ڈاکٹر تنویر انور خان کے پانچ افسانوں کے مجموعوں کی
تقریب اجراء
شگون کے پھول، ہلالی کنگن، بے قیمت، کانچ کے ٹکڑے اور ٹوٹا پتہ
منعقدہ 9فروری2020ء بہ اہتمام کراچی پریس کلب، کراچی میں بطور مہمانِ خصوصی
اظہار خیال
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صدر محفل پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم صاحب، مہانِ اعزاز ڈاکٹر عالیہ امام
صاحبہ، مرکز نگاہ اور وجہ تقریب ڈاکٹر تنویر انور خان صاحب، میزبان محترم
پروفیسر ڈاکٹر محمد انور خان صاحب (تمغہ امتیاز)، اراکینِ استقبالیہ کمیٹی،
کراچی پریس کلب، قابل احترام خواتین و حضرات۔
السلام علیکم!
معروف افسانہ نگار، کہانی کار اور ناول نگار ڈاکٹر انور خان صاحبہ کے پانچ
افسانوں کے مجموعوں (شگون کے پھول، ہلالی کنگن، بے قیمت، کانچ کے ٹکڑے اور
ٹوٹا پتہ) کی تقریب اجراء میں بطور مہمانِ خصوصی کا جو اعزاز مجھے بخشا
مَیں اس کا حد درجہ شکر گزار ہوں، ڈاکٹر تنوریر انور صاحبہ، ان کی افسانہ
نگاری، کہانی کاری اور ناول نگاری پر، پروفیسر ڈاکٹر پیر زادہ قاسم صاحب
صدر مجلس تھے ضروری کام کے باعث اپنے خیالات کا اظہار کر کے جاچکے، اس محفل
کی محترم شخصیت ڈاکٹر عالیہ امام صاحبہ کو ابھی ہم سب سنیں گے، اکرم
کُنجَاہی صاحب کو بھی تشریف لے جانا تھا، انہوں نے بھی اپنے مخصوم عالمانہ
انداز سے ڈاکٹر صاحب کی افسانہ نگاری کی خصوصیات پر خوبصور ت گفتگو فرمائی،
ڈاکٹر شاہد ظمیر،ڈاکٹر انور خان صاحب، ڈاکٹر راحت انور خان، اعظم انور خان،
طارق بن آزاد، محترمہ شگفتہ شفیق اور دیگر کو سن چکے،سب ہی مقررین نے
انتہائی جامعہ انداز سے، تفصیل و تصریح کے ساتھ ڈاکٹر تنوریر انور کی شخصیت
اور ان کی افسانہ نگاری خاص طور پر ان پانچ افسانوں کے مجموعوں پر سیر حاصل
گفتگو کی، میرا خیال ہے کہ ان تمام باتوں کو دھرانا مناسب نہ ہوگا، میں چند
ایسی باتیں ڈاکٹر تنوریر انور صاحبہ کے بارے میں کرنا چاہوں گا جو کچھ
مختلف ہوں۔
سامعین محترم!
یہ کتاب ہی سے محبت اور لگن ہے کہ آج ہم سب یہاں جمع ہیں اور کتاب اور
صاحبِ کتاب پر سیر حاصل گفتگو کی جارہی ہے۔ کتاب خواہ کسی بھی موضوع پر ہو
وہ اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے، جس نے کتاب کو عزت و توقیر دی کتاب نے اسے عزت
و احترام کے مرتبے پر فائز کیا۔ اس وقت ایک ایسی شخصیت کی ایک دو نہیں بلکہ
پانچ افسانوں کے مجموعے ہمارے پیش نظر ہیں اور ان پانچوں مجموعوں کی تخلیق
کار جن کے نام کے لغوی معنی روشنی، نور اور چمک کے ہیں، ان کے نام کے مزاج
میں ترقی پانا ہے، جلا پانا ہے، یہ روشنی کے لہر اور روشن کرنا ان کی فطرت
میں شامل ہے۔ جی ہاں سامعین اکرام میرا اشارہ ڈاکٹر تنویر انور خان صاحب کی
جانب ہے۔ انہوں نے دکھی انسانیت کی خدمت کی، معالج کی حیثیت سے نہ جانے
کتنے لوگوں کو دکھ تکلیف سے نجات دلائی، علم کی روشنی سے اپنے گھر کو منور
کرتے ہوئے اپنے بچوں کی بہترین پرورش کے ساتھ ساتھ انہیں اعلیٰ میڈیکل کی
تعلیم سے بہر مند کیا، اس لیے کہ یہ خود بھی محض ایم بی بی ایس ڈاکٹر نہ
تھیں اور نہ ہی ان کے شوہر نامدار پروفیسر ڈاکٹر انور خان صاحب دونوں
میڈیکل کی اعلیٰ ترین اسناد لیے ہوئے تھے۔اب ان کے بچے بھی ماشا ء اللہ
اپنے والدین کے نقش قدم پر ہیں۔ انہوں نے علم کی روشنی کو اپنے گھر تک
محدود نہ رکھا بلکہ اس روشنی سے اردو ادب کو بھی مالا مال کیا۔
سامعین اکرام!
ڈاکٹر تنوریر انور صاحبہ کو قلم و قرطاس سے جڑے اورقلمی و فکری سفر کو چھ
دہائیاں بیت چکی ہیں وہ اس وقت ساتویں دیہائی کے افسانے، کہانی اور ناول کے
سمندر میں سفر کررہی ہیں اور افسانوں کی صورت میں اپنی علمی و فکری کاوشوں
سے لمحہ موجود کو مہکارہی ہیں۔ ان کی پہلی کہانی ماہنامہ ”پھول“ لاہور میں
1958ء میں شائع ہوئی، گویا انہوں نے ڈاکٹری نسخے 1974 ء کے بعد لکھنا شروع
کیے جب کہ کہانی نویسی کا آغاز 16 سال قبل ہی ہوچکا تھا۔افسانے، کہانیاں
اور ناول مختلف اخبارات اور رسائل وجرائد میں شائع ہوتے رہے لیکن تصانیف کی
اشاعت کا سلسلہ 58سال بعد 2016ء میں شروع ہوا، پھر کیا تھا ہر سال آپ کے
افسانوں کے مجموعے منظر عام پر آنا شرو ع ہوگئے، ابھی پانچویں سال کا
آغازہی ہوا ہے ماشاء اللہ 10واں مجموعہ منظر عام پر آچکا۔ان مجموعوں کی
اشاعت اور ان میں شامل افسانوں، کہانی اور ناولچوں کا شمار کیا جائے تو
اعداد وشمار کچھ اس طرح سامنے آتے ہیں۔
سال اشاعت تعداد عنوان افسانوں /ناولٹ کی تعداد کل تعداد
2016 2 (زنجیریں، پرچھائیں اور عکس) 18۔ 13 31
2017 2 (پانی کا بلبلہ، وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی) 17۔6 23
2018 1 (مِیت رے) 4 4
2019 3 (شگون کے پھول، ہلالی کنگن،بے قیمت) 10۔ 9۔7 26
2020 2 (کانچ کے ٹکڑے، ٹوٹا پتہ) 6۔5 11
شائع شدہ10 مجموعوں میں افسانوں اور ناولٹ کی کل تعداد 95
سامعین و قارئین محترم!
آپ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ کسی بھی ادیب، شاعر، تخلیق کار یا افسانہ و
ناول نگار کی شخصیت اور اس کے علمی کارہائے نمایاں کے بارے میں اندازہ
لگانے کے لیے چند چیزوں کے بارے میں تحقیق کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ
اس شخصیت کے آباؤاجداد کون تھے،کہا ں رہائش رکھتے تھے، یہ بھی کہ ان کا بود
و باش کیسا تھا، جس شہر وہ اس کے اجداد رہا کرتے تھے اس علاقے کی تاریخی،
تہذیبی اور ثقافتی و ادبی حیثیت کیا تھی،اس لیے خواتین و حضرات کہ اردگرد
کا ماحول، رہن سہن، تربیت اس کی شخصیت پرمثبت اثرات چھوڑتے ہیں، وہ شخص
معاشرہ کا فردہوتا ہے چنانچہ ان اثرات، معاشرتی، تہذیبی، تاریخی اور لسانی
میلانات و رجحانات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ڈاکٹر تنویرانور خان کا
خمیر ہندوستان کے صوبے یوپی کے شہر کانپور کی مٹی سے گوندھا گیا ہے جو علم
و ادب کا گہورہ، مشرق کا مانچسٹر، دنیا کا اہم صنعتی و تجارتی شہر، یوپی کے
معاشی دارالخلافہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ’فسانہ عجائب‘کے خالق مرزا رجب علی
بیگ سرور اور افسانہ نگاری کے سرخیل منشی پریم چند جیسے افسانہ نگاروں کو
کانپور سے نسبت رہی ہیں۔منشی پریم چند نے کئی معروف افسانے اسی سرزمین پر
بیٹھ کر لکھے۔ منشی پریم چند کا پہلا افسانہ ”سوز وطن“ 1909ء میں زمانہ
پریس، کانپور سے شائع ہوا تھا، اس وقت تک وہ طلسم ہوشربا سے باہر نہیں آئے
تھے، ان کے اس مجموعے کی تمام کاپیاں سرکار نے ضبط کر لی تھیں۔ اس کے بعد
وہ تاریخ اور اصلاح معاشرہ کی جانب متوجہ ہوئے۔
ڈاکٹر تنویر انور نے اسی شہر کانپور میں آنکھ کھولی بھلا ان میں افسانہ
نگاری، کہانی کاری اورناول نگار کی صفات کیسے نہ ہوتیں۔ پیشہ طب کا اختیار
کیا۔ ڈاکٹر تنور انور کی تخلیق کاری کا آغاز ایک کہانی ”پھول“ سے ہی ہوا
پھر سات سال بعد وہ افسانہ لکھتی ہیں جو ماہنامہ ’حور‘ لاہور میں شائع ہوا۔
اس کے بعد افسانہ در افسانہ اور ناول کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جہاں تک ان کی
تخلیقات جن میں کہانی، افسانہ، ناول شامل ہیں، مجھے تو ان میں ’زندگی‘
ہنستی مسکراتی، چلتی پھرتی، بھاگتی دوڑتی دکھائی دیتی ہے، پاکستانی اور
مسلم معاشرہ کی اقدار نمایاں نظر آتی ہیں،غریبی میں حوصلہ کے ساتھ زندگی
گزرنے کی داستان ہے، روز مرہ کے واقعات، معاشرہ میں نت نئے اور مختلف
واقعات کا احاطہ کرتی تحریریں ہیں جن کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ یہ تو
ہماری ہی زندگی کی بات ہورہی ہے۔ یہ واقعہ تو ہمارے ساتھ یا ہمارے کسی
قریبی عزیز یا جاننے والے کے ساتھ رونما ہوچکا ہے۔ اس بنیاد پر یہ کہنا غلط
نہ ہوگا کہ ڈاکٹرتنویر انور خان کی تحریریں معاشرہ میں رونما ہونے والے
اچھے یا برے واقعات اور حادثات ہیں جن کو وہ خوبصورت اور عام فہم انداز میں
بیان کرتیں ہیں۔
ڈاکٹر تنویر انور ک ہر افسانہ اپنے اندر انفرادیت، دلچسپی، بے ساختگی
اورایک سبق لیے ہوئے ہے، ان کے کردار زیادہ تر ان کے اپنے پیشے اور اردگرد
کے ماحول سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی کہانیوں اور افسانوں میں اسپتال، ڈاکٹر،
سرجن، مریض، نرسیز، میڈیکل کے طالب علم اور طالبہ،میڈیکل کالج، لیباریٹریز
اور واقعات میں ایکسیڈینٹ، زہر پینا، دل میں سوراخ، معذوری جیسے مریضوں کے
گرد گھومتی دکھائی دیتی ہیں، تاہم بعض کہانیاں مختلف موضوعات لیے ہوئے
ہیں۔کہانی اور کردار، ماحول، حالات اور واقعات کاحسین اظہارہے، کڑی سے کڑی،
کہانی سے کہانی، واقعہ سے دوسرا واقعہ ملتا چلا جاتا ہے۔ان کا اسلوب سادہ،
جملوں میں بے ساختگی، اپنی فکر، خیال اور مثبت پیغام کا مربوط اظہار کرتی
ہیں،وہ اپنی بات احسن انداز سے قاری تک پہنچانے میں کامیاب نظر آتی ہے،یہی
کہانی کار یا افسانہ نگار کی خوبی ہوتی ہے۔ڈاکٹر صاحبہ کے فرزند ارجمند
اعظم انور خان نے ابھی بتایا کہ ڈاکٹر صاحبہ نے اپنا ایک یو ٹیوب چینل شروع
کیا ہے جس پر وہ اپنے افسانوں کے مجموعوں سے کہانیاں ریکارڈ کرتی ہیں، اس
طرح جن احباب کے لیے اسکرین پر پڑھنا، یا کتاب پڑھنا مشکل ہوتا ہے و ہ
ڈاکٹر صاحبہ کے یوٹیوب چینل پر ان کہا کہانیاں ان کے ہی زبانی سن بھی سکتے
ہیں۔ یہ عمل قابل تعریف، مفید اور وقت کی ضرورت ہے۔آخر میں منتظمین کا خاص
طور پر ڈاکٹر انور اور بیگم ڈاکٹر تنویر انور صاحبہ کا بے حد شکریہ،
خوبصورت افسانہ نگاری پر مصنفہ کو مبارک بات۔
پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
|