کراچی کی اسٹریٹ لائبریری چاروں طرف سے گذرتے ٹریفک کے بیچ بھی پرسکون گوشہ ۔

موبائل فون اور انٹرنیٹ سے فاصلے کم اور رابطے تو مضبوط ہوئے لیکن اس نے نوجوانوں کے کتب بینی کے رشتہ کمزور کر دیا ہے ان حالات میں بظاہر انہیں کتاب کی جانب راغب کرنا آسان نہیں۔ تاہم چند لوگ ہیں جنہوں نے اب تک ہمت نہیں ہاری آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اپنی نوعیت کی پہلی اور منفرد اسٹریٹ لائبریری کا قیام بھی مطالعے کے شوق کو جگانے کی ایک کوشش ہے۔

کراچی میں میڑوپول چورنگی پر ملک کی تاریخ میں پہلی اسٹریٹ لائبریری کا قیام 25 دسمبر 2019 کو عمل میں لایا گیا۔ یہ آواری ٹاور ہوٹل کے عین سامنے اور ولیج ریسٹورانٹ کے برابر میں واقع ہے ۔ انٹرنیٹ اور موبائل کے اس دور میں لوگ، خاص طور پر نوجوان کتب بینی سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ مگر کراچی میں نوجوانوں کو کتابوں کی طرف راغب کرنے کی یہ ایک دلچسپ اور منفرد کوشش کی گئی ہے۔

موبائل فون اور انٹرنیٹ سے فاصلے کم اور رابطے تو مضبوط ہوئے لیکن اس نے نوجوانوں کے کتب بینی کے رشتہ کمزور کر دیا ہے ان حالات میں بظاہر انہیں کتاب کی جانب راغب کرنا آسان نہیں۔ تاہم چند لوگ ہیں جنہوں نے اب تک ہمت نہیں ہاری آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اپنی نوعیت کی پہلی اور منفرد اسٹریٹ لائبریری کا قیام بھی مطالعے کے شوق کو جگانے کی ایک کوشش ہے۔

شہر کراچی کی معروف میٹروپول چورنگی پر اب سے کچھ عرصہ پہلے پیدل چلنے کے راستوں پر غیر قانونی تجاوزات کی بھر مار تھی۔ لیکن اب یہاں بانی پاکستان محمد علی جناح، فاطمہ جناح، علامہ اقبال اور لیاقت علی خان کے علاوہ ملک کی تاریخی عمارات پر مشتمل آرٹ ورک سے مزین ایک دیوار دیکھی جا سکتی ہے۔ اس دیوار کے درمیان لکڑی کی الماریاں بنائی گئی ہیں جن میں مختلف موضوعات پر کتابیں رکھی گئی ہیں۔

یہ اسٹریٹ لائبریری حکومت سندھ اور کمشنر کراچی افتخار شلوانی کی مشترکہ کوشش ہے۔اس لائبریری کے قیام کا مقصد لوگوں کو مطالعے کی جانب راغب کرنے کے علاوہ انہیں ایک ایسی عوامی جگہ فراہم کرنا ہے، جس کا خیال عوام خود رکھ سکیں۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ کتاب لو کتاب دو کی بنیاد پر آپ کتاب اپنے ساتھ گھر لے جاسکتے ہیں ۔ یعنیِ اگر آپ اس لائبریری سے ایک کتاب لے رہے ہیں تو بدلے میں آپ کو یہاں اس شیلف میں اپنی ایک کتاب رکھنا ہو گی۔ یہاں کوئی لائبریریئن موجود نہیں ہے ۔ آپ کو اپنی پسندیدہ کتاب لینے اور رکھنے کے نظام کو خود ہی ایمانداری سے دیکھنا ہو گا۔

کراچی جیسے شہر جہاں عالمی اردو کانفرنس ، عالمی کتب میلہ اور عالمی ادب میلہ منعقد ہوتا ہے اور جہاں ماضی میں کئی لائبریریاں موجود تھیں جن میں حکومتی سطح پر بننے والے نیشنل سینٹرز انتہائی فعال اور مقبول ہوا کرتے تھے لیکن وہ سب اب قصہ پارینہ ہوئے ۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ایک امید کی کرن ہے جسے ہمیں دل جان سے سنبھال کر رکھنا ہوگا۔

یہاں بیٹھ کر کتاب پڑھنے سے چاروں جانب سے گذرتے ٹریفک میں بھی بہت سکون میسر آتا ہے ۔ یہاں لوگ نہ صرف اس لائبریری سے کتاب لے کر پڑھتےہیں بلکہ کئی لوگ یہاں کتابیں رکھنے بھی آتے ہیں تاکہ دوسرے لوگ ان سے مستفید ہوسکیں ۔ جہاں اس طرح کے کام ہوتے ہیں وہاں رفتہ رفتہ ضروریات بڑھتی جاتی ہیں، میں اکثر کہا کرتا ہوں ہر کام حکومت کے کرنے کے نہیں ہوتے کچھ کام اس شہر کے باشعور شہری ہونے کے ناتے ہمارے بھی ہیں۔ یہاں لوگ زیادہ تر سورج ڈھلنے اور سایہ ہونے کے بعد نظر آتے ہیں کیوں کہ یہاں ابھی کوئی سائیبان نہیں ہے ، یہاں پینے کے ٹھنڈے پانی کا کوئی انتظام نہیں ہے ۔ تیز بارش اور دھوپ کی تمازت کتابوں اور بک شیلف کو نقصان پہنچاسکتی ہے ۔ یہاں کمشنر کراچی کی جانب سے نامزد دو افراد اپنے فرائض انجام دیتے ہیں ایک سیکورٹی گارڈ اور ایک متولی ان کو بھی جو ماہانہ معاوضہ دیا جاتا ہے وہ موجودہ مہنگائی کے دور کی مناسبت سے کم ہے لیکن دونوں اس پر بھی مطمئن ہیں ۔اگر شہر کے مخیر حضرات اور سماجی ادارے بھی اس کی دیکھ بھال میں بھرپور تعاون کریں تو انہیں خود جو کمی نظر آئے گی وہ پوری ہوتی جائے گی ۔

 

 Arshad Qureshi
About the Author: Arshad Qureshi Read More Articles by Arshad Qureshi: 142 Articles with 167629 views My name is Muhammad Arshad Qureshi (Arshi) belong to Karachi Pakistan I am
Freelance Journalist, Columnist, Blogger and Poet, CEO/ Editor Hum Samaj
.. View More