دافع رنج و غم ہر کرب و بلا، اک نسخۂِ کیمیا

انسانی فطرت کا تقاضا ہے روزِ ازل سے انسان سکون اطمینان اور خوشیوں کا متلاشی رہا،اور اس مقصد کے لئے نہ صرف وہ ہر طرح کے جتن کرتا آیا ہے، بلکہ انہیں ہر مول اور ہر قیمت میں خریدنے کی بھی بھرپور کوشش کرتا ہے، لیکن آج کے اس موجودہ دور میں چہار سُو جس طرح سے پریشانیوں،غموں اور دکھوں کےکالے سیاہ بادل چھائے ہوئے، ہیں اور جس طرح سے ہمارے معاشرے کا ہر فرد نفسیاتی دباؤ، ذہنی انتشار اور اندرونی خلفشار کا شکار ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بحیثیت مسلمان کوئی وجہ تو ہے جو ہماری اس طرزِ معاشرت میں افراتفری اور بحرانی کیفیات برپا کئے ہوئے ہے-

آج اسلام کی دولت اور ایک مکمل نظامِ زندگی ہونے کے باوجود ہماری تہذیبی و معاشرتی حالت یہ ہے کہ عامل پیر ،بابے ، نجومی اور جوتشی جگہ جگہ ٹینشن بھگاؤ سینٹرز کھول کے بیٹھے ہیں ، جو دن رات "ہر مشکل کا حل" ، "ہر کامیابی کا راز " وغیرہ وغیرہ جیسے دعووں سے نہ صرف فیض بانٹتے پھر رہے ہیں، بلکہ تمام طرح کی بیماریوں ، مصائب و مشکلات کے علاج بھی ایجاد کر چکے ہیں، اب یہ الگ بات ہے کہ ان کے اس فیض سے کسی اور کو افاقہ ملے نہ ملے ان کی اپنی پریشانیاں اور غم ضرور دور ہو جاتے ہیں،بلکہ اس وقت تو یہ دھندہ جدید اور ماڈرنائز خطوط پر استوار ہو کر ایک انڈسٹری کی صورت اختیار کر چکا ہے،بحرحال یہ ایک مختلف ، الگ اور بڑا موضوع ہے،جس پر پھر کبھی ضرور بات ہو گی، فی الوقت ہمارا موضوع ایک اینٹی ڈپریشن،اینٹی اینگزائٹی اور اینٹی سٹریس دوا اور بےچین دلوں کا چین ،اور بےقرار روحوں کی غذا یعنی نماز ہے-

بحیثیت مسلمان نماز کو ہماری زندگیوں میں بڑی اہمیت حاصل ہے، یہ ایکہ ایسا تحفہِ خداوندی ہے جو حقیقی معنوں میں کامیابی اور شفا کا ضامن ہے،جو لوگ باقاعدگی سے نماز ادا کرتے ہیں، وہ اس کی لذت،چاشنی، لطف اور سرُور کو اچھی طرح محسوس کر سکتے ہیں، میں کوئی عالم نہیں اور نہ ہی کوئی داعی یا مبلغ ہوں کہ اس پر قرآن و حدیث یا آئمہ و محدثین کے اقوال و فرامین کی روشنی میں اس کی برتری و اہمیت ثابت کروں ،اور ویسے بھی اس موضوع پر اس انداز سے بہت کچھ لکھا جا چکا ہے،اور لکھا جا رہا ہے، اور اس حوالے سے ایک دلچسپ اور حقیقی امر یہ بھی ہے کہ نماز کی ادائیگی کے طریقہ کار کے سوا اس کی فرضیت پر تمام مسالکِ اسلامیان کا نہ صرف اتفاق ہے،بلکہ تمام مسالک نماز کی ادائیگی کو غیر معمولی اہمیت بھی دیتے ہیں-

نماز خالقِ کائنات سے تعلق کا ایک دیرینہ ذریعہ ہے،اور عبادات میں سب سے اہم عبادت ہے ، اس کے ساتھ ساتھ نماز کی رُوحانی و اِیمانی برکات بھی اپنی جگہ مسلّم ہیں، لیکن سرِدست ہمارا موضوع انسان کی ذھنی و جسمانی صحت پر خشوع و خضوع سے ادا کی گئی نماز کے اثرات اور جدید طبی تحقیقات کی رو سے اس کے ثمرات کا جائزہ لینا ہے-

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر سطح کی برائیاں ،عیب اور نقص انسانی زندگی میں ذھنی انتشار اور نفسیاتی بگاڑ کا سبب بنتے ہیں ، اور ماہرینِ نفسیات کے مطابق انسان کا یہ اندرونی خلفشار ہی انسان میں رنج ،الم ،اور حزن و ملال کی کیفیات برپا کرتا ہے، اسی طرح جدید طبی ماہرین کے مطابق طہارت پاکیزگی اور نفاست نہ صرف انسانی ذھن پر انتہائی مثبت اور خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے،بلکہ اسے آزردگی اور بے سکونی کی کیفیات سے بھی نجات دلاتی ہے- ان حقائق کے پیشٍ نظر بلاشبہ یہ دعوے سے کہا جا سکتا ہے کہ نماز انسان کو ہر طرح کی ذھنی و نفسیاتی اور جسمانی پیچیدگیوں سے چھٹکارا دلا کر اسے سکون ،فراغت اور طمنانیت کا خوشگوار احساس بخشتی ہے-

یونیورسٹی آف ملائیشیا کی ایک ریسرچ نے سائنس و طب کی دنیا میں ایک تہلکہ مچا دیا ہے، اس تحقیق کے مطابق دوران نماز مختلف نمازیوں کی حرکات و سکنات کا بغور معائنہ کیا گیا۔ تحقیق کے نتائج میں پتہ چلا کہ نماز کے دوران اور خصوصاً سجدے کے دوران دماغ میں ایلفا ویوز ایکٹویٹی میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا، ایلفا ویوز وہ اعصابی لہریں ہیں جو انسانی دماغ میں سکون‘ اطمینان اور خوشی کے جذبات پیدا کرتی ہیں اور روزمرہ زندگی کی مشکلات اور تکلیفوں کے شکار دماغ کو پرسکون کرنے اور انسانی توجہ اور صلاحیتوں کو نکھارنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں، ایلفا ویوز کی کثرت دماغ کے پرائٹل ور آکسیپیٹل حصوں میں دیکھی گئی جو کہ دماغ کے بالائی اور عقبی حصوں میں واقع ہوتے ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ بار بار کے تجربات کے دوران یہی صورتحال نظر آئی اور اگرچہ دیگر مراحل کے دوران ایلفا ویوز میں نسبتاً کم اضافہ ہوتا تھا لیکن سجدے کے دوران ان کے سگنلز عروج پر پہنچ جاتے تھے- تجربے کے نتائج اس قدر شاندار اور حیران کن تھے کہ اس تحقیق کو فوری طور پر بین الاقوامی شہرت یافتہ سائنسی جریدے اپلائیڈ سائیکالوجی میں شائع کرنے کی درخواست کر دی گئی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ مغرب کے متعدد جرائد نے بھی اس تحقیق کے بارے میں مضامین شائع کئے ،اور اعتراف کیا ، کہ اس بات کے سائنسی شواہد موجود ہیں کہ مسلمانوں کی یہ عبادت دماغ میں ایلفا ویو ایکٹیویٹی کو نمایاں طور پر بڑھا دیتی ہے۔

اسی طرح مغرب کے ماہرینِ نفسیات "یوگا"کی اہمیت و افادیت کے قائل ہیں اور وہ اکثر ذہنی انتشار ، پریشانی اور بے خوابی کے شکار مریضوں کو یوگا کی تلقین کرتے ہیں۔ یوگا کا بنیادی اصول ہی یہ ہے کہ مریض اپنی تمام تر توجہ اور دماغی قوت صرف ایک نقطے پرمرکوز کر دیتا ہے ۔ایک وقت میں صرف ایک ہی خیال ذہن میں موجود رہتا ہے اور ا س کے علاوہ دیگر افکار وخیالات سے توجہ ہٹا لی جاتی ہے۔ جس سے دماغ رفتہ رفتہ پرسکون ہو جا تا ہے اور ذہنی انتشار اور پریشانی ختم ہو جاتی ہے - "یوگا" کا یہ انداز اور علاج تو آج دریافت ہوا، لیکن نماز میں اللہ کی جانب دل کو متوجہ کرنے اور دیگر تمام افکار و خیالات سے توجہ ہٹا کر اللہ کے سامنے کھڑا رہنے، اور یک سوئی کے اس تصور سے ذہنی انتشار و پریشانی دور کرنے کا طریقہ 1400 سال پہلے نماز کی شکل میں بتا دیا گیا-

اسی طرح برطانیہ کی برمنگھم یونیورسٹی، امریکا کی مینیسوٹا یونیورسٹی اور پین اسٹیٹ یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ اگر پانچ وقت کی نماز کو عادت بنالیا جائے اور درست انداز سے ادا کی جائے تو یہ جسمانی تناو اور بے چینی کا خاتمہ تو کرتی ہی ہے، اس کے ساتھ ساتھ کمردرد اور ریڑھ کی ہڈی کے مسائل سے بھی نجات دلانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ماہرین کا مزید کہنا تھا کہ مختلف طبی رپورٹس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ نماز اور جسمانی طور پر صحت مند طرز زندگی کو برقرار رکھنے میں تعلق موجود ہے-

ایک عربی ویب ساٗئٹ “المحیط“ کی رپورٹ کے مطابق جرمنی کے حیاتیاتی ماہرین کی ٹیم نے اپنی تحقیق میں ثابت کیا ہے کہ جو لوگ رات کے پچھلے پہر نماز ادا کرتے ہیں ان میں پڑھاپے کے اثرات جلدی ظاہر نہیں ہوتے -رات کے آخری حصے میں بیدار ہونے سے انسانی صحت اور دماغ پر اچھے اثرات مرتب ہو تے ہیں - "المحیط" کی رپورٹ کے مطابق جرمنی کے شہر میونخ میں واقع Ludwig University کے سائنسدانوں نے ایک تحقیق میں انسانی جسم کی حیاتیاتی گھڑی کا سراغ لگانے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ یہ حیاتیاتی گھڑی انسان کے دماغ کے اگلے حصے میں غدود کی شکل میں موجود ہوتی ہے ، جو جسم میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے آگاہ کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے ۔ یہ غدود کھجور کی گٹھلی کی شکل میں ہوتے ہیں ، جو روشنی اور اندھیرے میں مرتب ہونے والے اثرات دماغ تک پہنچانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں، اگر کوئی انسان رات دیر تک جا گتا ہے تو اس کا منفی اثر دماغ کے اس حصے پر براہ راست پڑتا ہے ، جس کا نتیجہ انسانی صحت پر رو نما ہونے لگتا ہے ۔اسی طرح اگر کوئی انسان رات کے پچھلے پہر اٹھ کر کسی قسم کی ورزش کرتا ہے تو اس کے جسم پر بھی اس اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس کی صحت اچھی رہتی ہے ۔ جبکہ انسان جلدی بوڑھا نہیں ہوتا ۔ رپورٹ کے مطابق جر من ماہرین نے ہلکی پھلکی ورزش کو زیادہ مفید بتایا ہے، رات کے پچھلی پہر کی فضا بھی انسانی جسم پر مثبت اثرات مرتب کرتی ہے ۔ جرمن ماہرین کا کہنا ہے کہ نماز میں وہ تمام فوائد پائے جاتے ہیں ، جو ورزش میں مو جود ہوتے ہیں ۔ رات کے پچھلی پہر ادا کی جانے والی نماز کے مثبت اثرات ریڑھ کی ہڈی پر مرتب ہوتے ہیں ، جبکہ اعصاب کو تقویت ملتی ہے ، جس کے نتیجے میں چہرے پر جھریاں نمودار نہیں ہوتیں ۔ محقیقین نے 55 ہزار لوگوں پر تحقیق کرتے ہوئے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ وہ افراد جو رات کو جلدہ سو کر آخری پہر میں اٹھ کر ہلکی پھلکی ورزش کرتے ہیں وہ دیر سے بو ڑھے ہوتے ہیں ، جس کی بنیا دی وجہ ان کی بائیو لوجیکل گھڑی پر مرتب ہو نے والے مثبت اثرات ہوتے ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق مصر کے ما ئیکر وبا ئیو لو جسٹ ڈاکٹر ہانی المنصوری نے اپنی تحقیق پر اپنے مقالے میں بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جس طرح انسانی جسم پر غذا اثرات مرتب کرتی ہے اسی طرح انسان کے معمولات بھی اس کی صحت پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ جرمن ماہرین کی تحقیق سے یہ بات ثابت ہو تی ہے کہ رات کے آخری حصے کی نماز (تہجد)بڑھاپے کو روکتی ہے ۔ ڈاکٹر ہانی کے مطابق جو لاگ اپنی بائیو لو جیکل گھڑی کی حفاظت کرنے کے خواہاں ہیں انہیں چاہئے کہ وہ تہجد کی ادائیگی اپنا معمول بنا لیں، اسی طرح دنیا بھر کے اکثر بڑے ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے ،جنہیں بوجہ طوالت یہاں درج کرنا ممکن نہیں ،کہ نفسیاتی و ذہنی مسائل کے حل کے لیے مہنگے اور منفی نتائج کے حامل علاج سے کہیں بہتر اور آسان نسخہ صرف اور صرف نماز ہے-

دنیا کے بڑے فزیو تھراپسٹ اس امر کا برملا اعتراف کرتے ہیں کہ نماز سے بہتر ہلکی پھلکی اور مسلسل ورزش کا تصوّر نہیں کیا جا سکتا ، اس کی ایک وجہ وہ یہ بھی بتاتے ہیں فزیو تھراپی کا اصول ہے کہ اُس ورزش کا کوئی فائدہ نہیں جس میں تسلسل نہ ہو یا وہ اِتنی زیادہ کی جائے کہ جسم بری طرح تھک جائے- اب یہاں دیکھیں کہ اللہ ربّ العزت نے اپنی اس عبادت یعنی نماز میں وہ تمام عوامل رکھ دئیے ہیں، جو ورزش اور فزیو تھراپی کے تمام معیارات پر پورا اترتے ہیں-

مزید یہ کہ نماز کا سب سے بڑا فائدہ یہ کہ انسان پاک صاف اور شفاف طرزِ زندگی اختیار کرتا ہے، جس سے وہ کئی بیماریوں سے بچ جاتا ہے- ۔ پانچ وقت وضو کرنے سے تمام بدن اندر اور باہر سے دھل جاتا ہے،دانت صاف رہتے ہیں ،اور یقیناً انسانی جسم کی زیادہ تر بیماریاں دانتوں سے ہی جنم لیتی ہیں-
اس کے علاوہ ایک نمازی شخص کو جہاں قلب و دل کو سکون میسر ہوتا ہے وہیں اس میں کچھ اور دوسری خصوصیات بھی پائی جاتی ہیں۔ مثلاً وہ وقت کا پابند ہوتا ہے ، نظم و ضبط کے ساتھ ساتھ اصول پرست اور وفا شعار ہوتا ہے، باحیا اور بااخلاق ہونے کے ساتھ ساتھ با اعتماد اور پرکشش شخصیت کا مالک ہوتا ہے،غرض کہ نماز انسان کو صحیح معنوں میں انسان بننے کا سلیقہ سکھاتی ہے، اور اسے مادیت سمیت ہر طرح کی دنیاوی آلائشوں اور غلاظتوں سے پاک کرتی ہے-

البتہ اس طرح کی خصوصیات پیدا کرنے کے لیے روایتی قسم کی نماز کی عادت کافی نہیں ، اس کے لئے خشوع و خضوع اور دوسرے شرعی لوازمات کا پورا کرنا بھی ضروری ہے-

اگر ہم آج سے ہی اپنے اور اپنے گھر والوں کو نماز کا عادی بنانے کا عہد کر لیں اور پھر اس عہد پر کاربند رہیں تو یقین مانئے کہ ہماری زندگیوں میں نہ صرف انقلابی کیفیات پیدا ہونا شروع ہو جائیں گیں، بلکہ ہر قسم کی وقتی منفعت ،ہوّس ،لالچ اقتدار و اختیار کے لئے کبیدہ خاطر اور رنجیدہ ہونے کے بجائے سکون،اطمینان کی زندگیاں ہمارا مقدر بن جائیں،اور یقیناً ہماری دنیاوی زندگی باغ و بہار اور کیف و سرور کی کیفیت میں بسر ہونا شروع ہو جائے، بس یہی ایک وہ مستند کلیہ ہے جو بحیثیت مسلمان ہمیں ہر طرح کی ڈپریشن اور ذھنی عوارض سے نجات فراہم کر سکتا ہے-

 

Tahir Ayub Janjua
About the Author: Tahir Ayub Janjua Read More Articles by Tahir Ayub Janjua: 22 Articles with 15327 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.