ہر انسان کو وہی ملتا ہے ، جس کا وہ استحقاق رکھتا ہے
۔مثل مشہور ہے ’جیسی روح، ویسے فرشتے‘۔ نکاح اور شادی بیاہ میں جوڑ تلاش
کرنا بھی اسی لیے ہوتاہے ۔ اگر مناسب جوڑ نہ ہو تونکاح کے باوجود فریقین
میں تفریق کی نوبت آجاتی ہے ۔ مَرد بہت نیک اور دین دار ہو اور عورت خبیث
ہو،یا عورت بہت نیک اور دین دار ہو اور مرد خبیث ہو، تو باوجود کوشش کے ان
میں تال میل نہیں بیٹھتا۔ قدرے تفاوت کی بات اور ہے ۔بعض مسلمان لڑکیاں
ڈاڑھی والے یا متشرع لڑکے سے نکاح کرنے سے صاف انکار کرتی ہیں یا بعض
مسلمان لڑکے متشرع لڑکی سے نکاح کرنا پسند نہیں کرتے ، اس کا ایک سبب تو یہ
ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ ان کا نباہ ہونا دشوار ہے اور اصل سبب یہ ہے کہ اﷲ
تعالیٰ کے یہاں عام قاعدہ یہ ہے کہ گندی عورتوں کے لیے گندے مرد اور گندے
مَردوں کے لیے گندی عوتیں مقدر ہیں ۔اگر بہ طور استثنا یا کسی کے کہنے سننے
سے اس کے خلاف کسی کا نکاح ہو بھی جائے تو وہ ازدواجی زندگی کی حقیقی
خوشیوں سے محروم رہے گا۔کیوں کہ ضابطہ یہی ہے ، البتہ استثنا سے انکار نہیں
کیا جا سکتا۔نیز جو لڑکے اور لڑکیاں دین داری کی بنا پر رشتے ٹھکراتے ہیں،
وہ اپنے زوج (پارٹنر) سے بھلائی کی امید نہ رکھیں تو ہی بہتر ہے ، جو اپنے
خالق و مالک کا نہ ہوا، وہ آپ کا کیا ہوگا؟ رسول اﷲ ﷺ نے تو رشتے کے انتخاب
میں دین داری کو بنیاد بنانے کی تلقین کی، لیکن ہمارا معاملہ بر عکس ہو
گیا۔اﷲ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے ۔ آمین
موجودہ حالت
آج کا نوجوان نکاح کیے بغیر ہی ہر وہ کام کرنا چاہتا ہے جو نکاح کے بغیر
جائزہی نہیں۔ زیرِ تعلیم طلبہ جو معنوں میں نکاح کا مطلب تک نہیں سمجھتے ،
وہ اپنا لائف پارٹنر قبل از وقت چُن لیتے ہیں اور اس امید پر کہ اسی سے
شادی کرنی ہے ، بہت کچھ کر گزرتے ہیں۔ اس میں کچھ تو واقعی تفریح اور شہوت
کے خوگر ہوتے ہیں اور کچھ نکاح کا پختہ عزم رکھ کر اس ناجائز محبت کے جواز
کے حیلے کرتے ہیں۔ لیکن گرل فرینڈ بائے فرینڈ کا رلیشن تو کجا منگنی اور
رشتہ طے ہو جانے کے بعد بھی جب تک بہ طور نکاح شرعی ایجاب و قبول نہ ہو
جائے ، لڑکا لڑکی آپس میں اجنبی رہتے ہیں۔ ان کا گفتگو کرنا، ملنا جُلنا
اور گھومنا پھرنا سب شریعت کی رو سے ناجائز اور حرام ہے ۔ اگر آگے چل کر
اسی سے نکاح کر بھی لیا تو نکاح سے قبل کی ہوئی ان حرام کاریوں کا گناہ سر
پر باقی رہے گا۔حیرت تو اُن لوگوں پر ہے جو اِدھر اُدھر منہ مارنے کے بعد
یہ تمنا کرتے ہیں کہ ان کا نکاح ایسے پاک باز شخص سے ہو جو ان تمام برائیوں
سے دور ہو۔ جب کہ ضابطہ یہ ہے کہ مرد جیسا ہوگا،اسے ویسی ہی عورت ملے گی۔
یا عورت جیسی ہوگی، اسے ویسا ہی مرد ملے گا۔
ارشادِ خداوندی
ارشادِ خداوندی ہے :اَلْخَبِیْثٰتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ وَالْخَبِیْثُوْنَ
لِلْخَبِیْثٰتِ،وَالطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیْنَ وَالطَّیِّبُوْنَ
لِلطَّیِّبٰتِ، اُولٰئِکََ مُبَرَّء ُوْنَ مِمَّا یَقُوْلُوْنَ،لَھُمْ
مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیْمٌ۔گندی عورتیں گندے مَردوں کے لائق ہیں اور
گندے مرد گندی عورتوں کے لائق۔ اور پاک باز عورتیں پاک باز مَردوں کے لائق
ہیں اور پاک باز مرد پاک باز عورتوں کے لائق ۔ یہ (پاک باز مرد اور عورتیں)
ان باتوں سے بالکل مبرا ہیں جو یہ لوگ بنا رہے ہیں۔ ان کے حصے میں تو مغفرت
ہے اور باعزت رزق۔ (النور)یہ آیت حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی براء ت میں
نازل ہوئی تھی۔ یہاں الخبیثات سے مراد بدکار عورتیں ہیں اور الطیبات سے
مراد پاک دامن عورتیں ہیں۔ اسی طرح الطیبون اور الطیبات ہے ۔ بعض اہلِ
تحقیق نے کہا کہ حضرت یوسفؑ پر تہمت لگائی گئی تو اﷲ نے ایک شیر خوار بچے
کی زبان سے آپ کی براء ت کی جو پنگھوڑے میں تھا اور حضرت مریمؑ پر تہمت
لگائی گئی تو ان کے بیٹے حضرت عیسیٰؑ کی زبان سے براء ت کی۔ لیکن حضرت
عائشہ رضی اﷲ عنہا پر تہمت لگائی گئی تو اﷲ تعالیٰ نے خود قرآن کے ذریعے آپ
کی براء ت کی۔ اﷲ تعالیٰ حضرت عائشہ کی براء ت کے لیے کسی بچے اور نبی کی
براء ت کے ساتھ راضی نہ ہوا، یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے کلام کے ذریعے
بہتان اور تہمت سے آپ کی براء ت فرمائی۔ (تفسیرِ قرطبی)
اس آیت میں اول تو عام ضابطہ یہ بتلا دیا گیا کہ اﷲ تعالیٰ نے طبائع میں
طبعی طور پر جوڑ رکھا ہے ۔ گندی اور بدکار عورتیں بدکار مَردوں کی طرف اور
گندے بدکار مرد گندی بدکار عورتوں کی طرف رغبت کیا کرتے ہیں۔ اسی طرح پاک
صاف عورتوں کی رغبت پاک صاف مَردوں کی طرف ہوتی ہے اور پاک صاف مَردوں کی
رغبت پاک صاف عورتوں کی طرف ہوا کرتی ہے اور ہر ایک اپنی اپنی رغبت کے
مطابق اپنا جوڑ تلاش کرتا ہے اور قدرتاً اس کو وہی مل جاتا ہے ۔ اس عام
عادتِ کلیہ اور ضابطے سے واضح ہوگیا کہ انبیاعلیہم السلام جو دنیا میں پاکی
اور صفائی ظاہری و باطنی میں مثالی شخصیت ہوتے ہیں، اس لیے اﷲ تعالیٰ ان کو
ازواج بھی ان کے مناسب عطا فرماتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اﷲ ﷺ جو
تمام انبیا کے سردار ہیں ان کو ازواجِ مطہرات بھی اﷲ تعالیٰ نے پاکی اور
صفائی ظاہری اور اخلاقی برتری میں آپ ہی کی مناسبِ شان عطا فرمائی ہیں اور
صدیقہ عائشہ ان سب میں ممتاز ہیں۔ ان کے بارے میں شک و شبہ وہی کرسکتا ہے
جس کو خود رسول اﷲ ﷺپر ایمان نہ ہو۔(دیکھیے معارف القرآن)
ایک اشکال اور اس کا جواب
حضرت نوح، حضرت لوط علیہما السلام کی بیویوں کے بارے میں جو قرآن مجید میں
ان کا کافر ہونا مذکور ہے تو ان کے متعلق بھی یہ ثابت ہے کہ کافر ہونے کے
باوجود فسق و فجور میں مبتلا نہیں تھیں۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا :ما بغت
امراۃ نبی قط، یعنی کسی نبی کی عورت نے کبھی زنا نہیں کیا۔ اس سے معلوم ہوا
کہ کسی نبی کی بیوی کافر ہوجائے اس کا تو امکان ہے ، مگر بدکار فاحشہ
ہوجائے یہ ممکن نہیں۔ کیوں کہ بدکاری طبعی طور پر موجبِ نفرتِ عوام ہے ،
کفر طبعی نفرت کا موجب نہیں۔(معارف القرآن)
آج معاشرے میں یہ مرض عام ہے ۔ خود کو مومن اور مسلمان کہنے والے فحش،
بدکاری اور زنا کرنے والوں پر فریفتہ ہیں اور اسے برا بھی نہیں سمجھتے ۔ اﷲ
تعالیٰ ہی ہمارے حال پر رحم فرمائے ۔ آمین
(مضمون نگار الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا کے ڈیریکٹر ہیں)
|