|
کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ کوئی شخص ایک منتخب عوامی نمائندے کے طور پر صرف
ایک دن کام کرے اور اسے اس کا معاوضہ ترانوے ہزار یورو ملے، جو ایک لاکھ دو
ہزار امریکی ڈالر کے برابر بنتا ہے؟ ایک جرمن سیاستدان کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔
جرمنی کے مشرق میں واقع وفاقی صوبے تھیورنگیا میں بدھ پانچ فروری کو ترقی
پسندوں کی فری ڈیموکریٹک پارٹی کے صوبائی سربراہ ٹوماس کَیمیرِش کو نیا
ریاستی وزیر اعلیٰ منتخب کیا گیا تھا۔ ان کا انتخاب جرمنی کی داخلی سیاست
میں ایک بحران کی وجہ بنا اور اس سیاسی زلزلے کے شدید جھٹکے ملکی
دارالحکومت برلن تک محسوس کیے گئے تھے۔
اس بحران کی وجہ یہ بنی کہ کَیمیرِش کے انتخاب کے لیے ان کی اپنی پارٹی کے
علاوہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی قدامت پسند جماعت کے ارکان نے بھی ووٹ
دیے تھے۔ لیکن کَیمیرِش کی حمایت میں انتہائی دائیں باز وکی ملک میں
مہاجرین کی آمد اور اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت کرنے والی جماعت 'متبادل
برائے جرمنی‘ یا اے ایف ڈی کے پارلیمانی ارکان نے بھی حمایت کی تھی۔
چانسلر میرکل کا مطالبہ
یہ بحران اس لیے پیدا ہوا کہ ایک ایسی سیاسی جماعت جس کے ساتھ جرمنی کی
قومی سطح کی کوئی بھی بڑی پارٹی کسی بھی قسم کا سیاسی تعاون نہیں کرنا
چاہتی، اس کے ارکان کے ووٹ لے کر کَیمیرِش وزیر اعلیٰ کیوں منتخب ہوئے۔
اتنا ہی بڑا اعتراض یہ بھی تھا تھیورنگیا کے نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے
لیے سیاسی طور پر میرکل کی جماعت اور غیر ملکیوں کی مخالف پارٹی اے ایف ڈی
جیسے 'ہم خیال اور ہم رکاب‘ ہو گئی تھیں۔
|
|
ناقدین کا ایک فیصلہ کن اعتراض یہ تھا کہ ترقی پسندوں کی پارٹی سے تعلق
رکھنے والے کَیمیرِش نے وزیر اعلیٰ بننے، یعنی اپنے اقتدار میں آنے کے لیے
ایک ایسی جماعت کی ارکان کی حمایت پر انحصار کیا، جس کی سیاست کے خلاف
تقریباﹰ تمام بڑی جرمن سیاسی جماعتیں جدوجہد کر رہی ہیں۔
یہ بات اتنی پھیل گئی تھی اور کَیمیرِش کے تھیورنگیا کے سربراہ حکومت کے
طور پر اس طرح انتخاب کی اتنی شدید مذمت کی جا رہی تھی کہ بدھ پانچ فروری
کو ہی چانسلر میرکل نے بھی یہ مطالبہ کر دیا تھا کہ اس الیکشن کو فوری طور
پر منسوخ کیا جائے۔
اگلے ہی دن استعفیٰ
پھر نتیجہ یہ نکلا کہ تھیورنگیا کے نئے وزیر اعلیٰ بہت زیادہ سیاسی اور
اخلاقی دباؤ کا سامنا نہ کر سکے اور اپنے انتخاب کے صرف ایک روز بعد جمعرات
چھ فروری کی شام وہ اپنے عہدے سے مستعفی بھی ہو گئے۔ اس طرح ان کا انتخاب
اور پھر استعفیٰ اس حوالے سے بھی جرمنی میں ایک تاریخی واقعہ ثابت ہوا کہ
وہ صرف تقریباﹰ 24 گھنٹے تک وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز رہے تھے۔
لیکن انتظامی اور مالیاتی حوالے سے اس سیاسی بحران اور اس کے فوری خاتمے کا
ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کَیمیرِش اگر وزیر اعلیٰ رہتے، تو انہیں ان کے فرائض
کی انجام دہی کا معاوضہ تو ملنا ہی تھا کیونکہ سیاسی عہدوں پر فائز شخصیات
کو تنخواہیں تو ملتی ہی ہیں۔
قانون کیا کہتا ہے؟
ٹوماس کَیمیرِش چاہے ایک دن کے لیے ہی سہی، مگر تھیورنگیا کے وزیر اعلیٰ تو
رہے تھے۔ اس بارے میں قانون یہ کہتا ہے کہ اگر وہ چند ہفتے یا چند ماہ کے
لیے بھی وزیر اعلیٰ رہتے مگر اس عرصے کا دورانیہ چھ ماہ سے کم ہی ہوتا، تو
بھی انہیں اپنے عہدے سے رخصتی پر کم از کم چھ ماہ کی تنخواہ تو لازمی ملتی۔
اب یہ ایک بالکل علیحدہ بات ہے کہ صوبائی سربراہ حکومت کے طور پر ان کے
اقتدار کا دورانیہ دو دنوں کے دوران مجموعی طور پر صرف تقریباﹰ 24 گھنٹے
رہا تھا۔ اس لیے اب انہیں اتنی تنخواہ ضرور ملے گی، کہ جیسے وہ کم از کم چھ
ماہ تک صوبائی حکمران رہے۔
'فی گھنٹہ چار ہزار یورو‘
چھ ماہ کی تنخواہ کی یہ رقم مجموعی طور پر 93 ہزار یورو بنتی ہے، جو ایک
لاکھ دو ہزار امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو کَیمیرِش کو
محض 24 گھنٹے تک ملازمت کرنے کا معاوضہ 93 ہزار یورو ملے گا، یعنی فی گھنٹہ
اجرت تقریباﹰ چار ہزار یورو۔
ایک دن کے کام کی اتنی زیادہ اجرت اس لیے بھی بہت عجیب بات ہے کہ دنیا میں
عملی طور پر شاید ہی کوئی دوسرا ایسا سیاستدان ہو، جس کی فی گھنٹہ تنخواہ
تقریباﹰ 4000 یورو بنتی ہو۔ جرمن صوبے تھیورنگیا میں وزیر اعلیٰ کی ماہانہ
تنخواہ تقریباﹰ 16 ہزار یورو ہوتی ہے۔
|
Partner Content: DW
|