ملک میں نفرتوں کی آندھیاں چل رہی ہیں۔ اقتدار کا
نشانہ مسلمان ہیں۔ گرچہ نچلی ذاتوں اور دلت و آدیواسیوں پر بھی نشانہ
سادھا گیا ہے؛ لیکن اصل ہدف مسلمان ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اسلام کے دیے کو
بجھا دیں۔ شمع اسلام کو ختم کر دیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ: پھونکوں سے
یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا۔
تشدد کی ستائش!
حکومت تشدد کی راہ پر ہے۔ تشدد کے لبادے میں ہی نفرتوں کی سوداگری کی گئی۔
جذبات کو مذہبی رنگ دے کر اقتدار حاصل کیا گیا۔ ۵؍ برسوں میں ملک کو ترقی
کی راہ سے دور لے جایا گیا۔معیشت برباد ہوتی رہی۔ عصبیت کو پروان چڑھایا
گیا۔ ہر گلی کوچے میں مسلمانوں سے تعصب کی آگ بھڑکائی گئی۔ مزید ہوا دینے
کے لیے آئین کا سہارا لیا گیا۔ مسلم پرسنل لا میں گھس پیٹھ کی کوشش کی گئی۔
مذہبی آزادی کا خون کرنے کی جرأت ہوئی۔ تین طلاق سے متعلق ایسے قوانین
بنائے جن سے راست طور پر مذہبی آزادی پر ضرب پڑتی تھی۔ مسلمان خاموش رہے۔
کشمیریوں سے ان کے لیے مختص بھارتی قانون کی دفع ۳۷۰ ؍ چھین لی گئی۔ کشمیر
ہمارا ہے! ہاں ہمارا ہی ہے!! لیکن! کشمیری بھی ہمارے ہیں۔ کشمیر کا حُسن
کشمیریوں کے وجود سے ہے۔ کشمیر سے محبت اور کشمیری بھارتی عوام سے نفرت!
یہی تو تعصب ہے؛ جو دہشت گردی سے کم نہیں! ایک طرف ملک کا وزیر داخلہ یہ
کہتا ہے کہ CAAشہریت دینے والا قانون ہے۔ شہریت چھیننے والا نہیں۔ وجہ یہ
بتائی جاتی ہے کہ تین ملکوں میں ہندوؤں ، بدھشٹوں اور دیگر مذاہب پر
زیادتی ہوتی ہے، ہم انھیں لا بسائیں گے ،شہریت دیں گے۔ دوسری طرف اپنے ہی
ملک کے مسلم باشندوں پر ظلم کیا جاتا ہے۔ اُنھیں ذبیحہ کے الزام میں ماب
لنچنگ کیا جاتا ہے۔ ہجومی قتل کر کے اقلیتوں کو دہشت زدہ کیا جاتا
ہے۔قاتلوں کو حوصلہ دیا جاتا ہے۔ دہشت گردی پھیلائی جاتی ہے۔عصبیت سے بھرے
بیانات دیے جاتے ہیں۔اکثریتی فرقے کے لوگوں میں نفرت کی آگ بھڑکانے کی
کوشش کی جاتی ہے۔
نفرت کی راہیں:
[۱]کشمیر کے بھارتی مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کرنا کیا یہ جمہوریت کا قتل
نہیں!! کیا انسانی حقوق کی پامالی مذہبی تعصب میں دستوری طور پر درست
ہے!!کیا کشمیریوں کو آئینی طور پرحاصل بنیادی حقوق چھیننا درست ہے؛ وہ بھی
ایسے ملک میں جہاں کی جمہوریت پوری دُنیا میں مثالی کہی جاتی ہے!
[۲] جمہوری حقوق سے ہے کہ کوئی غیر مناسب اقدام پر پُر امن صداے احتجاج
بلند کی جاسکتی ہے۔ جامعہ ملیہ کے اعلیٰ تعلیمی شعبوں سے تعلق رکھنے والے
طلبہ نے کالے قوانین سی اے اے، این آر سی کے خلاف پُرامن احتجاج کیا۔ تو
دہلی پولس نے کالج ہاسٹل میں گھس کر انہیں ظلم کا نشانہ بنایا۔ بچیوں کو
زدوکوب کیا۔ تعلیم گاہ میں شر انگیزی کی۔ تشدد کی ایسی بدترین مثال ماضی کی
حکومتوں میں شاید ملے! پھر طرفہ یہ کہ غنڈے بھی طلبہ میں دہشت پھیلانے کی
کوشش کر رہے ہیں؛ جنھیں شاید حکومت کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے جبھی تو
غنڈوں پر کوئی سخت کارروائی نہیں ہو رہی!
[۳] جے این یو میں پولس کی موجودگی میں نقاب پوش غنڈوں نے گھس کر طلبہ کو
مارا پیٹا، اسٹوڈنٹس کو لہو لہان کیا۔لیکن اب تک غنڈوں پر کوئی قابلِ ذکر
کارروائی نہیں ہوئی! کیا یہی ملک کی تعلیم گاہوں میں جمہوری تحفظات ہیں!وہ
بھی ملک کے کیپیٹل میں،
[۴] حالیہ دنوں دہلی میں جس طرح سے ایک شخص پُر امن احتجاجی طلبہ پر
ریوالور سے حملہ آور ہوتا ہے؛ اور پولس کی موجودگی میں دہشت گردی پھیلاتا
ہے؛اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب منصوبہ بند سازش کا حصہ ہے۔ اپنے غیر
جمہوری آئین کو منوانے کے لیے تشدد،دہشت، شدت پسندی کا بھرپور استعمال کیا
جا رہا ہے۔ شرافت کے معیارات مکمل طور پر اس اقتدار نے مسترد کر دیے ہیں۔
[۵] ان کے لیڈران پورے ملک میں شر انگیز بیانات دے رہے ہیں، شاہین باغ کی
بھارتی خواتین کے لیے نازیبا جملے کسے جا رہے ہیں۔ وزیر داخلہ نے اسے دہلی
الیکشن کا مدعا بنا کر سیاست کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی نفرت کا یہ حال کہ
کہتے ہیں کہ ووٹنگ مشین پر بٹن اتنے زور سے دباؤ کہ جھٹکا شاہین باغ میں
لگے!! اس طرح بجائے بھارتی مہیلاؤں کی بات سننے کہ ان سے نفرتوں کی فضا
آراستہ کی جا رہی ہے۔ اس لیے کیا بھروسہ کہ کل ان کے آتنک وادی پُر امن
احتجاجیوں پر کوئی وار نہ کر دیں!
اس وقت نفرتوں کی اس حکومتی مہم میں تمام اوچھے ہتھکنڈے اپنائے جا رہے ہیں۔
مسلسل زہر پھیلایا جا رہا ہے۔ تشدد اور حکومتی دہشت گردی شباب پر ہے۔ ان سب
کے مقابل ملک کی اکثریت پُر امن احتجاج؛ استقلال سے کر رہی ہے، کہیں سے،
احتجاجیوں کی طرف سے تشدد کا ظہور نہیں ہو رہا، احتجاج کرنے والے بھارتیوں
کا یہی عندیہ ہے کہ ہماری پُر امن جدوجہد آئینی طور پر آئین کی حفاظت کے
لیے ہے،غیر آئینی ایکٹCAA,NRCکے خلاف ہے۔ احتجاجی لوگ ملک کے وفادار ہیں
اور سچے محبِ وطن بھی، جب کہ حکومت میں بیٹھے لوگ آئین کی جس طرح پامالی
کر رہے ہیں وہ سخت اضطراب کا باعث ہے، ایسے حالات میں ہمیں یقین ہے کہ ان
نہتوں کا خون رنگ لائے گا جنھوں نے کالے قانون کے خلاف قربانی دی ہے۔ ہمیں
یقین ہے کہ آزاد ملک میں غلامی کی ظلمت نافذ کرنے والی حکومت کی چولیں پُر
امن عوام کے ذریعے ہلیں گی اور اس کا خمیازہ انہیں تادیر بھگتنا ہوگا۔ اس
لیے کہ ظلم کی مدت طویل نہیں ہوتی۔ جس گڑھے کو ان ظالموں نے بھارت کے
مظلوموں کے لیے کھودا ہے اس میں وہ خود آئیں گے۔ ان شاء اللہ! شامِ ظلم کے
بعد صبحِ امید نمودار ہوگی اور ہم قربانیوں کے بعد پورا چمن مشک بار مشاہدہ
کریں گے؎
سمجھتے ہیں ناداں اسے بے ثبات
اُبھرتا ہے مٹ مٹ کے نقشِ حیات
|