انبیاء کے بعد سب سے افضل انسان ابوبکر

 صدیق جب تلک کسی دل میں نہ آئیں گے اس دل میں نہ آئیں گے نبوت کے تاجدار

17فروری بمطابق 22جمادی الثانی سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کا یوم وصال ہے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کی زندگی کا ہرقدم قابل تقلید ہے جن کی فضیلت ورفعت قرآن وحدیث میں روز روشن کی طرح سورج کی روشنی سے زیادہ عیاں ہے جن کا تن من دھن پیارے آقاعلیہ السلام پر جانثار ہے ، صدیق اکبر ؓادھیڑ عمروالے جنتیوں کے سردار ہیں اور جنت کے آٹھ دروازوں سے آپ کے نام کی پکار ، مرحبا کی صداہے ۔جنت میں ہر روز خاص الخاص اﷲ کا دیدارہے ، رفاقت مصطفٰی ﷺ میں گزارا ہوا ہر لمحہ بالخصوص غار ثور کے تین دن اور تین راتیں روحانیت و نورانیت سے اتنی بھرپور ہیں کہ سیدنا عمر ؓ کی پوری زندگی کی آسمان کے ستاروں سے زیادہ نیکیاں بھی ان تین راتوں کی نورانیت کا مقابلہ نہیں کرسکتیں،جن کی زندگی کی سب سے محبوب گھڑی وہ ہوتی تھی جس میں وہ اپنا سارا مال سمیٹ کر مدنی کریمﷺ کے قدموں میں نچھاور کردیتے اور گھر میں اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے نام کے علاوہ کچھ نہ چھوڑتے حتی کہ خود ٹاٹ کے لباس میں ملبوس ہو کر رب تعالی کی نظروں میں اتنے محبوب بن جاتے ہیں کہ فرشتے جو لباس سے مستغنی ہیں اﷲ رب العزت ان کو بھی صدیق اکبر ؓ جیسا ٹاٹ کا لباس پہنوا دیتے ہیں،جن کی سادگی کی مثالیں اپنے تو اپنے غیر بھی دینے پر مجبور ہوگئے ،اسی لیے ’’مشہور ہندو لیڈر گاندھی جی‘‘ نے ایک موقع پر کہا تھا کہ میں’’ رام چندر‘‘ اور’’ کرشن جی‘‘ کا حوالہ نہیں دے سکتا کیونکہ وہ تاریخی ہستیاں نہیں ہیں،میں مجبور ہوں کہ سادگی کی مثال کے لئے’’ ابوبکر‘‘ اور’’ عمر ‘‘کا نام پیش کرتا ہوں،وہ بہت بڑی سلطنت کے حاکم تھے مگر ان کی فقیروں والی زندگی تھی‘‘۔سیدنا ابوبکر صدیق ؓ وہ ہستی ہیں جن کو سرکار دوعالم ﷺ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں سترہ نمازوں کا امام بناکر اپنے بعد جانشین پیغمبراور خلیفہ بلا فصل ہونے کا تاجدار بنا دیا اور اعلان فرمایا کہ اﷲ اور اسکے رسولﷺ اور تمام مومنین ابوبکر کے علاوہ کسی اور کو یہ مقام دینے سے انکار کرتے ہیں،اسی لیے جب سیدنا صدیق اکبرؓ پہلے خلیفہ راشد بنے تو تمام صحابہ بشمول حضرت علی المرتضی ؓ نے آپ کی بیعت کی اور حضرت علی المرتضیؓ نے صدیق اکبر ؓ کے ہاتھ پر بیعت کرتے وقت کیا خوبصورت جملہ کہا کہ جس کو اﷲ کے نبی ﷺ نے ہماری نماز کا امام بنایا وہی ہماری زندگی کے بھی امام اور خلیفہ ہیں ‘‘، پھول تو سارے ہی خوشنما اور دلربا ہوتے ہیں مگر گلاب کی بات ہی کچھ اور ہے۔ دھاتیں تو ساری ہی قیمتی اور نفع مند ہوتی ہیں مگر سونے کی بات ہی کچھ اور ہے ۔خوشبوئیں تو ساری ہی دلکش اور پسندیدہ ہوتی ہیں مگر مشک اورکستوری کی بات ہی کچھ اور ہے، ایسے ہی صحابہ تو سارے ہی آسمانِ ہدایت کے ستارے اور رہنما ہیں مگر ان تمام میں خلیفہ اول ،خسر نبی ﷺ،یار غار ،صاحب مزار،سب سے پہلے جانثا ر ،پیغمبرﷺ کے سچے حب دار، جناب سیدنا ابوبکر صدیق ؓ کی بات ہی کچھ اور ہے ۔ان کا ایمان بھی بے مثا ل اوراسلام کے لئے قربانیا ں بھی لازوال ہیں ۔اٹھارہ سال کی عمر میں پیغمبر ﷺ کی رفاقت نصیب ہوئی جب کہ آپ ﷺ کی عمر مبارک بیس سال تھی ۔پھر جب آپ ﷺ نے فاران وصفاکی چوٹی پہ نبوت کا اعلان کیا اور اپنے رشتہ داروں کو جمع کیا تو یہ اس مجمع میں نہیں تھے ۔اسی دن اس بات کا تذکرہ کفار مکہ نے خانہ کعبہ میں بیٹھ کر کیا تو یہاں موجود تھے ۔ایک کافر سے سن کر آپ ﷺ کے گھر پہنچ کر آپ کی بات کی تصدیق کی اور بغیر تردد اور سوچ وبچار کے کلمہ پڑھ کر ہمیشہ کے لئے صدیق کا لقب اپنے نام کردیا۔ مردوں میں سب سے پہلے ایمان قبول کرنے کے بعد اپنی جان و مال کو آقا علیہ السلام کے قدموں میں اس طرح نچھاور کردیا کہ آپﷺ نے فرما یا !ابوبکرمیں نے دنیا میں سب کے احسانوں کا بدلہ چکا دیا لیکن تیرے مجھ اور اسلام پر احسانوں کابدلہ اتنا زیادہ ہے کہ اﷲ تعالی قیامت کے دن خود ادا کرے گا۔ سیدناحضرت ابو بکر صدیقؓاس امت کے امام اورانبیا ء کرام علیہم السلام کے بعد ساری امت میں سب سے افضل ترین انسان ہیں ۔ آپؓ کا نام’’ عبداﷲ‘‘ اور کنیت ’’ابو بکر‘‘ اور لقب’’ صدیق اور عتیق ‘‘ہے ۔والد کا نام’’ عثمان ‘‘،کنیت ’’ابو قحافہ‘‘ اوروالدہ محترمہ کا نام سلمٰی بنت صخر، کنیت ’’ام الخیر‘‘ ہے ،آپ کے تین بیٹے ’’عبد الرحمن ،عبد اﷲ،محمد‘‘ اور تین بیٹیاں’’اسماء،ام کلثوم ،عائشہ ‘‘ہیں۔قریش کی شاخ بنو تیم قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔آپ کا شجرہ نسب چھٹی پشت میں جا کر حضورﷺ سے مل جاتا ہےْ۔ مدت خلافت ۲ سال تین ماہ اور ۱۱ دن تھی ۔ ابو بکر کہنے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ آپ کا کوئی حقیقی بیٹا بکر تھا بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ نے ایک عورت سے نکاح کیا تھا جس کا پہلے خاوند سے ایک بیٹا تھا جس کا نام بکر تھا جس کی وجہ سے ماں کو ام بکر اور آپ کو سوتیلا باپ ہونے کی وجہ سے ابوبکر کہا جانے لگااور پھر اسی کنیت سے مشہور ہوئے ،بعض نے اور وجوہات بھی لکھی ہیں کہ ابوبکر کا مطلب نیکی میں پہل کرنیوالاوغیرہ۔ آپ کی چار پشتوں کو صحابی ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ آپؓ نے نبیﷺ سے کمالات نبوت سب سے زیادہ حاصل کیے ۔حضور سرورکائنات ﷺ سے ایسا عشق ومحبت تھا کہ ان کی محبت ضرب المثل بن گئی ۔ہم اندازہ نہیں لگا سکتے ان کی محبت کا ،جو کہہ رہے ہیں میری سب سے بڑی تمنا اورخواہش یہ ہے کہ ہر وقت آنکھیں میری ہوں اور چہرہ مصطفٰی ﷺ کا ہو،جی بھر بھردیداررخ ِرسالت ماٰبﷺ سے سیراب ہوتا رہوں،اﷲ تعالی نے ان کی یہ تمنا خوب پوری فرمائی۔ قرآن مجید میں آپؓ کے لیے’’ ثانی اثنین ‘‘اور’’ لصاحبہ‘‘ کے الفاظ وارد ہوئے۔ جب رسولِ ا کرم ﷺ نے ۲۰ سال کی عمر میں حضرت سیدہ خدیجہ الکبرٰیؓ کے ما ل سے تجارت کا قصد لے کر ملک شام کا سفر فرمایا ۔تو اس سفر میں حضرت ابو بکر صدیقؓ آپ ﷺکے ساتھ تھے۔ اس وقت ان کی عمر ۱۸ سال تھی، اسی سفر میں انہوں نے رسول اﷲ ﷺ کے ایسے حالات دیکھ لئے، ان کے گرویدہ ہو گئے ۔ سفرسے واپسی کے بعد ہر وقت آپ ﷺ کے ساتھ رہنے لگ گئے یہاں تک کہ جب آپ ﷺ کی عمر شریف ۴۰ سال ہو گئی آپ ﷺ کو اﷲ نے نبوت ورسالت کا شرف بخشا، اسوقت حضرت ابوبکر صدیقؓ کی عمر ۳۸ سال تھی۔بالغ مردوں میں آپ ﷺ کی دعوت پر سب سے پہلے لبیک کہنے کے بعد بھی آپﷺ کے ساتھ رہے حتی کہ جب مکہ میں تمام برادری اور اھل وطن نے آپ ﷺ کو مکہ سے نکلنے پر مجبور کر دیا تو اس وقت بھی حضرت ابو بکر صدیقؓ کے سوا آپ ﷺ کے ساتھ کوئی نہ تھا اور اس سفر میں بھی حضرت ابو بکرصدیق ؓ کو اپنی جان کا غم نہ تھا بلکہ صرف نبی کریم ﷺ کی فکر تھی کہ کہیں دشمن نبی کو نقصان نہ پہنچا ئے ۔ اسی مقام پر ان کے بارے میں قرآنی آیات نازل ہوئیں ۔(ترجمہ )؛ جب وہ دونوں تھے غار میں جب وہ کہہ رہا تھا اپنے رفیق سے کہ تو غم نہ کھا! بے شک اﷲ ہمارے ساتھ ہے ۔ (سورۃ توبہ آیت نمبر ۴۰)قرآن پاک میں نو آیا ت ایسی ہیں جو صدیق اکبرؓکی شان میں اتری ہیں ۔آپ ہی کو سورۃ واللیل میں ’’الاتقی‘‘ کہا گیا یعنی نبوت کے بعد امت میں سب سے بڑے پرہیز گار صدیق اکبر ؓ ہیں۔اﷲ رب العزت نے قرآن پاک میں آپ کے خلوص ، تقوی،مال کی قربانی ،صدیقیت ،صحابیت کی گواہی کھلے لفظوں میں بیا ن فرمائی ہے۔آپ ﷺ کے وصال کے بعد خلیفہ المومنین بنے اور شاندار کارنامے سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ فتنوں کی بھی خوب سرکوبی فرمائی۔ آپؓ ۲۷غزوات میں نبی کریمﷺ کے ثانی تھے، آپؓ دعوت الیٰ اﷲ میں بھی نبی کے ثانی تھے ۔آپ مجلس میں بھی نبیؓ کے ثانی تھے۔نماز کی امامت میں بھی نبیﷺ کے ثانی تھے ،سترہ نمازیں حضورﷺ کی زندگی میں مصلی رسول ﷺ پر پڑھائیں۔حضرت سیدنا علی المرتضٰی کے کہنے پر خاتون جنت سیدہ فاطمۃ الزہراء ؓ کا جنازہ پڑھایا۔ آپؓ روضہ انور میں دفن ہونے میں بھی نبیﷺ کے ثانی تھے۔ جب حضرت ابو بکرصدیقؓ کی وفات کا وقت قریب آیا تووفا ت سے پہلے وصیت کی تھی کہ جب میرا جنازہ تیار ہو جائے تو روضۂ اقدس کے دروازے پر لے جا کر رکھ دینا اگر دروازہ کھل جائے تو وہاں دفن کر دینا ورنہ جنت البقیع میں دفن کرنا (مقصد یہ تھا کہ مجھے بھی یوم وفات اور کفن دفن میں نبیﷺ کی موافقت نصیب ہو زندگی میں تو مشابہت تھی ہی سہی فوت ہونے میں بھی مشابہت مطلوب تھی) چنانچہ جب آپؓ کا جنازہ دروازہ پر رکھا گیا تو تالا کھل گیا اور دروازہ بھی کھل گیا اور ایک آواز صحابہؓ نے سنی کہا ؛ ایک دوست کو دوسرے دوست کی طرف لے آؤ ۔۔
ہے زمانہ معترف صدیق تیری شان کا
صدق کا ایقان کا اسلام کا ایمان کا
تجھ سے رونق دین نے پائی عرب میں شام میں
مقتدا ہے تو علی ؓ کا بوذرؓو سلمان ؓ کا

 

Tanveer Ahmed
About the Author: Tanveer Ahmed Read More Articles by Tanveer Ahmed: 21 Articles with 20311 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.