زندہ قومیں اپنی زبان کی حفاظت اور تزٸین ایک مسلسل شعوری
عمل کے طور پر کرتی ہیں۔زبان کے اصول وقواعد کا مطالعہ اور تحقیق زندہ اور
با وقار قوموں کی حیات کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا زندگی گزارنے کے لیے
نظم وضبط اور ضابطہ حیات لازم ہے۔اردو کی بقا وترقی کے لیے اس کے اصول و
ضوابط اور معیارات پر تحقیق کرکے اس کے حامیان اور اہلیان اردو کو مستفید
کرنا نہ صرف وقت کی ضرورت ہے بلکہ اردو کے حق میں نیک فال بھی ہے۔ادب میں
تحقیق کا فاٸدہ تب ہی ممکن ہے جب اس کو شاٸع کرکے سامنے لایا جاۓ تاکہ محقق،
طالب علم اور علم سے دوستی رکھنے والے قاری بھی اپنی علمی ضرورت اور شوق کے
مطابق اس سے مستفید ہوتے رہیں۔ تحقیق کی اہمیت کو غور سے دیکھا جاۓ تو یہ
نہ صرف اپنے عہد کے سیاسی سماجی ثقافتی اور علمی رویوں کو نۓ راستے دکھاتی
ہے بلکہ یہ آٸندہ نسلوں کی وہ امانت ہے جس کو پوری دیانت ، محبت اور محنت
کے ساتھ محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔
ہرعہد میں اردو ادب کو معیاری بنانے کے لیےشخصیات نے کام کیا ہے جن کو
تاریخ کے اوراق سے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا آج بھی ایسے گمنام کٸ لوگ
موجود ہیں جو قدیم اور جدید دونوں طرح کے اردو ادب میں ایک نام رکھتے ہیں۔
ایسی شخصیات جنہوں نے اپنی زندگیاں اس کام میں ہی صرف کر دی ان کا تعارف
اور ان کی خدمات کو متعارف کروانا وقت کی اہم ضرورت ہے اسی طرح پنجاب کے
قدیم ضلع بہاولنگر کی ایک پسماندہ تحصیل منچن آباد سے تعلق رکھنے والے جناب
علی اکبر وٹو جو کہ کبیر ادب پوری کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ شعبہ ادب و
ایجوکشن سے تعلق رکھنے والے یہ ادیب شاعری کی دنیا میں ایک بڑا نام بھی
رکھتے ہیں۔ موصوف 6 مارچ 1984 کو ایک شریف اور دیندار وٹو گھرانہ بہرامکا
منچن آباد میں پیدا ہوۓ۔ابتداٸ تعلیم پراٸمری تک اپنے والد صاحب کے بناۓ
ہوۓ سکول میں ہی حاصل کی مڈل تک کی تعلیم ھاٸ سکول چکی فاٸیک میں مکمل کی
بعد ازاں میڑک تک کی تعلیم ہاٸ سکول منچن آباد میں 2000 میں اچھے نمبروں سے
مکمل کی۔ایف اے2002 میں ، بی اے 2004 میں ، ایم اے انگلش 2006 میں اپنے ضلع
بہاولنگر کے ڈگری کالج سے مکمل کیا اسی دوران رزلٹ سے قبل ہی 10 جون 2006
میں انوار السلام کے قریب علی اکبر ایجوکیشن کے نام سے اکیڈمی کی بنیاد
رکھی۔ بعد ازاں 18 نومبر 2009 میں سرکاری ٹیچر کے طور پر بہرامکا سکول میں
پڑھانا شروع کیا ایم اے اردو 2017 میں ایم اے فارسی 2019 میں ایم فل اردو
منہاج یونیورسٹی لاھور سے کیا لیکن یاد رہے ایم اے اردو میں گولڈ میڈل
ایوارڈ بھی حاصل کرچکے ہیں۔
ایف اے کی تعلیم کے دوران اپنے استاد ِ محترم پروفیسر خورشید احمد صاحب کی
ترغیب پر اردو ادب کا مطالعہ شروع کیا اس وقت سے قدیم اردو ادب کو پڑھنا
شروع کیا اولاً تاریخ اردو ادب کے لیے 4 جلدوں میں ڈاکٹر جمیل جالبی کو
پڑھا اس کے بعد گیان چند کی تاریخ ِ اردو 6 جلدوں میں اس کا مطالعہ کیا پھر
اردو ادب کی تاریخ پر ڈاکٹر انور سدید کو پڑھا بعد ازاں اردو ادب پر جتنا
کام ہوچکا تھا وہ سب ہی پڑھا۔ ایسی کتب جو پاکستان سے دستیاب نہ ہوسکی تو
ایران اور انڈیا سے 70,000 کی صرف اردو ادب کی کتب منگواٸ اس کی وجہ یہ تھی
کہ فرمایا ”جب میں کسی کتاب کا مطالعہ کررہا ہوتا ہوں اس میں حوالہ آجاۓ کہ
یہ بات غالب کی یا فلاں کی فلاں کتاب میں ہے تو تب تک سکون نہیں آتا جب تک
وہ کتاب حاصل کرکے مکمل پڑھ نہ لوں فرمایا ”میں غالب کو پڑھ رہا تھا اس کی
ایک کتاب تلمیحات ِ غالب کا ذکر آیا اس کو پڑھنے کے لے مزید غالب صاحب کی78
کتب کو پڑھ لیا، علامہ محمد اقبال پر 107 کتب کا مطالعہ کیا فیض احمد فیض
پر لکھی گٸ 71 کتب سب کا مطالعہ کیا ناصر کاظمی ، غلام عباس ، سعادت حسین
منٹو ، قدرت اللہ قاسم، خوب چند ذکإ ، شمس الرحمٰن فاروقی ، عابد صدیقی ،شفیع
احمد صدیقی ، قرأة العین حیدر ، خواجہ احمد فاروقی ، خواجہ میر درد ، قاضی
عبیدالرحمٰن ہاشمی ، مولانا ابوالحسن ندویؒ ، سید سلیمان الندویؒ ، ودیگر
بے شمار ادب اور ادیبوں پر لکھی گٸ کوٸ کتاب ایسی باقی نہ رہی جس کا مطالعہ
نہ کیا ہو، اس بات کا اندازہ یہاں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ تین ہزار
3000 کتب کا باالاستعیاب مطالعہ کرچکے ہیں جبکہ 30,000 کے لگ بھگ کتب کا
ضخیم ذخیرہ موجود ہیں جس پر تحقیقی کام جاری ہے۔
عربی ادب میں ایک بات تلاش کرنے کے لیے ”مختصر المعانی“ اٹھاٸ پھر اس کی
تمام شروحات بھی مکمل کردی، اسی طرح قدیم ادب میں چہار گلزار، عبدالواسع
ہانسوی، مجموعہ نغز ، عیار الشعرا ، شعریات ،دستنبو ، غالب شخص اور شاعر
غالب پر چودہ شروحات لغات میں سے فرہنگ آصفیہ ، غیاث اللغات، نور الّلغات ،
نسیم اللغات ان سب سے مطالعہ کی سیری حاصل کرچکے ہیں۔
مجموعی طور اردو ، فارسی ، انگلش اور عربی میں لکھی گٸ تفاسیر ، تاریخ ،
ادب ، منطق و فلسفہ ، بلاغت وبیان غرض تمام فنون پر عظیم و ضخیم کتب کا
مطالعہ کرچکے ہیں ایک دن میں ایک کتاب یا دو دن میں ایک کتاب کا مطالعہ
مکمل ہوجاتا ہے جب کتاب خریدی جاۓ تب تک وہ الماری کی طرف منتقل نہیں ہوتی
جب تک وہ سینہ میں منتقل نہ ہوجاۓ! رات آٹھ بجے سے صبح آٹھ بجے تک موباٸل
نمبر آف ہوتا ہے باٸیں سبب کہ وہ وقت مطالعہ اور کتاب کے لیے ہے۔
اردو ادب میں کمی اور معاشرہ میں بڑھتی ہوٸ غیر اخلاقیت اور بے حیاٸ کے
متعلق سوال کیا تو فرمانے لگے: بات اصل یہ ہے کہ پہلے ہمارے چھوٹوں بچوں کو
پند نامہ ، بداۓ منظور جیسے قاعدے بچپن میں پڑھاۓ جاتے تھے جس کے اندر
مختلف ابواب ” در بیان حسن و خلق“ در بیان ِ مہلکات “ در بیان ادب جیسے سبق
ہوتے تھے تو اس وجہ سے ان کی تربیت اچھی ہوتی اور شروع سے ہی ادب کا ذوق
اور خرافات سے بچنے کی ترغیب ہوتی اب چونکہ انٹرنیٹ کا دور ہے شروع سے ہی
موباٸل دے دیا جاتا ہے پھر مطالعہ تو کجا نوجوان اخلاق سے بھی عاری ہو جاتے
ہیں اب تک خاموش رہنے کی وجہ طلب کی تو فرمایا: میرے پاس پلیٹ فورم یا ایسے
لوگ نہ تھے جو پوچھتے ان کو سکھاتا اور بتاتا اس لیے خاموش رہا پی ڈی ایف
کتب کے بارے میں فرمایا ” یقیناً اس سے ایک فرق پڑا ہے لیکن بات مزاج کی ہے
اگر مزاج ہو تو میرے پاس بھی پی ڈی ایف میں 15,000 کتب ہیں جن پر کام جاری
ہیں اگر مطالعہ کا مزاج ہی نہ ہو کتب کی دنیا میں بیٹھ کر بھی التفات نہ
ہوگا۔
موصوف جناب کبیر ادب پوری صاحب سے سوال کیا گیا لفظ استاد ہوتا ہے یا استاذ
؟ فرمایا: تاریخ کی کتب اس بات پر شاہد ہیں دوسری صدی عیسوی کی بات ہے آتش
پرست لوگوں کے ہاں ایک کتاب تھی ”اوستا“ کے نام سے اس کے پڑھانےوالوں کو
استادوں کہا جاتا تھا وقت کے ساتھ ساتھ اردو میں جب منتقل ہوا تو آخر سے
واٶ اور نون غنہ گرگیا استاد بچ گیا اب اگر عربی میں منتقل کریں تو لفظ
استاذ آۓ گا اس کی وجہ استاذ کی جمع اساتذہ آتی ہے اگر اردو کی رو سے دیکھا
جاۓ تو استاد ہی ہوگا کیونکہ اس کی جمع استادوں آتی ہے اور یہ اصل ہے۔
خود اب تک چھ کتب پر مکمل تحقیقی کام کررہے ہیں جن میں 1”نحویات“ ( جس میں
اردو ادب کی اصل اور مأخد و مصادر کو جمع کیا ہے جملے بنانے کا طریقہ اور
ضرب المثل کو یکجا کیا ہے) 2 کلام ِ غالب کا فنی اور فکری جاٸزہ (منتخب
غزلیات اور غالب کی شخص و شخصیت پر مکمل تحقیقی کام) 3 اہم ادبی رجحانات
اور تحریکیں بتخصیص اردو ادب( ادب پر جتنا بھی کام کیا گیا سب کو نۓ اسلوب
میں سہل طریق پر بیان کیا گیا ہے) 4 پیڑ پراگا ( اپنی پنجابی شاعری کا
مجموعہ جس کی وجہ سے پورے پنجاب میں شاعری کرتے ہیں) مزید دو کتب تنقید پر
ہیں جس کے اندر اصول ِ تنقید بیان کیے ہیں یہی دو کتب کی تأخیر ہے باقی وہ
چار تحقیقی ادبی کتب تھوڑے ہی عرصہ میں آپکے ہاتھوں میں ہونگی۔
نوجوان نسل کے نام ایک پیغام دیتے ہوۓ فرمایا: سید سلیمان الندویؒ نے شکوہ
کیا کہ ہمارے ہاں کتب کا فقدان ہے پھر بھی انہوں نے سیرت 6 جلدوں میں لکھ
ڈالی اس جیسی سیرت کی نظیر نہیں ملتی اور جبکہ ہمارے پاس کتب کا ایک ضخیم
ذخیرہ ہونے کے باوجود ہم لکھ نہیں پارہے یہ ہماری بدقسمتی ہے اور آنے والی
نسلوں کو تنزلی میں دھکا دینے والی بات ہے۔ اس لیے ہم کو کتاب سے رو گردانی
نہیں کرنی چاہیے۔ |