جنگ موجود ہے

امریکہ،روس ، چین سمیت دنیا بھر کے کئی ممالک کے دفاعی اخراجات میں بڑا اضافہ دیکھنے کو آرہا ہے۔ 2019ء میں عالمی دفاعی اخراجات 2018ء کے مقابلے میں 4%زیادہ تھے۔ پچھلی ایک دہائی میں ایشیا میں دفاعی اخراجات میں 50%کااضافہ ہوا ہے۔ یہ اعدادوشمار ملٹری بیلنس نامی جریدے سن 2020ء کے شمارے میں پیش کئے گئے ہیں جو ملٹری بیلنس انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز (آئی آئی ایس ایس) کی جانب سے سالانہ شائع کیا جاتا ہے۔

سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (SIPRI) 2019ء کی رپورٹ میں عسکری اخراجات کے اضافے کے بارے میں اعدادوشمارجاری کیے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کل داخلی پیداوار (جی ڈی پی) کے تناسب سے سب سے زیادہ فوجی اخراجات کرنے والے دس ممالک میں سے چھ مڈل ایسٹ میں ہیں۔ان میں سرفہرست سعودی عرب ہے جو اپنے (جی ڈی پی)کا تناسب 8.8% اسلحہ کی خریداری پر خرچ کر رہاہے۔پھر عمان 8.2%، کویت5.0%، اردن4.7%، الجزائر5.3%، آرمینیا4.8% اور اسرائیل 4.3%دوسرے چار ممالک میں امریکہ، سعودی عرب، فرانس اور چین ہیں۔

دنیا کے کل عسکری اخراجات کا 60%بھارت سمیت ان پانچ ممالک سے وابستہ ہے۔بھارت2018ء میں دنیا میں سب سے زیادہ عسکری اخراجات کرنے والے پہلے پانچ ممالک میں شامل تھا۔ رپورٹ کے مطابق بھارت میں پچھلے پانچ سال سے تسلسل سے فوجی اخراجات بڑھ رہے ہیں۔ امریکی فوج اور اسلحہ سازی پر سالانہ اخراجات 649ارب ڈالر ہیں۔

دنیامیں دفاعی اخراجات میں اضافے کا کیا مطلب ہے یعنی تیسری عالمی جنگ کی تیاری ہے؟اگر عالمی جنگ کی تیاری مقصود نہیں تو پھر دفاعی اخراجات اور اسلحہ سازی پر سالانہ کئی ٹریلین امریکی ڈالر خرچ کیوں کیے جارہے ہیں؟ موجودہ دنیا میں اسلحہ سازی پر ضائع ہونے والی کثیر رقم بھوک مری، قحط سالی، جہالت، بے روزگاری، بیماری، جان لیواموذی وائرس سے بچاؤ کے لئے خرچ کیوں نہیں کی جاسکتی؟ بھوک وافلاس اور قحط تو اب بھی پورے زوروشور سے موجود ہے اور مستقبل میں مزید پھیلے گا اور شدید سے شدید تر ہوجائے گا، اس کے برعکس دنیا میں اسلحہ کے ذخائر اتنے زیادہ ہیں کہ زمین پر موجود ہر نفس کو کئی بار ہلاک کرنے کو کافی ہیں۔ نیوکلیائی ٹیکنالوجی کا دور دورہ ہے کوئی بیچ رہا ہے تو کوئی خرید رہا ہے۔ انسانیت کی تباہی کا سامان ہے جو اکٹھا کیا جارہا ہے۔ دفاعی اخراجات میں اضافے اور اسلحہ سازی سے مراد جنگ و جدل مقصود نہیں تو دنیا میں 40%سے بھی زیادہ فنڈ اسلحہ سازی کے منصوبوں کے لئے مخصوص کیوں ہے حالانکہ اس فنڈ سے بیماریوں اور لاعلاج امراض کے بہتر سے بہتر طریقے وضع ہو سکتے تھے۔ انسانیت کو درپیش فوری مسائل کے حل کے لئے منصوبے بنائے جا سکتے تھے۔ توانائی کے نئے اور جدید ماخذدریافت ہو سکتے تھے۔ مزدور، کسان، ہاری اور محنت کشوں کے درد بانٹے جا سکتے تھے، زراعت کے لئے نئے اور جدید طریقے ایجاد کیے جا سکتے تھے۔

دفاعی اخراجات میں اضافے اسلحہ سازی کو فروغ دینے سے کہیں بہتر تھا کہ آج کی دنیا میں سالانہ دس ملین سے زیادہ بچے فاقے اور غذائی قلت سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے اور چھ ملین سے زیادہ بچے غیر محفوظ پانی پینے سے پھیلنے والی پیٹ کی بیماریوں کے سبب مر جاتے ہیں ان کے فاقے اور غذائی قلت اور حفظان صحت پینے کے لئے صاف پانی کی فراہمی کے انتظام کو ترجیح دی جاسکتی تھی۔ دفاعی اخراجات بڑھانے اور اسلحہ کی خریدو فروخت سے مثلاً صنعتی ممالک تیسری دنیا کو سالانہ کئی بلین ڈالرز کے ہتھیار بیچتے ہیں جس سے کم ترقی یافتہ ملکوں میں تصادم کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور وہ اپنے قلیل فنڈ بنیادی ضروریات پر خرچ نہیں کر پاتے۔ اس اسلحہ کی لین دین سے تو کہیں بہتر تھا کہ دنیا میں موجود ملیریا، تپ دق، ایڈز، ہیضہ، ٹائی فائیڈ، ٹائفس، ٹراکوما اور ایسی ہی دیگر امراض سے سالانہ کئی ملین افراد مرجاتے ہیں۔ ان قابل علاج امراض پر قابو پایا جاسکتا ہے اور اسی طرح ترقی پذیر ملکوں میں ناخواندگی 80%ہے مجال ہے کہ دنیا کے بزرگ شیاطین، انسا ن کے اس بنیادی حق کے لئے کام کریں۔

دفاعی اخراجات میں اضافے، جنگی جنون، اسلحہ سازی سے دنیا کو غیر محفوظ کر نے سے کہیں بہتر ہے کہ آج دنیا میں پچاس کروڑ افراد جن میں اکثر نوجوانوں کو بے روزگاری کا سامنا ہے، عدم مساوات لوگوں کو بہتر روزگار اور بہتر مستقبل سے روک رہا ہے۔ ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ملکوں میں یہ مسئلہ موجود ہے بلکہ شدت اختیار کرتا جارہاہے ، پھر اسی طرح صاف پانی کا مسئلہ پوری دنیا کے لئے ایک چیلنج کا درجہ رکھتا ہے اور آلودگی اس سے بھی زیادہ مسئلہ بنا ہوا ہے مگر دنیا ہے کہ اپنے دفاعی اخراجات، اسلحہ سازی اور موت کے سامان کو اکٹھا کرنے میں مصروف ہے۔

دفاعی اخراجات بڑھانے جنگی جنون پالنے سے کہیں بہتر تھا کہ بھوک کے تازہ ترین عالمی انڈکس کو ہی دیکھ لیتے ۔ انڈکس بتارہے ہیں کہ اس وقت دنیا میں بیاسی کروڑ سے زائد انسان بھوک اور کم خوراکی کا شکار ہیں۔ اس وقت کرۂ ارض پر 821ملین انسانوں کو زندہ رہنے کے لئے یا تو کوئی خوراک دستیاب نہیں یا پھر وہ تشویشناک حد تک کم خوراکی سے دوچار ہیں ان میں وہ 124ملین یعنی قریب ساڑھے بارہ کروڑ انسان بھی شامل ہیں جن کی بھوک کامسئلہ انتہائی شدید ہو کر فاقی کشی بن چکا ہے۔ اس وقت دنیا کے 191ممالک ایسے ہیں جہاں بھوک مری کے مسائل موجود ہیں۔ ادھر امریکی صدر ٹرمپ کی جنونیت کو دیکھئے کہ سال 2021ء کا دفاعی بجٹ 2405ارب ڈالرز کی منظوری کے لئے کانگریس کو بھیج دی ہے۔ 2018ء سے 2019ء تک صرف امریکہ کے دفاعی اخراجات میں 53ارب چالیس کروڑ ڈالرز کا اضافہ ہے یہ اس قدر زیادہ ہے کہ برطانیہ کے پورے دفاعی بجٹ کے برابر ہے۔ جرمنی کے صدر فرینک والٹر نے بالکل درست کہا تھا کہ امریکی صدر ٹرمپ کی سب سے پہلے امریکہ، کی حکمت عملی بین الاقوامی نظام کو تہہ وبالا اور عدم تحفظ میں اضافہ کرے گی۔ انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ ہم عالمی سیاست میں تباہی کی رفتار میں تیزی سے اضافہ دیکھ رہے ہیں۔ ہم ہر سال عالمی تعاون کے ذریعے دنیا کو پرامن بنانے کے ہدف سے پیچھے اور مزید پیچھے ہوتے جارہے ہیں۔ دفاعی اخراجات بڑھانے کا مقصد کہ جنگ موجود ہے۔ ہتھیاروں اور اسلحہ سازی پر سالانہ ٹریلین ڈالرز کے اخراجات کا مقصد کہ جنگ موجود ہے، ہر کسی کو علم ہے کہ جنگ انسانیت اور ہر ذی روح کے لئے کس درجہ تباہ کن ہیں، ہم سب جانتے ہیں کہ جنگ اور ہتھیار سازی پاگل پن ہے لیکن پھر بھی موجود ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ ہماری نوع کی بقا کے لئے خطرہ ہے لیکن پھر بھی موجود ہے۔ یہ جنگی جنون اسلحہ سازوں کی مالیاتی طاقت میں موجود ہے۔ آج کا انسان دفاعی اخراجات کے اضافے، اسلحہ سازی ، بارود جنگ وجدل، لاحاصل تنازعات سے مستقبل کے حوالے سے فکرمند اور پریشان ہے۔ غیر یقینی کی کیفیت سے دوچار ہے۔٭٭٭

Idrees Jaami
About the Author: Idrees Jaami Read More Articles by Idrees Jaami: 26 Articles with 19278 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.