ہمارے خاندان میں اس غزل کو گانے کی اجازت نہیں۔۔۔پاکستان کے نامور گلوکاروں کے وارث اور ان کی باتیں

image


پاکستان کے اندر موسیقی کے حوالے سے قیام پاکستان سے لے کر اب تک ایسے نامور گھرانے گزرے ہیں جو کہ نسل در نسل اس ورثے کو لے کر چل رہے ہیں ۔ قیام پاکستان کے وقت جن کے باپ اپنی آواز کا جادو بکھیر رہے تھے اب ان کی جگہ ان کے بچوں نے لے لی ہے جو کہ وقت کے ساتھ جدید اسلوب کو اپنا کر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں- آج ہم آپ کو ایسے ہی کچھ گھرانوں کے بارے میں بتائيں گے-

1: نصرت فتح علی خان
نصرت فتح علی خان پاکستان کے عظیم گلوکار ، قوال اور موسیقار گزرے ہیں انہوں نے اپنے ابتدائی سفر کا آغاز روایتی قوالی سے ہی کیا مگر اس کے بعد وقت کے ساتھ ساتھ مغربی موسیقی کی آمیزش سے صوفیانہ کلام کو ایک نیا رنگ دیا- اس میں ان کا ساتھ پیٹر جبریل نامی ایک یورپی موسیقار نے دیا جس کے ساتھ مل کر انہوں نے دم مست قلندر کو ایک نئے رنگ میں پیش کیا- جس کے بعد انہوں نے ہالی وڈ اور بالی وڈ کی کئی فلموں کی بھی موسیقی دی- سولہ اگست 1997 میں حرکت قلب بند ہونے سے ہم سے جدا ہوئے- ان کی اولادوں میں صرف ایک ہی بیٹی تھی جس کا موسیقی کے شعبے سے براہ راست تعلق نہ تھا جس وجہ سے ان کی جگہ ان کے بھتیجے راحت فتح علی خان نے سنبھالی جو کہ ان کی زندگی میں ان کے ہمنوا کے طور پر ہر ہر جگہ ان کے ساتھ رہتے تھے ۔ راحت فتح علی خان نے بھی بحیثیت گلوکار پاکستان کے ساتھ ساتھ بالی ووڈ کی فلم انڈسٹری میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور نصرت فتح علی خان کے نام کو زںدہ رکھا-

image


2: غلام فرید صابری
غلام فرید صابری کا شمار پاکستان کے ان قوالوں میں ہوتا ہے جنہوں نے قوالی کے شعبے کو نیا عروج دیا صابری برادران نامی قوالوں کے گروپ کے سربراہ کے طور پر انہوں نے اپنے بھائی مقبول صابری کے ساتھ مل کر ایسی یادگار قوالیاں پیش کیں جن کو اب تک فراموش نہیں کیا جا سکا- جن میں تاجدار حرم ، بھر دے جھولی میری یا محمد قابل ذکر ہیں پانچ اپریل 1994 کو ہم سے جدا ہوئے- ان کی جدائی کے بعد ان کی جگہ ان کے بیٹے امجد صابری نے سنبھالی اور اپنے والد کے فن کو نہ صرف آگے بڑھایا بلکہ ان کا نام بھی روشن کیا- مگر بدقسمتی سے 22 جون 2016 کو نامعلوم افراد کی جانب سے گولیاں مار کر ان کو دہشت گردی کا نشانہ بنا دیا گیا- امجد صابری کے بچے ابھی چھوٹے ہیں اس وجہ سے ان کی جگہ اب تک خالی ہے-

image


3: امانت علی خان
امانت علی خان کا تعلق پٹیالہ گھرانے سے تھا انہوں نے کلاسیکل موسیقی کی بہت خدمت کی ہے اور ان کا گھرانہ قیام پاکستان سے قبل بھی کافی نامور تھا- 1974 میں ان کے انتقال کے بعد ان کے بھائی اسد امانت علی خان نے ان کے فن کو آگے بڑھایا جس میں ان کا ساتھ ان کے بھتیجے حامد علی خان نے بھی دیا- مگر اسد امانت علی خان کے انتقال کے بعد ان کے بھائی شفقت امانت علی خان نے یہ جگہ سنبھالی اور اب ان کے بیٹے سعادت امانت علی خان تیزی سے سامنے آرہے ہیں ۔ پٹیالہ خاندان کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ ان کے گھرانے کو سب سے زیادہ تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا ہے- اپنے خاندان کی مشہور غزل انشا جی اٹھو اب کوچ کرو کے حوالے سے ان کا یہ کہنا ہے کہ ان کے خاندان کے لیے یہ غزل بہت بدقسمت رہی اور جس گلوکار نے بھی یہ غزل گائی وہ ان کی آخری غزل ثابت ہوئی اور ان کا انتقال ہو گیا- اس وجہ سے ان کے بڑوں کی جانب سے اس غزل کے گانے پر پابندی لگا دی گئی ہے-

image


4: عطا اللہ خان عیسی خیلوی
عطا اللہ خان عیسیٰ خیلوی کا شمار پاکستان کے صف اول کے فوک گلوکاروں میں ہوتا ہے ان کے گائے گئے گیت مقبولیت کی انتہاؤں کو پہنچتے ہیں- حالیہ دنوں میں وہ کافی علیل ہیں مگر ان کی جگہ ان کے بیٹے سانول عطا اللہ نے لے لی ہے جو کہ اپنے منفرد اسلوب اور خوبصورت آواز کے ساتھ تیزی سے جگہ بنا رہے ہیں-

image


5: عالم لوہار
ہاتھوں میں چمٹا اور لبوں پر فوک گانے جگنی کا الاپ عالم لوہار کی شناخت تھا- انہوں نے اپنا یہ فن اپنے بیٹے عارف لوہار کو منتقل کیا جنہوں نے جگنی کو جدید موسیقی سے ہم آہنگ کر کے دنیا بھر میں مشہور کر دیا اور اب عارف لوہار نے اس فن کو اپنے بیٹوں تک منتقل کر دیا ہے اور ننھے لوہار اکثر پروگراموں میں اپنی آواز کا جادو جگاتے نظر آتے ہیں-

image
YOU MAY ALSO LIKE: