مہنگائی سے پسے ہوئے عوام شور و غوغہ میں مصروف ہیں لیکن
ان کی کہیں شنوائی نہیں ہو رہی۔ان کی طفل تسلیوں کے لئے صرف اعلانات ہو رہے
ہیں۔انھیں ریلیف دینے کی بجائے انھں وعدوں کی زنجیر وں میں جکڑا جا رہا
ہے۔وہ بلبلا رہے ہیں لیکن ان کے بلبلانے سے حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک
نہیں رینگ رہی۔تبدیلی کا جو خواب انھیں دکھایا گیا تھا اس کے دور دور تک
کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔حکمران جماعت کے اندر شدید لڑائی جاری ہے۔ان کی
باہمی چپقلش سے جمہوریت کمزور ہو رہی ہے۔اتحادیوں کا ناراض ہونا اور
مطالبات میں شدت اختیار کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ راتوں رات کنونشن مسلم
لیگ بنا لی گئی تھی جس کا تسلسل آج بھی جاری ہے۔پی پی پی نے اپنے دورِ
حکومت میں اس طرح کی کئی مناظر دیکھے گے تھے۔ایم کیو ایم کے بار بار روٹھنے
اور آصف علی زرداری کے بار بار منانے کے اضطراب انگیز مناظر اب بھی عوام کے
اذہان میں محفوظ ہو ں گے۔ مسلم لیگ (ق) نے اسی اضطراب کا فائدہ اٹھاتے ہوئے
مخلوط حکومت میں شمولیت اختیار کی تھی اور چوہدری پرویز الہی پاکستان کے
پہلے ڈپٹی پرائم منسٹر نامزد ہوئے تھے ۔ حالات اب بھی اسی ڈگر پر ہیں۔مسلم
لیگ (ق) اب بھی کسی نقب کی تلاش میں ہے ۔اس کی نگاہیں پنجاب پر جمی ہوئی
ہیں۔عثمان بزدار ایک کمزور وزیرِ اعلی ہیں جھنیں اشرافیہ کی بغاوت کا سامنا
ہے۔ بیوو کریسی اور اشرافیہ ان کی کارکردگی میں رکاوٹ ہے۔ مسلم لیگ (ق) اسی
رکاوٹ سے اپنی کامیابی کی راہیں تراش رہی ہے۔شنید تو یہی ہے کہ ہوم ورک
مکمل ہے بس آخری اشارے کا انتظار ہے۔جس دن اشارہ مل گیا تختِ پنجاب پر
عثمان بزدار کی جگہ ایک نیا چہرہ نظر آئے گا۔عوامی اضطراب کو پیشِ نظر رکھا
جائے تو اس اشارے کے امکانات کافی روشن ہیں۔ وقت کا نقارہ بجنے کے لئے بے
تاب ہے صرف حالات کے دھارے کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔عمران خان کی بار بار کی
مداخلت بھی کوئی معجزہ دکھانے میں کامیاب نہیں ہو رہی ۔ مسلم لیگ (ن) اور
مسلم لیگ (ق) میں قربتیں بڑھ رہی ہیں۔فائنل راؤنڈ کی تیاریاں زورو شور سے
جاری ہیں ۔پی پی پی ،مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) کا اس بارے میں مکمل
اتفاقِ رائے ہے کہ پنجاب سے عثمان بزدار کی حکومت کا خاتمہ صوبے کی ترقی کے
لئے نا گزیر ہے۔حکومت سازی کے لئے ممبران کی تعداد بھی پوری ہے بس مناسب
وقت کا انتظار ہے۔۲۵ ارکان کے گروپ کی تشکیل بھی اسی تبدیلی کا حصہ ہے جسے
وقت پڑنے پر استعمال کیا جائے گا۔ایک طرف ایم کیو ایم ہے تو دوسری طرف بی
این اے مینگل ہے جب کہ تیسری اتحادی مسلم لیگ (ق) اپنے پورے شباب پر
ہے۔عمران خان کی حکومت چند ووٹوں کے سہارے قائم ہے جبکہ ان تینوں کی مجموعی
تعداد حکومت کے پاؤں اکھاڑنے کے لئے کافی ہے۔پی ٹی آئی کے اندر بھی کئی
چہرے ہیں جو عمران خان کی جگہ وزیرِ اعظم کی مسند کے امیدوار ہیں ۔ان کی
امیدیں بر آتی ہیں یا کہ وہ عمران خان کی کشتی میں سوراخ کرنے کا کردار ادا
کرتے ہیں۔،۔
پاکستان میں ایک طبقہ ایسا ہے جسے اشرافیہ کہا جاتا ہے۔اس طبقے کا کام
حکومتوں کی اکھاڑ بچھاڑ اور تبدیلی سے جڑا ہوتا ہے۔وہ کسی کے ساتھ بھی مخلص
نہیں ہیں۔انھیں کسی کی پرواہ نہیں ہوتی لیکن وہ ہر حکمران کی ترجیح ہوتی
ہیں۔وہ ذولفقار علی بھٹو سے شروع ہونے والے جمہوری دور سے لے کر اب تک ہر
حکمران کی ناک کا بال بنے ہوئے تھے۔وہ جنرل ضیا الحق کے ساتھ بھی تھے ،وہ
جنرل پرویز مشرف کے بھی ہمنوا تھے ،وہ میاں محمد نوازشریف کے بھی ہمرکاب
تھے،وہ آصف علی زرداری کے بھی دست و بازو تھے لیکن وقت پڑنے پر وہ بے وفائی
کے مرتکب ہو جاتے ہیں۔ ذولفقار علی بھٹو کی کتاب (میرے دوست میرے قاتل) اس
طبقہ کی بے وفائی کا نوحہ ہے۔کوئی ایسا حکمران نہیں ہے جو ان کا بازو مروڑ
سکے۔انھیں انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کر سکے، ان کا احتساب کر سکے، ان کا
ہاتھ روک سکے اور انھیں قانون کی گرفت میں لا سکے ۔۲۰۱۸ کے انتخابات نے
اشرافیہ کی اہمیت کو دوچند کر دیا تھا۔ راتوں رات وفاداریاں بدلی گئی
تھیں۔مسلم لیگ (ن) کی ممکنہ فتح کو شکست میں بدلنے کیلئے اشرافیہ کی حمائت
ضروری تھی۔جب منظر نامہ بدنا مقصود ہوتا ہے تو اشرافیہ کو متحرک کر دیا
جاتا ہے۔اشرافیہ کا راج مخصوص علاقوں میں اب بھی قائم ہے اور ان کی مرضی کے
بغیر وہاں کوئی پر نہیں مار سکتا۔جنوبی پنجاب اور پسماندہ علاقوں میں
اشرافیہ کی گرفت آج بھی بڑی مضبوط ہے۔وڈیرے ،جاگیر داراور صنعتکار اس مخصوص
لابی کا حصہ ہیں جو تبدیلی کی ہوا کہ تیز کرتی ہے۔میاں محمد نواز شریف نے
حقیقی وزیرِ اعظم بننے کی کوشش کی تو ان کا جانا ٹھہر گیا۔سب سے پہلے ان کا
ساتھ چھوڑنے والا یہی طبقہ تھا جسے اشرافیہ کہا جاتا ہے ۔ اب اشرافیہ پی ٹی
آئی کا حصہ ہے لہذا پی ٹی آئی کا اپنے وعدوں پر عمل کرنا ممکن نہیں
ہے۔پولیس اور پٹوار اشرافیہ کی قوت ہیں لہذا ان میں تبدیلی لانا ممکن نہیں
ہے ۔ پولیس میں اصلاحات کا شور تو بہت سنتے ہیں لیکن انھیں بروئے کار نہیں
لا یا جا سکا ۔ پنجاب خیبر پختونخواہ نہیں ہے ۔پنجاب کی اپنی نفسیات ہیں،اس
کا اپنا کلچر ہے،اس کا اپنا تشخص ہے،اس کا اپنا رنگ ہے،اس کا اپنا انداز
ہے،اس کا اپنا طریقِ کار ہے ، اس کا اپنا ڈھا نچہ ہے ،اس کی اپنی سوچ ہے،اس
کا اپنا مزاج ہے،اس کے اپنے رسم و رواج ہیں، اس کے اپنے زمینی حقائق ہیں
اور اسے اسی میں زندہ رہنا ہے۔کوئی چاہتے ہوئے بھی اشرافیہ کی مرضی کو نظر
انداز نہیں کر سکتا کیونکہ ان کی اہمیت کو نظر انداز کرنے والے حکمرانوں کا
اپنا تخت ہوا میں معلق ہو جاتا ہے۔اشرافیہ کی طرب زبانی اپنی جگہ مسلمہ
ہے۔انھیں حکمرانوں کو شیشے میں اتارنے کا فن آتا ہے۔سیاسی جماعتیں انھیں
اپنی جماعتوں میں شامل کرنے کیلئے بے چین نظر آتے ہیں ۔ اصلی سیاسی کلچر
چونکہ ہمارے ہاں پروان نہیں چڑھ سکا لہذا ہم شخصیات کے اسیر ہیں ۔سیاسی
جماعتوں کیلئے ان کی اہمیت کونظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے۔پاکستان کے اہم
مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ اشرافیہ کے چنگل میں پھنس جانا ہے۔کوئی حکمران
کوئی ایسا جرات مندانہ فیصلہ کر نہیں سکتا جس سے اشرافیہ کے مفادات پر زد
پڑتی ہو۔سارے حکمران دل و جان سے عوامی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں لیکن
اشرافیہ کا یہ گروہ انھیں یرغمال بنا لیتا ہے ۔ان کی لوٹ مار کا کلچر جاری
و ساری ہے اور کوئی ان سے پوچھ گچھ نہیں کر سکتا ۔عمران خان کی توپوں کا
سار ارخ بھی اپنے سیاسی مخالفین میاں محمد نواز شریف اور آصف علی زرداری کی
طرف ہے ۔ اشرافیہ کا یہ گروہ دونوں ہاتھوں سے ملکی دولت لوٹ رہا ہے۔شوگر
مافیا اور گندم مافیا کا سرغنہ کون ہے؟ کیا میاں محمد نواز شریف اور آصف
علی زرداری اس گروہ کا سرغنہ ہیں؟ وہ دونوں تو ریاستی جبر کا نشانہ بنے
ہوئے ہیں۔ان کی ملیں اور فیکٹریاں بند پڑی ہوئی ہیں۔ان کے کارخا نے خاموش
ہیں۔ان کے لئے قومی احتساب بیو رو کے ریفرنس اور انکوائریاں ہی کافی ہیں۔وہ
اس چنگل سے چھوٹیں گے تو کوئی دوسرا قدم اٹھائیں گے۔عمران خان عوامی خدمت
کا جذبہ رکھتے ہوئے بھی عوامی خدمت سے محروم ہیں۔وہ جس مینڈیت کے ساتھ
حکومت میں آئے تھے اس کا دور دورتک کوئی نشان نہیں ہے کیونکہ عوامی خدمت ان
کی ٹیم کا مطمعِ نظر نہیں ہے۔ پاکستان جب تک اشرافیہ کے چنگل سے رہائی نہیں
پا تا اس کے لئے ترقی کا زینہ طے کرنا ممکن نہیں ہے۔،۔
|