تحذیر الناس کی عبارت پر اعتراضات کا جواب

محمد حامد ،محمد صدیق

تحذیر الناس کی عبارت کا مسئلہ بہت پرانا مسئلہ ہے۔اس مسئلہ کو مولانا احمد رضا خانصاحب نے حسام الحرمین میں بھی نقل کیا اور اس پر فتویٰ حاصل کیا عجیب بات یہ ہے کہ مولانا احمد رضا خانصاحب نے حسام الحرمین میں جو عبارت انہوں نے نقل کی وہ مسلسل عبارت نہیں تھی۔ بلکہ انہوں نے ایک فقرہ صفحہ نمبر ۱۲ سے دوسرا صفحہ نمبر ۲۴ سے اور تیسرا صفحہ نمبر ۲ سے لیا ۔ حالانکہ بقول مولانا سرفراز صفدر رح حضرت نانوتوی رح تو علمی اور تحقیقی طور پر مسئلہ ختم نبوت پر بحث کرتے ہوئے محدثانہ فقیہانہ اور متکلمانہ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر منطقیانہ ا نداز میں ٹھوس دلائل اور واضح براہین کے ساتھ امام الانبیاء خاتم الانبیاء خاتم النبین حضرت محمد ﷺ کی ختم نبوت ثابت کرتے ہیں ۔(عبارات اکابر صفحہ ۱۳۰)لیکن جب اس کے جواب میں علمائے دیوبند کی کتاب ’’ المہند علی المفند ‘‘سج دھج کر سوئے بلد حبیب ﷺ روانہ ہوئی ۔اور حرمین کے اکابر علماء کے تائیدی دستخطوں سے مزین ہوکر واپس ہوئی تو ان کے ہوش اڑ گئے۔یہاں
اس کا ایک اقتباس نقل کرنا ضروری ہے
السوال ۔ اتجوزون وجود النبی بعدالنبی ﷺ ...وھل قال احد منکم او من اکابرکم ذالک ۔الجواب ۔اعتقادنا واعتقاد مشائخناان سیدنا ومولانا وحبیبنا و شفیعنا محمداً رسول اللہ خاتم النبین لا نبی بعدہ ......و حاشا ان یقول احدمنا خلاف ذالک......نعم شیخنا ......المولوی محمد قاسم النانوتوی رحمہ اللہ تعالی اتیٰ بد قۃ نظرہ تد قیقا بدیعا اکمل خاتتہ علیٰ وجہ الکمال ۔واتبھا علی وجہ التمام ’’ المہند علی المفند ‘‘

اور آگے حضرت سہارنپوری رح نے تقریباً اسی انداز میں خلاصہ پیش کیا ہے جو ابھی حضرت کاندھلوی رح کے حوالے سے آئے گا (خوف تطویل کی وجہ سے باقی عبارت چھوڑ دی گئی ہے جس کا جی چاہے دیکھ لے المہند علی المفند صفحہ نمبر ۴۴ ‘‘ ’’ تحذیر الناس کی عبارت کا جو عربی ترجمہ خان صاحب نے کیا ہے وہ دیکھنے کے قابل ہے یہاں اس کی ایک جھلک پیش کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔خان صاحب کا ترجمہ یہ ہے ’’وانما یتخیل العوام انہ ﷺ خاتم النبین بمعنی اٰخر النبین مع انہ لافضل فیہ اصلاًعند اھل الھم ۔حسام الحرمین‘‘ جسکے بارے میں حضرت مولانا سرفراز صفدر رح فرماتے ہیں کہ ’’اگر عبارت سے مطلب اخذ کرنے کا یہی طریق ہے تو خدا خیر کرے قران کریم سے استدلال کر نے والے معاذاللہ تعالیٰ بجائے ’’ ان الابرار لفی نعیم وان الفجار لفی جحیم کے یوں کہہ سکتے ہیں ان الابرار لفی جحیم ۔عبارات اکابر ۱۱۹)حضرت نانوتوی رح کا مطلب کیا تھا اس بارے میں ہر خاص و عام کو سمجھانے کی صورت میں حضرت ادریس کاندھلوی رح رقم طراز ہیں ’’ خاتمیت ایک ہی جنس ہے جس کی دو قسمیں ہیں ایک زمانی اور دوسری رتبی ۔خاتمیت زمانیہ کے معنی یہ ہیں کہ آپ ﷺ سب سے اخیر زمانہ میں تمام انبیاء کے بعد مبعوث ہوئے اور اب آپ ﷺ کے بعد قیامت تک کوئی بھی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔اور خاتمیت رتبیہ کے معنی یہ ہیں کہ نبوت و رسالت کے تمام کمالات اور مراتب آپ ﷺ کی ذات بابرکات پر ختم ہیں اور نبوت چونکہ کمالات علمیہ میں سے ہے اسلئے خاتم النبین کے معنی یہ ہوں گے کہ جو علم کسی بشر کیلئے ممکن ہے وہ آپﷺ پر ختم ہوگیا اور رسالت ماب ﷺ دونوں اعتبار سے خاتم النبین ہیں ۔زمانہ کے اعتبار سے بھی آپ ﷺ خاتم ہیں اور مراتبی نبوت اور کمالات رسالت کے اعتبار سے بھی خاتم ہیں ۔آپ ﷺ کی خاتمیت فقط زمانی نہیں ....بلکہ زمانی اور رتبی دونوں قسم کی خاتمیت آپ ﷺ کو حاصل ہے۔اس لئے کمال مدح جب ہی ہوتی ہے کہ جب دونوں قسم کی خاتمیت ثابت ہو ۔تکملہ حضرت کاندھلوی رح بر تحذیر الناس صفحہ ۵۴ ‘‘اس عبارت میں کہ ’’ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی ﷺ کوئی نبی پیدا ہو جائے تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا‘‘۔خلجان یار لوگوں بنایا ہوا ہے۔کیونکہ ’’ختم نبوت کے تین درجات اور مراتب ہیں ۔۱۔ختم نبوت مرتبی ۔۲۔ختم نبوت مکانی ۔۳ ۔ختم نبوت زمانی اور باقی دو درجوں اور مرتبوں کو تسلیم کرتے ہوئے مولانا موصوف (قاسم نانوتوی رح)یہ فرماتے ہیں کہ ان میں اعلیٰ درجہ اور رتبہ ختم نبوت مرتبی ہے جو ختم نبوت زمانی کیلئے علت ہے (عبارات اکابر ۱۱۹)تو باقی مرتبوں کو چھوڑ کر معلول یعنی ختم نبوت زمانی کی عبارت چھیڑنا بالکل ایسا ہے کہ کوئی تارک صلوٰۃ قرآن سے دلیل قائم کرتے ہوئے کہے کہ ’’ یاایھاالذین آمنو لاتقربوالصلوٰۃ اور انتم سکاریٰ کو بالکل حذف کردے اور بے چارے عوام کو بہکا دے۔کیونکہ جب علت (ختم نبوت مرتبی )سلامت ہے اول تو کوئی معلول (ختم نبوت زمانی کوچھیڑ ہی نہیں سکتا کہ پیغمبر ی کا دعویٰ کر کے آئے اور اگر چھیڑ ے بھی تو مسلمانان عالم ایسے بد باطن کو رگڑ کے رکھ دیں گے۔بالفرض کا لفظ خود بتا رہا ہے کہ اگر بالفرض ہو جائے یعنی کبھی بھی نہیں ہوسکتا ۔جیسے آپ ﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ’’ لوکان بعدی نبی لکان عمر ‘‘ کیوں؟ آخر ہمارے نبی ﷺ کو کیا کہیں گے یہی نہ کہ آپ ﷺ نے اپنے بعد عدم نبوت کی تاکید کے لئے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان بڑھانے کیلئے کہا۔وہاں نبی نے امتی کی تعریف کی یہاں امتی نے نبی کی تعریف کی۔اور علم النحو کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ ’’ لو ‘‘ انتفاء ثانی بسبب انتفائے اول بتانے کیلئے آتا ہے ۔ یعنی پہلا جملہ نہیں ہوسکتا اسلئے دوسرا جملہ بھی نہیں ہے جیسے میرے بعد اگر نبی ہوتا تو عمر ہوتا اب نبی نہیں تو عمر بھی نہیں ہے ۔تو ’’ بالفرض ‘‘ بھی اسی طرح انتفا ئے ثانی بسبب انتفائے اول بتانے کیلئے آتا ہے ۔ سبحان اللہ میرے بڑے قاسم نانوتوی رح نے اسی سنت قولی پر عمل کرتے ہوئے کیا ہی عجیب جملہ کہا اور تاکید در تاکید در تاکید کیلئے کہا اور میرے آقا حضرت محمد ﷺ کی شان کو تاہ نظروں کے سامنے بڑھانے کیلئے کہا اور حضرت نانوتوی رح خود فرماتے ہیں ’’ خاتمیت زمانی اپنا دین و ایمان ہے ۔ناحق کی تہمت کا البتہ کچھ علاج نہیں سو اگر ایسی باتیں جائز ہوں تو ہمارے منہ میں بھی زبان ہے اس تہمت کے جواب میں ہم آپ پر اور آپ کے اہل ملت پر ہزار تہمتیں لگاسکتے ہیں ’’ مناظرہ عجیبہ ۳۹ بحوالہ عبارات اکابر ۱۲۱‘‘)لیکن جائز نہیں اس لئے حضرت نانوتوی رح اس طرف گئے ہی نہیں اور غیروں کے جھوٹے نشتر ان پر لگتے رہے ہیں اور جس کیلئے جائز ہے وہ کرتا پھرے ’’ لوم الخفاش لا یضر الشمس وعوارالکب لا یظلم البدر ‘‘ آسمان کا تھوکا منہ پر آلگتا ہے۔
Muhammad Ali Checha
About the Author: Muhammad Ali Checha Read More Articles by Muhammad Ali Checha: 25 Articles with 104113 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.