کہتے ہیں کہ استاد نے بچوں کو مضمون نویسی سے متعلق
پڑھایا، ’’ میرا بہترین دوست ‘‘ مضمون بطور مشق لکھوایا اور پھر گھر کے کام
کے لئے یہی مضمون یاد کرنے کو دیا۔ اگلے دن استاد نے کمرہ ٔ جماعت میں اپنا
ارداہ تبدیل کیا اور ’’میرا بہترین دوست ‘‘ کی بجائے ’’ میرا بہترین
استاد‘‘ کا مضمون لکھنے کو کہا۔ کچھ طالب علموں نے اپنی جانب سے کوشش کی
لیکن ایک طالب علم نے کچھ یوں لکھا۔ ’’ میرے بہت سے اساتذہ ہیں لیکن غلام
رسول میرا بہترین استاد ہے۔ اس کے بیٹے کا نام اختر رسول ہے جو میرا بہترین
دوست ہے۔ وہ میرے ساتھ کلاس میں پڑھتا ہے۔ اس کے چار بہن بھائی ہیں اور وہ
سب سے چھوٹا ہے۔ ہم کمرہ ٔ جماعت میں اکھٹے بیٹھتے ہیں، اکھٹے پڑھتے
ہیں۔۔۔‘ ‘ اس کے بعد اُس نے سارا مضمون ’’ میرا بہترین دوست‘‘ پر لکھ
ڈالا۔اس سے اگلے دن استاد نے مضمون نویسی میں مہارت کی غرض سے ’’ میرا باغ
‘‘ مضمون لکھنے کو کہا۔ اَب طالب علم کو چالاکی ہاتھ آگئی تھی۔ اُس نے یوں
لکھنا شروع کیا کہ میں سکول کے بعد باغ میں کھیلنے جاتا ہوں۔ وہاں اختر
رسول بھی آجاتا ہے جو میرا بہترین دوست ہے۔وہ میرے ساتھ کلاس میں پڑھتا ہے۔
اس کے چار بہن بھائی ہیں اور وہ سب سے چھوٹا ہے۔۔۔کچھ دنوں بعد استاد نے ’’
ریل گاڑی کا سفر ‘‘ مضمون دیا۔ اُس طالب علم نے یوں لکھا کہ میں ریل گاڑی
میں سفر کر رہا تھا کہ جونہی سامنے والا سیٹ پر نظر پڑی تو وہاں اختر رسول
بیٹھا ہوا تھا جو میرا بہترین دوست ہے۔ وہ میرے ساتھ کلاس میں پڑھتا ہے۔ اس
کے چار بہن بھائی ہیں اور وہ سب سے چھوٹا ہے۔۔۔استاد طالب علم کی چالاکی
اچھی طرح سمجھ چکا تھا لہٰذا جب اُس نے ’’ ہوائی جہاز کا سفر‘‘ مضمون دیا
تو ساتھ میں یہ تاکید کی کہ اختررسول جہاز میں سفر نہیں کر رہا ہے۔ طالب
علم کچھ پریشان ہوا لیکن اُسے ایک اور ترکیب ذہن میں آئی۔ اُس نے یوں لکھا
کہ میں اپنے والد کے ساتھ جہاز میں کراچی جارہا تھا ، جیسے جہاز ہَوا میں
بلند ہوا تو مجھے کھڑکی سے اختر رسول نظر آگیا جو کھیت میں کام کر رہا تھا۔
اختر رسول میرا بہترین دوست ہے۔ وہ میرے ساتھ کلاس میں پڑھتا ہے۔ اس کے چار
بہن بھائی ہیں اور وہ سب سے چھوٹا ہے۔۔۔ اس لطیفے کا مدعا آپ جان چکے ہوں
گے، بالکل ٹھیک! موجودہ حکومت کو وفاق میں ڈیڑھ سال کا عرصہ ہوچکا ہے اور
خیبر پختون خوا میں ساتواں سال جاری ہے۔ وہ ہر خرابی اور مسئلے کی جڑ سابق
حکمرانوں کی لوٹ مار کو قرار دے کر عوام کو مطمئن کرتے ہیں۔ حالیہ مہنگائی
کی لہر کے تانے بانے کسی نہ کسی طریقے سے سابق حکمرانوں ، یعنی اختر رسول
سے ملائے جارہے ہیں۔ عالمی جریدے ’’ اکانومسٹ ‘‘ کی رپورٹ کے مطابق ملک میں
مہنگائی کی شرح دس سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی
کہا گیا کہ دسمبر 2010 ء کے بعد 2019 ء میں مہنگائی کی شرح بلند ترین رہی
جب کہ جنوری 2020 ء میں مہنگائی کی شرح 14.6 فیصد تک پہنچ جانا توقعات کے
برعکس زیادہ ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات کے اعداد وشمار اور گیلپ سروے کی
رپوٹوں میں فروری اور آئندہ بھی مہنگائی بڑھنے کے امکانات بتائے جارہے ہیں۔
حقیقت حال یہ ہے کہ متوسط طبقہ اشیائے ضروریہ کی آسمان سے باتیں کرتی
قیمتوں سے پریشان حال ہے۔ دال ، چاول ، آٹا ، گھی اور سبزیوں کی قیمتیں
لوگوں کی قوت خرید سے باہر چکی ہیں اور جب کہ بجلی ، گیس ، اور پٹرولیم
مصنوعات قوت خرید سے باہر ہوتی جارہی ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ
حکومت کو موجودہ درپیش مسائل میں مہنگائی سرفہرست ہے۔ وفاقی وزیر برائے
منصوبہ بندی اسد عمر نے لیاری کے دورہ کے موقع پر ایک تقریب سے خطاب کرتے
ہوئے کہاکہ مہنگائی کے ان اعداد و شمار میں کسی بھی سیاسی حکومت کا چلنا
ممکن نہیں ہوتا اور مہنگائی پر فوری قابو پانے کی ضرورت پر زور دیا۔ ایک
نجی ٹیلی ویژن چینل کے پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر حماد
اظہر کا کہنا تھا کہ حکومت کو مہنگائی کا احساس ہے لیکن اس کی وجہ سے
گھبراہٹ کی ضرورت نہیں ہے اور مہنگائی کی وجہ سابق حکومتوں( یعنی اختر رسول
) کی شرح سود ، بجلی اور گیس کی قیمتیں کم رکھنا ہیں جس نے ملک کو معاشی
طور پر نقصان پہنچایا۔ مہنگائی کے بوجھ تلے دبے عوام کا احساس حکمرانوں کے
ایوانوں میں پہنچ چکا ہے۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ایک
اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا جس میں کھانے پینے کی اشیاء کی سستے نرخوں فراہمی پر
غور کیا گیا۔ انہوں نے بنیادی اشیائے ضروریہ یعنی آٹا ، گھی ، چینی ، چاول
اور دالوں کی قیمتیں کم کرنے کی ہدایات دیں۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ
اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں کمی کے لئے ہر حد تک جائیں گے اور عام آدمی
کے کچن میں بنیادی اشیاء ہر حال میں پہنچائیں گے۔ جن خاندانوں میں خریدنے
کی سکت نہیں ، انہیں حکومت راشن دے گی اور احساس پروگرام کے تحت انتہائی
غریب گھرانوں کو راشن فراہم کیا جائے گا۔ اس موقع پر مشیر خزانہ کو ہدایت
کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ کسی بھی چیز کے پیسے کاٹیں مگر غریب آدمی کو
ریلیف دیں کیوں کہ غریب کی بہتری کے لئے ہی حکومت میں آئے ہیں اور ملک میں
موجودہ مہنگائی کا بحران سابقہ حکومت کی لوٹ مار کا نتیجہ ہے۔منگل کے روز
وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم نے پندرہ ارب ریلیف پیکج کی منظوری دی
جو کہ حکومت کا مہنگائی کے احساس کی جانب ایک مستحسن اقدام ہے۔ اس میں کسی
شک و شبہے اور اختلاف و ابہام کی گنجائش نہیں ہے کہ جمہوری حکومت کی
کامیابی اور اس پر عوامی اعتماد غریب عوام کے معاشی ریلیف میں پوشیدہ ہوتا
ہے۔ پس حکومت کو اس سلسلے میں ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا اور مہنگائی
کے پیچھے چھپے ذخیرہ اندوز عناصر کے کارٹل ، ناجائز منافع خوری میں ملوث
گروہوں ، انتظامی سطح کی بد ترین صورت حال اور اختیارات کے ناجائز استعمال
میں ملوث افراد کی بلا تفریق و امتیاز بیخ کنی کرنی ہوگی تاکہ مہنگائی پر
جلد از جلد قابو پایا جاسکے ورنہ اختر رسول والا حربہ حکومت کو بالآخر بند
گلی میں داخل کر دے گا۔
( تحریر : پروفیسر شوکت اﷲ )
|