یہ کوئی علمی تحریر نہیں ہے اور نہ کوئی علمی بحث ہے،
یہ وہ سوال ہیں جو کبھی میرے ذہن میں تھے، اور مجھے پریشان کرتے تھے، اور
جن کے جواب مجھے میری طلب کے مطابق مہیا کر دئیے گئے.
جب آپ اس رستے کو چنتے ہیں تو پہلے ذہن بھٹکتا ہے، عجیب سی الجھنیں ہوتی
ہیں، کچھ ایسے سوال سر اٹھاتے ہیں، جن کے جواب عام انسان دینے سے قاصر ہوتے
ہیں، اور پھر جب آپکی طلب بڑھتی ہے تو “اللہ تعالٰی” کی طرف سے جواب ملنا
شروع ہو جاتے، کبھی کسی تحریر کی صورت میں، کبھی کسی کلام کی صورت میں اور
کبھی کسی واقعہ کی صورت میں…
شرط یہ ہے کہ،
طلب………..اور………..پیاس ہونا ناگزیر ہے.
یہ وہ سوال ہیں جو میرے ذہن میں اٹھے، اور بعد میں مجھ سے لوگوں نے کئے.
مرشد کون ہوتا ہے؟؟
مرشد کیسے چنا جائے؟؟
مرشد سے محبت کیسے ہوتی ہے؟؟؟
مرشد سے فیض کیسے حاصل کیا جائے؟؟
یہ کیسے معلوم ہو کے مرشد نے ہمیں قبول کر لیا؟؟؟
مرید اور پیر کا رشتہ کیسا ہوتا ہے؟؟
اور اس بارے میں بہت سے ایسے دیگر سوالات……..؟؟؟
ان کے جوابات سے پہلے آگے اس پیرا گراف کو پڑھ کر سمجھ لیں، تو بہت سی
باتوں کا جواب مل جائے گا.
یہ اپنی اپنی نظر کی طاقت ہے کہ فقیر کو ولی اولیاء یا قلندر یا غوث یا قطب
یا عام آدمی سمجھے، یہ تو دیکھنے والے کی نظر میں محنت، محبت، پیار تن سیوا
ہوتی ہے، یہ وہی بھانپ سکتا ہے. عام آدمی کو عام آدمی لگتا ہے اور خاص کو
خاص آدمی لگتا ہے اور خاص و خاص کو قلندر نظر آتا ہے، یہ سب رتبے ماننے کے
ہیں، دیکھ لینے کے ہیں، محسوس کر لینے کے ہیں، آزما لینے کے ہیں، سننے
سنانے کی بات نہیں.
جس دن انسان کے دل میں یہ لگن پیدا ہوتی ہے کہ مجھے ایک کامل رہنما کی
ضرورت ہے، اسی دن یہ سفر شروع ہو جاتا ہے. اسی دن آپ کا اپنے مرشد کی طرف
پہلا قدم اٹھ جاتا ہے. پھر جیسے جیسے طلب بڑھتی ہے، راستہ طے ہوتا جاتا ہے.
اور ایک دن قدرت آپ کو آپ کے مرشد کریم کے سامنے پیش ہونے کا موقع فراہم کر
دیتی ہے۔
پھر جب آپ آمنے سامنے ہو جاتے ہیں اور آپ پر نگاہِ قدسیہ پڑتی ہے تو آپکے
دل کی صفائی شروع ہوتی ہے. آپ کے دل میں محبتِ مرشد کی لو سلگتی ہے. پھر آپ
کو اس ہستی، جس کو آپ نے ابھی مرشد چنا نہیں، ابھی صرف ملاقات ہوئی.
اس ہستی کو دیکھنا، سننا، ان کی خدمت کرنا، ان کے پاس وقت گزارنا اچھا لگتا
ہے….اور یہ محبت کی لو وقت کے ساتھ جب تیز ہوتی جاتی ہے تو آپ کو اس ہستی
کو بار بار دیکھنے کی، ان سے ملنے کی بے چینی ہوتی ہے، اور رفتہ رفتہ یہ
پیاس بڑھنے لگتی ہے، ان کا قرب خوشی دیتا ہے، دوری درد کا باعث بنتی ہے،
اور آپ کو تخیل کی دنیا میں ہر طرف وہ ہستی نظر آنے لگتی ہے، تصورِ
مرشد……..پکا ہونے لگتا ہے، آنکھیں بند ہوں تو بھی مرشد کا ہی چہرہ نظر آتا
ہے.
پھر یہ خیال کسی وحی کی طرح آپ کے دل پر اتارا جاتا، کہ یہ ہی وہ ہستی
ہے……جس کی طلب کی چنگاری تمہارے دل میں لگائی گئی تھی…..
پھر مرشد اپنا کام شروع کرتا ہے. دل کی وہ تختی جو انفرادی گناہوں کی وجہ
سے سیاہ ہو چکی ہوتی ہے. جس پر کچھ لکھا نظر نہیں آتا، مرشد اپنی نظر کرم
سے تمام انفرادی برائیوں کو ختم کر کے اس تختی کو صاف کرتا ہے. اور پھر اس
پر………عشق کی الف……ب……لکھتا ہے.
یکسوئی کے رنگ سے عشق کی سیج سجاتا ہے، ذکر کے پھول بچھاتا ہے، دل کا آئینہ
ذکرِ الہی سے جگمگانے لگتا ہے، اس میں مرشد کا چہرہ نظر آنے لگتا ہے، پھر
مجلس محمدی صلی اللہ علیہ وسلم تک رسائی دلواتا ہے.
اس سارے عمل میں ادب…..طلب…..محبت…..یکسوئی ضروری ہوتی ہے اور ذاتی غرض سے
پاک ہونا پڑتا ہے.
پیر اور مرید کا رشتہ ایسا ہی ہونا چاہئیے، جیسے روح اور جسم کا رشتہ ہوتا
ہے، دونوں ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہوتے ہیں، اگر ایک نہ ہو تو دوسرے
کا ہونا بے مقصد ہوتا ہے.
مرید کی اپنے مرشد کے لئے محبت ایسی ہونی چاہیئے کہ ‘میں صدقے آپ پر’ سے
بات شروع ہو اور جو حکم آپ کا پر بات اختتام پذیر ہو.
جتنی زیادہ اور گہری عقیدت. اور محبت ہو گی، اتنا ہی زیادہ فیض بھی نصیب ہو
گا.
مرید کو کوشش کرنی چاہیئے کہ وہ زیادہ سے زیادہ صحبتِ مرشد اختیار کرے،
تاکہ دیدار بھی نصیب ہو، خدمتِ مرشد بھی اور واپسی پر جھولی میں فیض بھی.
میرا یہ کہنا ہے کہ مرشد سے فیض آپ اپنی طلب اور شوق کے مطابق ہی لیتے ہیں،
جتنی طلب اتنا فیض.
مرید کا تعلق اپنے مرشد کے ساتھ ایسا ہونا چاہیئے جیسا امیر خسرو کا اپنے
پیر و مرشد حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ سے تھا.
اور جب مرشد آپ کو قبول کر لیتا ہے، تب یہ سارے راستے ایسے ہی طے ہوتے ہیں
جیسے ہاتھ پکڑ کے کوئی رستہ دکھا رہا ہو، اور منزل کا پتہ بتا رہا ہو، کچھ
کرنے کی کوشش نہیں کرنا پڑتی، سب کچھ خود بخود ہی ہوتا چلا جاتا ہے، اور
پھر آپ کی تیسری آنکھ پر پڑا پردہ اٹھا دیا جاتا ہے.
“اللہ تعالٰی” سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہمارے پیر و مرشد سے فیضیاب ہونا نصیب
فرمائے اور ہمارے دل کا آئینہ ایسے ہی صاف اور ہر گرد سے پاک رہے. آمین!
|