عام آدمی کو جہاں کمر شکن مہنگائی نے مشکلات سے دوچار کر
رکھا ہے وہیں حکومت کے لئے عوام کو درپیش اس مسئلہ کو حل کرنا ایک ٹیسٹ کیس
بن چکا ہے صورتحال یہ ہے کہ عام شہری اور تنخواہ دار طبقہ مہنگائی کی شرح
میں تکلیف دہ اضافہ کے باعث اس گرداب میں اس حد تک دھنس چکا ہے کہ اسے
اشیائے ضروریہ خریدنے کے لئے سو بار سوچنا پڑتا ہے۔جب تک حکومت عوام کو
مہنگائی کے اس گرداب سے نکالنے کے لئے ٹھوس عملی اقدامات نہیں اٹھائے گی تب
تک عام آدمی کی سانسوں پر لگی گرہ نہیں کھل سکتی حالات اس نہج پر پہنچ چکے
ہیں ایک عام آدمی کے سامنے مسائل کے کوہ ہمالیہ کھڑے ہو چکے ہیں جن کو سر
کرنا اس کے لئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔مہنگائی کی شرح میں اس خوفناک
اضافہ کے باعث غربت اور بے روزگاری کی جو ایک نئی لہر جنم لے رہی ہے اس سے
حکومت کے لئے مزید مشکلات پیدا ہونگی افراط زر کو کم یا کنٹرول کرنے کے لئے
حکومت کبھی بے بس نہیں ہوتی کیونکہ دنیا میں بھی ایسے چیلنجز سر اٹھاتے
رہتے ہیں لیکن اس سے نمٹنے کے لئے ریاستی ادارے حرکت میں آتے ہیں ۔پاکستان
میں بھی یہ صورتحال دنیا کے دوسرے ممالک سے مختلف نہیں لیکن بد قسمتی سے
پاکستان میں اقتدار سے چمٹے رہنے والے سدا بہار الیکٹیبلز کی ایک ایسی کھیپ
ہمیشہ سے موجود رہی ہے جو اقتداری ایوانوں میں وزیر‘مشیرکی حیثیت سے
براجمان ہوتے ہیں اور یہی صورتحال موجودہ حکومت کی بھی ہے وہی مشیر وزیر جو
ماضی کی حکومتوں میں رہ کر عوام کے مسائل میں اضافہ کا سبب بنتے رہے ہیں آج
بھی ان کے دئیے جانیوالے بیانات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں ادراک ہی
نہیں کہ مہنگائی کی وجہ سے جو بحران جنم لے چکا ہے اس کی نوعیت کیا ہے تو
ایسی حکومتی کابینہ سے مستقبل میں کیا امید کی جا سکتی ہے۔ملک میں آٹے کی
قیمتوں میں حالیہ اضافہ کے باعث جو بحران آیا اس پر ماہریں کے مطابق
توانائی‘آمدورفت اور گندم کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے بحرانی کیفیت پیدا
ہوئی لیکن صوبائی وزیر خوراک کا کہنا تھا کہ کوئی بحران نہیں آیا صورتحال
کے بر عکس وزراء کے ایسے غیر ذمہ دارانہ بیانات حکومت کی کس قسم کی کیفیت
کی غمازی کرتے ہیں۔پاکستان میں شماریات کے سرکاری ادارے نے سال 2019ء میں
جو اعداد و شمار جاری کئے تھے ان کے مطابق ملک میں افراط زر کی شرح گذشتہ
پانچ برس کے دوران بلند ترین سطح پر پہنچ گئی افراط زر(مہنگائی) میں اتنا
اضافہ ماضی میں دیکھنے کو آیا گذشتہ حکومت میں افراط زر کی شرح تین سے پانچ
فیصد تھی جبکہ موجودہ حکومت میں افراط زر کی شرح نو فیصد تک پہنچ چکی
ہے۔وزیر اعظم کے متعدد بیانات ملک میں موجود مافیاز کے خلاف ریکارڈ پر ہیں
دنیا میں کاروباری گٹھ جوڑ یا اجارہ داری قائم کرنا خاصی پرانی روایت ہے
ملک میں آٹے اور چینی کی قیمتوں سے جو بحران آیا اس بحران کا ذمہ دارت بھی
ان کو ٹھہرایا گیا جن کو وزیر اعظم اور ان کی کابینہ میں شامل وزراء مافیا
قرار دیتے ہیں۔جب بھی کسی شعبے یا صنعت میں کچھ مخصوص افراد یا کمپنیاں
ضرورت سے زائد منافع یا اجارہ داری قائم کرنے کے لئے گٹھ جوڑ کرتی ہیں تو
دنیا کے مختلف ممالک میں اس رجحان کے تدارک کے لئے قواعد و ضوابط اور
قوانین موجود ہیں اسی طرح پاکستان میں بھی اس رجحان پر نظر رکھنے کے لئے
حکومت کی جانب سے قائم کیا جانیوالا مسابقتی کمیشن موجود ہے جو آج سے تیرہ
سال قبل ایک صدارتی آرڈی ننس کے تحت وجود میں آیا اور 2010ء میں پارلیمان
سے باقاعدہ منطور ہوا تھا اس مسابقتی کمیشن کے دائرہ کار میں زائد منافع
کیلئے کاروبار میں گٹھ جوڑ قائم کر کے مصنوعی قلت پیدا کرنیوالوں کیخلاف
کارروائی کرنا ہے اس کمیشن نے گذشتہ بارہ سالوں میں مختلف سیکٹرز میں گٹھ
جوڑ‘ذخیرہ اندوزی‘اور اجارہ داری کے غلط استعمال پر کارروائی کرتے ہوئے
2399 آرڈرز جاری کئے اور مختلف سیکٹرز پر ستائیس ارب روپے کے قریب جرمانے
عائد کئے لیکن ملک میں یہ مافیا اتنا طاقتور ہے کہ انہوں نے اس مسابقتی
کمیشن کے فیصلوں کو ملک کی مختلف عدالتوں میں چیلنج کیا ہوا ہے۔ملک کی
مختلف عدالتوں میں ان زیر التواء کیسز کی تعداد 127ہے جن میں شوگر ملز کیس
بھی شامل ہے جو 2009ء سے سندھ ہائیکورٹ میں زیر التوا ہے یہاں تک کہ اس منہ
زور مافیا نے لاہور ہائیکورٹ میں اس مسابقتی کمیشن کی آئینی حیثیت کو بھی
چیلنج کیا ہوا ہے۔اس کمیشن نے گذشتہ سال دسمبر میں آٹے کی قیمتوں میں اضافہ
کا نوٹس لیتے ہوئے پاکستان فلور ملز ایسو سی ایشن کو ساڑھے سات کروڑ روپے
جرمانہ عائد کیا لیکن اس جرمانی کو کمپیٹیشن ایپیلیٹ ٹربیونل میں چیلنج کر
دیا گیا المیہ یہ ہے کہ جس ٹربیونل کا کام ان اپیلوں کی سماعت کرنا ہے وہ
ایک سال سے غیر فعال ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے ٹربیونل کے
ایک ممبر کی ایک خالی آسامی کو پر نہیں کیا گیا اور یہ آسامی جنوری 2019ء
سے خالی ہے سڑف دو ممبران اپنے عہدے پر کام کر رہے ہیں اور کورم پورا نہ
ہونے کے باعث ان آرڈرز کیخلاف اپیلوں پر فیصلے نہیں ہو پا رہے جو کہ سی سی
پی کے آرڈرز کے نفاذ میں تاخیر کا سبب بن رہے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت
اس مافیا کو کنٹرول کرنے کے لئے اپنے اقدامات کی بدولت کہاں کھڑی ہے اس
مافیا کو کنٹرول کرنے کے لئے انتظامی اور آئینی سقم کو دور کرنے کی اشد
ضرورت ہے اس مسابقتی کمیشن کو مضبوط کرنے کے لئے اس کے عدالتی نظام کو بھی
دوام بخشنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ کمیشن اپنے قواعد و ضوابط اور آئین کی خلاف
ورزی کرنے والوں کے خلاف عملا حرکت میں آسکے۔اگر دیکھا جائے تو اس کمیشن کی
کارکردگی کے علاؤہ بھی ایسے محرکات ہیں جو مہنگائی میں اضافہ کا سبب بن رہے
ہیں جن میں شرح سود میں اضافہ‘ٹیکسز کا بوجھ‘ضلعی پرائس کنٹرول کمیٹیوں کا
غیر فعال ہونا‘اور حکومت کی انتظامی معاملات میں سست روی شامل ہے اور یہی
وجہ ہے کہ انتظامہ معاملات سست روی کی وجہ سے ملک میں موجود یہی طاقتور
مافیا پہلے گندم اور چینی برآمد کرکے منافع کمایا اور اب یہی مافیا یہی
اشیاء درآمد کر کے منافع کما رہے ہیں روان سال جنوری کے اعداد و شمار کے
مطابق اشیائے خوردو نوش میں بیس فیصد اضافہ ہوا جس کی وجہ سے عام آدمی کی
دراز سانسیں محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ حکومت کی جانب سے مہنگائی کم کرنے کے
اقدامات اپنی جگہ مہنگائی کی شرح میں ہونیوالے اضافہ کے محرکات پر بھی نظر
رکھنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ایسا کوئی بحران جنم نہ لے جو عام آدمی کے ساتھ
ساتھ حکومت کی بنیادوں کو غیر مستحکم کرنے کا باعث بنے بنیادی ضروریات
زندگی کی سہولیات شہریوں کو بہم پہنچانا ریاست کی ذمہ داری میں شامل ہے کسی
بھی ملک کی عوام کا خوشحال ہونا اس ملک کی ترقی و خوشحالی کی دلیل ہوتا ہے
بہر حال اب اٹھارہ سالہ حکومت کو عوام کو ریلف فراہم کرتے ہوئے اس کی اشک
شوئی کرنے کی ضرورت ہے۔ |