اس وقت،پاکستان اور افغانستان ہی میں پولیو کیسز رپورٹ
ہورہے ہیں،عالمی ادارہ صحت کسی بھی مُلک میں متواتر تین سال تک پولیو کا
کوئی کیس سامنے نہ آنے کی صُورت ہی میں،اُس مُلک کو”پولیو فری مُلک“ قرار
دیتا ہے۔پاکستان سے تاحال پولیو کا خاتمہ نہ ہونے کی کئی وجوہات ہیں، جن کے
باعث وطن سے پولیو کا خاتمہ ایک چیلنج بنتا جا رہا ہے۔ جن میں پہاڑی علاقوں
میں سفرکی دشواری، پولیو مہم ناکام بنانے کے لیے مختلف ہتھکنڈوں کا
استعمال،سکیوریٹی کی صُورتِ حال،پولیو ورکرز پر حملے اوران کیاغواجیسے
عوامل بھی انسدادِ پولیو مہم میں رکاوٹ کا سبب بن رہے ہیں۔
اور پھربہت سے افراد جانتے ہی نہیں، کہ پولیو کیا ہے، اس کے نقصانات کیا
ہیں،ہماری ذرا سی غفلت سے آنے والی نسل معذورہو سکتی ہے۔ہمیں بحسن ِو خوبی
علم ہو نا چاہیے کہ؛پولیو کیا ہے؟پولیو وائرس کی 3 اقسام ہیں جو انسانی جسم
میں میں منہ کے راستے داخل ہوتے ہیں، آنتوں میں جا کر اپنی تعداد بڑھانے کے
بعد خون کے ذریعے پٹھوں کو کنٹرول کرنے والے اعصابی خلیوں (neurons) میں
پہنچ کر ان کی تباہی کا باعث بنتے ہیں۔اس طرح ان اعصاب کے زیر کنٹرول پٹھے
بیکار ہو جاتے ہیں، یعنی اس حصے کا فالج ہو جاتا ہے۔
بیشتر کیسز میں یہ ٹانگوں کے اعصاب کو متاثر کرتے ہیں اور مریض چلنے سے
معذور ہو جاتا ہے۔عموماً کسی ایک طرف کی ٹانگ متاثر ہوتی ہے۔آنتوں سے یہ
وائرس پاخانے کے ذریعے جسم سے خارج ہوتا ہے اور استنجا ء کے بعد ہاتھ نہ
دھونے کی صورت میں یا پانی کے ناقص نظام نکاس کی وجہ سے بہت تیزی سے دوسرے
افراد تک پہنچ جاتا ہے.ابتدائی علامات تیز بخار، پٹھوں کا درد، سردرد، سستی
اور گردن کا تناؤ ہیں. اکثر کیسز میں جسم کی قوت مدافعت اسی سٹیج پر اس کا
خاتمہ کر دیتی ہے اور 0.5 فیصد کیسز میں ہی فالج تک نوبت پہنچتی ہے۔
یہ بیماری کسی بھی عمر میں لگ سکتی ہے، البتہ 3 سال سے کم عمر کے بچوں میں
اس کی شرح سب سے زیادہ ہے۔امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ بھی 1921ء میں اسی
بیماری کی وجہ سے فالج کا شکار ہو گئے تھے۔ وطن ِ عزیز میں کئی والدین بچوں
کو ویکسین پلانے سے انکاری ہوتے ہیں، جن کی بنیادی وجہ، وہ پولیو سے زیادہ
پولیو ویکسین سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔2019میں ایک صو بے میں 10 لاکھ 89 ہزار87
والدین نے اپنے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے سے انکار
کردیاتھا۔جبکہ اپریل میں سب سے زیادہ 6 لاکھ 94 ہزار 984 ویکسین سے انکاری
کیسز سامنے آئے تھے۔
20ویں صدی میں دُنیا کو جن بڑے چیلنجز کا سامنا تھا، ان میں ایک چیلنج
پولیو کا مرض تھا،جس سے ہرسال دُنیا بَھر میں ہزاروں بچّے معذور ہورہے
تھے۔اگرچہ؛ پچاس کی دہائی سے قبل بھی پولیو سے تحفّظ کے لیے ویکسینز متعارف
کروائی گئیں، مگر یہ تجربات کام یاب نہیں ہوسکے۔بالآخر،خاصی تحقیق کے بعد
1950ء میں مرض کے خلاف ایک موثر ویکسین دریافت کرلی گئی، جس کے بعد کئی
ترقّی یافتہ مُمالک”پولیو فِری“ ہوگئے، لیکن پھر بھی ترقّی پذیر اور تیسری
دُنیا کے مُمالک سے پولیو کا خطرہ نہیں ٹلا۔ستّر کے عشرے میں دُنیا بَھر
میں پولیو کے خلاف مختلف پروگرامز کا اجراء ہوا، جن کی بدولت ترقّی پذیر
مُمالک میں خاصی حد تک پولیو پر قابو پالیا گیا۔
ویکسین کیا ہوتی ہے:ویکسین وہ ذریعہ ہے جس میں بیماری پیدا کرنے والے
جراثیم ہی مردہ یا انتہائی کمزور حالت میں جسم میں داخل کیے جاتے ہیں۔یوں
وہ جسم کی قوت مدافعت کو اس بیماری کے خلاف متحرک کر دیتے ہیں. ہمارا
مدافعتی نظام انہیں پہچان لیتا ہے اوریاد رکھتا ہے۔بعد میں جب ماحول سے اس
بیماری کے جراثیم جسم میں داخل ہوتے ہیں تو مدافعتی نظام پہلے سے تیار ہوتا
ہے اور فوری جوابی حملہ کر کے جسم سے ان کا صفایا کر دیتا ہے.
1950 ء کی دہائی میں امریکہ میں پولیو کے اوسطاً 2000 کیسز سالانہ منظر عام
پر آتے تھے اور وبا کی صورت میں یہ تعداد 58000 سالانہ تک بھی ریکارڈ پر
موجود ہے۔
پولیو سے بچاؤ کی پہلی ویکسین جوناز سالک (Jonas Salk) نے بنائی جو 1955ء
میں امریکہ میں صدر روزویلٹ کی دسویں برسی کے موقع پر لانچ کی گئی۔یہ پولیو
کی تینوں اقسام کے مردہ وائرسز پر مشتمل تھی،اسے بندر کے گردوں میں تیار
کیا جاتا تھا۔یہ انجکشن کے ذریعے دی جاتی ہے،اس کے استعمال سے پولیو کیسز
کی سالانہ تعداد 1953ء میں 35000 سے گر کر 1957ء میں 5600 تک رہ گئی. اور
1961ء میں محض 161 کیسز رپورٹ ہوئے۔
اسی سال (1961ء) امریکہ ہی میں پولیو کی دوسری ویکسین تجرباتی مراحل سے گزر
کر سامنے آئی،یہ کمزور وائرسز پر مشتمل تھی اور اسے البرٹ سیبن (Albert
Sabin) اور ہلری کاپروسکی (Hillary Koprowsky) نے علیحدہ علیحدہ ٹیموں کے
ساتھ تیار کیا تھا. اس میں وائرس کو چوہوں سے بار بار گزار کر کمزور کیا
جاتا تھا۔
آج کل یہ ویکسین لیب میں انسانی خلیوں سے گزار کر تیار ہوتی ہے۔پاکستان میں
دستیاب ویکسین اقوام متحدہ فراہم کرتی ہے جو کہ نووارٹس کمپنی بیلجیم میں
تیار کرتی ہے، جبکہ بھارت میں کئی ایک کمپنیاں اسے خود تیار کرتی ہیں۔
ابتدا میں اس میں تینوں اقسام کے وائرس تھے،لیکن پاکستان میں اب ٹائپ 2 کے
خاتمے کے بعد موجودہ ویکسین ٹائپ 1 اور 3 کے خلاف بنائی جاتی ہے۔
اس وقت کیونکہ امریکہ کی مکمل توجہ سالک ویکسین پر تھی، لہٰذا سیبن نے اپنی
ویکسین روس میں اور کاپروسکی نے جنوبی افریقہ اور میکسیکو میں لانچ کی ہر
جگہ اس کے بہترین نتائج سامنے آئے سیبن پولش نژاد امریکی شہری تھا لیکن سرد
جنگ کے باوجود روس نے اسے اپنے اعلی ترین سول اعزاز سے نوازا۔1963ء میں
امریکہ میں بھی اسے استعمال کی منظوری مل گئی اور 1965ء تک تقریباً 100
ملین امریکیوں کو اس ویکسین کے قطرے پلائے گئے. یوں نتیجتاً شمالی امریکہ
میں پولیو کا آخری کیس 1979ء میں رپورٹ ہوا اور 1994ء تک جنوبی امریکہ سے
بھی اس کا خاتمہ ہو چکا تھا.
2002ء تک تمام مغربی اور ترقی یافتہ ممالک سے اس ویکسین کی بدولت پولیو کے
مرض کا خاتمہ ہو چکا تھا بھارت کو 2014ء میں پولیو فری قرار دے دیا گیا. اس
کے بعد نائجیریا جیسے ملک نے بھی پولیو سے نجات حاصل کر لی تھی۔
ویکسین کی خاص بات یہ ہے کہ یہ آنتوں سے خارج ہو کر پانی کے ذریعے کمیونٹی
میں پھیل جاتی ہے اور ان لوگوں کو بھی بالواسطہ طور پر فائدہ پہنچاتی ہے
جنہوں نے خود یہ قطرے نہیں پیے ہوتے. یہی وجہ ہے کہ پولیو کے مکمل خاتمے کے
لیے انجکشن والی ویکسین کے بجائے اسے خاص اہمیت دی جاتی ہے. اور پھر انجکشن
کی نسبت اسے دینا بھی آسان ہے۔
آج دنیا میں صرف پاکستان اور افغانستان ہی دو ایسے ممالک ہیں جہاں پولیو کی
بیماری باقی ہے،حکومت کی پوری کوشش تھی کہ 2016ء تک اس پر قابو پا لیا
جائے۔لیکن تاحال پولیو کے نئے کیسز سامنے آنا باعث تشویش ہے۔پولیو سے متعلق
ہمارے ہاں بہت زیادہ ابہام پایا جاتا ہے کچھ سازشی تھیوریوں نے، کچھ ہماری
لاعلمی، عدم توجہی سے پاکستان میں پولیو کے خاتمے کے کوششوں کو ناقابل
تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی اور وسائل کی کمی صحت کی بنیادی
سہولتوں کی فراہمی میں رکاوٹ کا بڑاسبب ہیں۔ چوں کہ آبادی کے لحاظ سے
اسپتال کم ہیں اور بڑے سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کا رش رہتا ہے، تو ان
اقدامات کے ذریعے عوام کو علاج معالجے کی معیاری سہولتیں دستیاب ہوں
گی۔عالمی بینک کے مطابق پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی کے پیشِ نظر صحت کی
بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے زیادہ سالانہ بجٹ مختص کرنے کی ضرورت ہے
کہ پاکستان خطّے کے مُمالک میں صحت کی مد میں سب سے کم بجٹ خرچ کرنے والا
مُلک ہے۔
اسی حوالہ سے 17تا 20فروری 2020انسداد پولیو مہم شروع ہے، اس میں ہمیں مُلک
کے تمام بچّوں کو پولیو جیسے موذی مرض سے بچانا ہوگا، تاکہ وہ مُلک وقوم کی
ترقّی و خوش حالی میں اپنا بَھرپور کردار ادا کرسکیں۔ اس کے لیے اُن والدین
کو قائل کرناہوگا، جو پولیو ویکسین پر شکوک وشبہات کا اظہار کرتے ہیں۔ ان
حقائق سے روشناس کرنا ہمارا فرض ہے۔ اگر ہم اس مہم میں تعاون کریں اور اپنی
ذمہ داری پوری کریں تو 2021ء کے موسم ِسرما اور 2022ء کے اوائل تک پاکستان
سے مکمل طور پر پولیو کا خاتمہ ہوجائے گا۔ ان شاء اللہ
|