زندہ قومیں اپنی زبان کی حفاظت اور تزٸین ایک مسلسل شعوری
عمل کے طور پر کرتی ہیں،زبان کے اصول وقواعد اور تحقیق زندہ قوموں کے لیے
اتنا ہی ضروری ہے جتنا زندگی گزارنے کے لیے نظم وضبط اور ضابطہ حیات لازم
ہے. اردو کی بقا وترقی کے لیے اس کے اصول و ضوابط اور معیار پر تحقیق کرنا
نہ صرف ضروری ہے بلکہ اردو زبان کے حق میں نیک فعال بھی ہے،ہر زبان کی طرح
اردو کی بھی اپنی اداٸیں، اپنا ناز اور بانکپن ہے، فنی خوبیاں اور اصولی
باریکیاں ہیں۔
آج کے ترقی یافتہ دور میں الفاظ کا کھیل جتنا عام ہوگیا ہے تاریخ ِ انسانی
میں اس سےقبل شاید اتنا نہ تھا، ایک زمانہ تھا کہ الفاظ پتھر پر تحریر کیے
جاتے تھے پھر کام درختوں کی چھال اور پتوں کی طرف بڑھا،ایک زمانہ وہ بھی
رہا جب کاغذ ایجاد تو کرلیا لیکن اس کے کتب خانہ غیرمعیاری اور محدود تھے
جس کی وجہ سے ایک کتاب کا چھاپنا بھی بےحد مشکل ہوجاتا تھا، اب زمانہ ہی
کتاب کا ہے ایک کتاب کا چھاپنا مہینوں سے منٹوں میں آگیا ہے۔ خیر اس فتنہ
پروری کے دور میں جہاں سوشل میڈیا نے ڈیرے جماۓ ہوۓ ہیں جدّت اور سیل فون
نے ہماری مادری زبان کو گم کردیا ہے کتب بینی کا دور تو زمانہ جاہلیت کا
دور معلوم ہوتا ہے. کتاب سے دوری کیا دشمنی نظر آتی ہے اس دور میں کتابی
میلے ہونا کتب اور اردو کے فروغ و حصول کے لیےادبی شخصیات سے ملاقات کی
جستجو ہونا یا ادبی تٗنظیمات کا قیام ِ عمل میں آنا بھی خوش آٸند ہے۔
خیر آمدم بر سر ِ مطلب!
پاسبان بزم ِ قلم نامی ایک ادبی تنظیم جس کی بنیاد دو سال قبل رکھی گٸ جس
کے زیر سایہ ممبران کو اردو ادب سے روشناس کرایا جارہا ہے اور ممبران کو
مضامین کے لکھنے سے لیکر اشاعت تک تمام مراحل میں مدد دی جاتی ہے اب تک
ممبران کے ڈھاٸ سو سے زاٸد کالم شاٸع کروا چکے ہیں بڑی بڑی شخصیات اس کی
سرپرستی فرمارہی ہیں، چند عرصہ قبل ایک تحریر مقابلہ منعقد کروایا جس کے
انعامات کی تقسیم اور ایک کتاب کی رونماٸ کی تقریب کے لیے لاھور میں مختلف
شخصیات سے ملاقاتیں کرنی تھیں، خیر ہم نے بھی رخت ِ سفر باندھا اور لاھور
کی جانب گامزن ہوۓ پہنچنے پر میزبان محترم عبداللہ بھٹی صاحب بس سٹینڈ پر
لینے کے لیے پہلے سے موجود تھے، ناشتہ وغیرہ سے فراغت پر میزبان سے اجازت
لیکر چٸیرمین پاسبان بزم قلم جناب مدثر کلیم سبحانی، صدر عثمان علی معاویہ
اور جنرل سیکرٹری محمد نفیس دانش صاحبان کی معیت میں باباۓ صحافت معروف
کالم نگار جناب ڈاکٹر اجمل خان نیازی صاحب سے ملاقات کے لیے ان کے گھر
پہنچے، بہت محبت سے نوازا فرداً فرداً سب سے احوال دریافت کیے، بعد ازاں
پاسبان بزم قلم کے روح رواں جناب مدثر کلیم سبحانی نےکتاب و رسائل ہدیتاً
پیش کیے اور پاسبان کے اغراض و مقاصد بتائے اورتعارف بھی کروایا.
جناب اجمل نیازی صاحب نے فرمایا: مجھے اس فورم سے بے حد خوشی ہوٸ ہے میں
معذرت چاہتا ہوں اٹھ کر آپ لوگوں کی خدمت نہ کرسکا البتہ میں پاسبان بزم
قلم کے لیے دعا گو بھی ہوں اور جیسا آپ کام کر رہے ہیں میں مطمئن ہوں اور
یقین دہانی کروائی کہ اس بزم میں اپنا حصہ ڈالوں گا اور جتنا ہوسکا تعاون
بھی کروں گا مزید جم کر کام کرنے کی ترغیب دی اور ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ
ہمیں رخصت کیا.
اجمل نیازی صاحب کے دیدار کے بعد (اگلی منزل) ناٸب امیر جماعت ِ اسلامی
جناب لیاقت بلوچ صاحب جن سے مسلسل رابطہ میں تھے کا فون آیا کہ میں کسی
ضروری کام کے تحت شہر سے باہر نکلا ہوں آپ لوگ اپنے فورم کا تعارف میرے
دفتر میں پہنچا دیں میں دیکھ بھی لونگا اور شرکت بھی کروں گا بعد ازاں اپنے
مقررہ وقت کے مطابق ایکسپو سنٹر میں پاسبان بزم قلم کے زیر اہتمام ایک شام
کتاب دوستی کے نام پروگرام میں پہنچ گئے.
جس میں خصوصی شرکت معروف کالم نگار فیچر راٸٹر روزنامہ اوصاف و خبریں جناب
ندیم نظر صاحب اور سپورٹس کے حوالہ سے قلم کی دنیا میں بہترین نام محترمہ
عمارہ وحید صاحبہ کی تھی.
پروگرام کی صدارت محترمہ عمارہ وحید صاحبہ نے فرمائی، ممبران سے تعارف اور
عنقریب ہونے والی تقریب رونمائی کے حوالہ سے تاریخ اور جگہ کا تعین، پاسبان
کے کاموں کو مزید بہتر بنانے کے لیے طویل گفتگو ہوئی اور جماعتی اہم امور
طے کیے گۓ بعد ازاں ندیم نظر صاحب اور عمارہ وحید صاحبہ کا انٹرویو بھی کیا
گیا وہ دونوں ٹانگوں سے معذوری کے باوجود مسلسل بارہ سال سے قومی میگزین
اور اخبارت میں لکھ رہی ہیں ان کا کہنا تھا ان بارہ سالوں میں آج تک کسی
اخبار والے نے کچھ معاوضہ نہیں دیا نہ ہی حوصلہ افزائی کی بارہا مرتبہ دل
بھی ٹوٹا چونکہ ایک شوق تھا اس لیے مسلسل لکھ رہی ہوں، مختلف ممبران نے
سوالات کیے اور انہوں نے جوابات سے نوازا دو مزید خواتین معروف کالم نگار
محترمہ کہکشاں اسلم صاحبہ عنبرین صاحبہ کے علاوہ مولانا عتیق ادریس بٹگرامی
مدظلہ ودیگر کثیر تعداد میں مرد حضرات نے بھی شرکت کی
اس میٹنگ کے بعد جناب ندیم نظر صاحب کے ساتھ اہم ملاقات ہوٸ انہوں نے
فرمایا: مجھے صحافت میں 28 سال ہوگۓ ہیں جب میں نے لکھنا شروع کیا تو بہت
لوگوں نے باتیں کی، کیڑے نکالے جس طرح آج آپ کو کچھ لوگ تنگ اور پریشان
کرتے ہیں میں مستقل مزاجی کے ساتھ لگا رہا اور آج اللہ نے یہ مقام عطا کیا
ہے“. اس کے بعد ہم معروف ادیب جناب نذیر انبالوی صاحب کی طرف بڑھے ان سے
ملاقات کی، دعاٸیں بھی لی ساتھ میں ہی ماہنامہ پھول کے مدیر جناب شعیب مرزا
صاحب سے بھی محبت بھری ملاقات ہوئی ان سب حضرات نے ایک ہی درس دیا مطالعہ
خوب کریں پھر جم کر لکھیں، وہیں کچھ دوستوں اور ودیگر کٸ لکھاری حضرات سے
بھی ملاقات خوب رہی۔ روزنامہ نواۓ وقت روزنامہ پاکستان کے ایڈیٹر اور
لکھاری حضرات سے بھی اہم ملاقاتیں ہوٸیں۔
آخر میں میزبان محترم بھائی عبداللہ بھٹی صاحب کے ساتھ کچھ کتابوں کی
خریداری کی اور بعد ازاں جاتے ہوۓ معروف موٹیویشنل سپیکر جناب کامران رفیق
صاحب سے محبت بھرے چند لمحات گزارے اور پھر نا چاہتے ہوئے بھی چٸیرمین،
صدر، جنرل سیکریڑی ودیگر ممبران سے الوداعی ملاقات کرکے ہزاروں محبتیں سمیٹ
کر کٸ یادیں لیے واپسی کی راہ لی۔
|