اللہ پاک نے اپنی خوبصورت رحمتوں میں ایک رحمت امہ
مسلمہ کو پاکستان کی شکل میں دی ہے۔۔
لیکن افسوس صد افسوس ہم اس دھرتی ماں کے اچھے رکھوالے ثابت ہوسکے۔۔
جہاں موقع ملتا ہے اسے نوچ لیتے ہیں۔۔
بیشک پاکستان ایک خوبصورت ، پرکشش ، اور حسین نظاروں سے آراستہ ملک ہے,ایک
بات طے ہے کہ پاکستان کسی بھی خوبصورت ملک سے کم نہیں, یہ جنت ہے, شمالی
علاقہ جات کا ذکر ہو یا میدانی یہ اللہ کریم کا تحفہ ہے, اگر یہاں لوگوں کے
رویئے بدصورت نہ ہوتے، یورپین ممالک میں آپ کو لوگ کہیں کچرا پھینکتے ہوئے
نہیں ملیں گے، صفائی اتنی اعلی ہے کہ کاغذ کا ٹکڑا بھی زمین پر کوئی نہیں
پھینکے گا ہمارے ملک کی بدصورتی لوگوں کی گندی عادات کی وجہ سے ہے,
اللہ نے تو اس ملک کو حسین بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی, لیکن دینی
سے دوری, آپس کی نفرت, اپنے لالچ, کی وجہ سے تباہی ہی تباہی ہے ہر طرف,
اللہ تعالی نے مسلمانوں سے فرمایا ھے کہ صفائی نصف ایمان ھے پھر بھی یہ
حالت ھے
اور نصف ایمان ھم سے غیر مسلم لے گئے ہیں , جو نصف ایمان رہتا ھے ۔اسکی
کوئی گارنٹی دے نہیں سکتا ۔کہ وہ اللہ کے ہاں قبول ھوگا یا نہیں کیونکہ
خوداعتمادی سے دور معاشرہ پروان چڑھنے میں مصروف عمل ہے,
سزا اور جزا کی جگہ یہاں پر گناہ اور رشوت کا راج ہے,ہم یہ سمجھنے سے
قاصر ہیں کہ ادارے کرپٹ نہیں بلکہ لوگ کرپٹ ہیں، اداروں میں بیٹھے لوگ ہم
عوام کی وجہ سے کرپٹ ہیں جو اپنے مفادات اور ناجائز کاموں کی خاطر سرکاری
ملازمین کو رشوت کی پیشکش کرتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں حکمران ٹھیک نہیں۔ پہلے
ہم خود تو ٹھیک ہو جائیں حکمران اور ادارے خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے۔
یہ سارا ہی سسٹم بیمار ہے, جب سسٹم میں اداروں کے لوگ صحیح شخص کی
بجائے اپنے رشتے داروں کو دیں گے تو لوگ کس کو اور کہاں شکایت کریں کیوں کہ
ہر جگہ ان کے تعلقات کے لوگ ہوتے ہیں اسی وجہ سے لوگ مجبوری میں رشوت دے
اور لیتے ہیں۔
سہی بات یہ ہے کہ اللہ سب کے ذہن میں یہ بات ڈالے کہ یہ کسی اور نے نہیں
ہم خود نے ٹھیک کرنا ہے,لیکن اس کے لیے پہلے اللہ سے دعا مانگنا ہو گئ,
اللہ کے سامنے جھکنا ہو گا تب ہی اللہ کریم درست فیصلے کی توفیق عطا فرماۓ
گا,
اگر سزاکا خوف نہ رہے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ تجربے کے طورپر اسی "گندی
عادت" کے حامل کو جہاز میں بٹھا کر دبئی لے جائیں۔وہاں یہی شخص کبھی بھی
کچرا نہیں پھینکے گا۔ وجہ صرف ڈر یا خوف ہے،جرمانے اور سزا کا۔قانون جیب
میں ڈالے گھومنے والا کیوں اس کی پاسداری کرے؟
البتہ لوگوں میں نفاست غربت ختم ہونے کے بعد آتی ہے۔ جب فکر معاش ہو تو
سوچیں بھی الجھی ہوئی ہوتی ہیں اور روئیے اور اردگرد کا ماحول بھی۔
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کردیا
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے
المیہ در المیہ یہ کہ
اب جہالت و جاہلیت کا مرکب وائرس ہر مکتب فکر ,اہل علم ؤ فن میں سرائیت کر
چکا ہے۔
اب چاول سے کنکر نہیں بلکہ کنکروں سے چاول چنے جاتے ہیں,
مکمل ناامیدی کفر ہے,
امید کی کرن اس آفت کے دور میں صرف
ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہیں جسکی وجہ سے عظیم
معاشرہ وجود میں آیا۔
جسے اللہ کریم نے اسوہ حسنہ قرار دیا اور وہ زندگی اپنانے کا حکم دیا۔صرف
میں اور آپ وہ زندگی گزارنے کی کوشش شروع کر دیں۔ تو انشاءاللہ خوشبو آنا
شروع ہو جائے گی۔
صرف بحیثیت قوم ہم سب کو تربیت کی اشد ضرورت ہے,
بہت شکریہ
|