان پانی
بکتا تھا ہندو ہوٹل مسلمان ہوٹل اور ہندو کمرشل بینک ،مسلم کمرشل بینک ہوا
کرتے تھے۔مسلمان اگر ان کے چوکے سے گزر جاتا تو ان کا کھانا خراب ہو جاتا
تھا میں پریشان ہوں کہ انہیں اب ہندو کیوں بھائی نظر آتے ہیں۔نفرتیں رکھ کر
بھی ترقی کی جا سکتی ہے کورین جاپانیوں کو کیوں مات دے رہے ہیں صرف اس وجہ
سے ہر پیدا ہونے والے بچے کو بتایا جاتا ہے کہ جاپانیوں نے ہماری عزتیں
لوٹی تھیں ہم نے انہیں ٹیکنالوجی میں شکست دینی ہے اور یہی وجہ ہے ٹویوٹا
کو جو ہزیمت ہوئی ہے وہ ہنڈائی ے دی ہے
کشمیریوں کی تاریک رات ستر سالوں سے جاری ہے کوئی ڈیڑھ سال سے ایک عمران
خان نے اﷲ کو اقتتدار کے ایوانوں میں بھیج کر کشمیر کی حقیقی معنوں میں
خدمت کا آغاز کرایا ہے۔کشمیری جان لیں کہ عمران خان جو کہتا ہے وہ کرتا بھی
ہے انہیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ دنیا میں رہنے کے لئے جو حدود و قوائد ہیں
ان کو بھی مد نظر رکھنا ہے ۔پاکستان کے حق میں نہیں ہے کہ وہ در اندازی
کرے۔ انڈیا کو اگر یہ ثبوت مل گیا کہ پاکستان اپنے ٹرینڈ آدمی کشمیر میں
داخل کر رہا ہے تو یہ چیز پاکستان کو مشکل میں ڈال سکتی ہے۔یہ کشمیریوں کی
لڑائی ہے اور وہ اپنی لڑائی لڑنا جانتے ہیں پاکستان ان کی پشت پر کھڑا ہے
دنیا کو یہ بتا سکتا ہے کہ کشمیریوں پر جو ظلم ہو رہے ہیں اس کا مداوا کیا
جائے اس کا وزیر خارجہ احتجاج کرے اس کے لیڈران چیخیں چلائیں اقوام عالم کو
احساس ہو کہ یہ مسئلہ ایک بڑی ایٹمی جنگ کا پیش خامہ بن سکتا ہے۔دنیا صرف
دو باتوں کو سننے اور سمجھنے کے لئے تیار ہے ایک یہ کہ انسانی حقوق کی پا
مالی ہو رہی ہے دوسرا یہ کہ خطے کا امن تباہ ہو سکتا ہے اور یہ تباہی ان
لوگوں کا چین بھی برباد کر دے گی جو دوسرے کو گھر جلا کر آگ تاپتے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سمجھتی ہے کہ کشمیر کے مسئلے کا حل ضروری ہے
کاش یہ احساس باؤنڈری کمیشن کو بھی ہوتا کہ وہ پاکستان اور ابھارت کے
درمیان ایک ناسور چھوڑ کر جا رہے ہیں۔افسوس قادیانی اور ہندو انتہا پسند اس
مسئلے کی اصل جڑ ہیں اور انہوں نے گرداس پور کو بھارت کے حوالے کر کے کشمیر
کا راستہ مہیا کیا ۔کا ش اور کاش یہ لوگ چودھری رحمت علی کو ساتھ رکھتے
روٹھے ہووں کا منانا آسان ہوتا ہے عملی زندگی میں دیکھئے کہ آپ جس کے گھر
چل کر چلے جاتے ہیں اس کا دل جیت لیتے ہیں بھارت کی کامیابی تھی کہ گاندھی
کے پاس نہرو بھی ولبھ بھائی پٹیل بھی تھا اور بڑے دماغ بھی تھے لیکن افسوس
قائد اعظم کے پاس سوائے کھوٹے سکوں کے کچھ نہیں تھا اس نے اپنے ٹائپ رائٹر
کی مدد سے پاکستان بنا لیا۔ قائد کے ساتھ بیٹھے نا لائقوں نے جاگیر داروں
کو لالچ دی کہ پاکستان کا ساتھ دو جاگیریں سلامت ۔خضر حیات ٹوانہ جیسے
الیکٹیبل مسلم لیگ میں شامل ہوا سر خضر حیات ٹوانہ کی مخالفت میں جب جلوس
میں یہ نعرے لگ رہے تھے کہ ٹوانہ ٹوڈی ہے تو سپیکر سے اعلان ہوا ٹوانہ زندہ
باد اس لئے کہ اسے اقتتدار اور اس کی جاگیریں بچانے کا لالچ دیا گیا قائد
اعظم نے ان الیکٹبل لوگوں کی وجہ سے تکلیفیں دیکھی ۔زیارت میں اپنی بہن سے
کہا فاطی دیکھو کون ہیں تو کہا بھائی فلاں فلاں آپ کی مزاج پرسی کرنے آئے
ہیں قائد نے کہا نہیں یہ مجھے دیکھنے آئے ہیں کہ میں کتنی دیر زندہ رہ سکتا
ہوں۔یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے قائد اعظم اور چودھری رحمت علی کے راستے میں
دیوار کھڑی کی ۔کاش چودھری رحمت علی اور قائد اعظم ایک ہو جاتے تو آپ
دیکھتے کہ پاکستان کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا ۔انگریز بھاگ رہا تھا اس نے
دوسری جنگ عظیم میں ہندوستانی لوگوں کی مدد سے لڑائی جیتی تھی۔وہ چاہتا تھا
کہ اقتتدار منتقل کر کے واپس چلا جائے اﷲ بھلا کرے چودھری رحمت علی کا اس
مرد درویش نے پاکستان نیشنل موومنٹ کے پلیٹ فارم سے جد وجہد 28 جنوری
1933کو NOW OR NEVERلکھ کر دنیا کو قائل کیا کہ پاکستان کیوں ضروری ہے۔ہم
عظمت قائد اعظم اور علامہ اقبال کے قائل ہیں لیکن افسوس ستر سالوں سے جھوٹی
تاریخ پڑھائی جا رہی ہے خطبہ الہ آباد میں کسی جگہ مکمل آزاد ملک کا تصور
نہیں ہے ۔آپ پھر کس طرح علامہ اقبال کو پاکستان کا خواب دیکھنے والے قرار
دے سکتے ہیں؟اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ امت مسلمہ کی نشاط ثانیہ کے قائل
شاعر تھے وہ ایک عظیم فلسفی تھے دنیا ان کے علم کی قائل ہے۔لیکن خدا را
انہیں صرف پاکستان تک محدود نہ کریں اور نہ ہی وہ اس بات کا خود مطالبہ
کرتے ہیں۔بیسیوں لوگوں نے پاکستان کے بارے میں سوچا سیکڑوں نے جد و جہد کی
لیکن یہ ملک خدادا جس کا نام پاکستان ہے یہ چودھری رحمت علی نے سوچا تھا وہ
فقیر درویش کس مپرسی کی حالت میں مر گیا ادھار لے کر مانگ کر اسلامی تدفین
کی درخواست دی اسے مجیب الرحمان شامی نے تحریک پاکستان کا ابو ذر غفاری
قرار دیا تھا ۔اسی نے کہا تھا کہ کشمیر پورا لو دریاؤں کے سوتے مانگو کل
ہندو پانی بند کرے گا اس کا کہنا تھا کہ پاکستان پاک لوگوں کا ملک ہے ایک
بڑی ہجرت کرو اور دور رہو اس بھارت سے جس مہا بھارت کا خواب مودی دیکھتا ہے
۔
کشمیریوں کی شام الم کب ختم ہو گی اس کا مجھے علم نہیں لیکن اتنا ضرور
جاناتا ہوں کہ کشمیریوں کو آزادی مل کے رہے گی-
قارئین آج بیس دن ہونے کو ہیں گھر میں پڑا ڈاکہ ابھی تک گمنام ہے دیکھئے
پولیس کیا کرتی ہے۔ایک ڈاکو بھارت ہے جس کا کشمیری کو سامنا ہے ایک یہ ہیں
جن سے ہمیں پالا پڑا ہے ڈاکو یہ ہوں یا مودی ڈاکو ڈاکو ہی ہوتا ہے(ترجمان
حکومت پنجاب ہیں)
|