خاموشی کا بائیکاٹ

بے حسی ، بے بسی اور بے غیرتی کی بھی کوئی انتہا ہوتی ہے کیا آج ہماری ایٹمی قوت کی حامل دنیا ئے اسلام کی واحد طاقت اتنی کمزور ہو چکی ہے کہ اپنی عوام کی جان مال کی حفاظت کی بنیادی ذمہ داری سے بھی عاجز ہے آخر کب تک ہم امریکی دیوی کے قدموں میں اپنے ہم وطنوں کی بلی دیتے رہیں گے ؟نائن الیون کے نام نہاد ڈرامے کے بعد ایک معمولی امریکی اہلکار کی فون پر دی گئی دھمکی کہ''تم ہمارے ساتھ ہو یا خلاف'' پر ہمارے شرمناک فیصلے نے آج ہمیں وہ دن دکھائے ہیں کہ ہم ہزاروں جوانوں کی شہادت اور ملکی تاریخ کی بدترین معاشی بد حالی کا شکار ہو چکے ہیں پورا ملک کوئلوں کی اس دلالی میں جہنم کا منظر پیش کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود do moreکے تقاضے نہ صرف ختم ہونے میں نہیں آئے بلکہ وقتاً فوقتاً ہمیں کبھی double agent کے طعنے بھی دیئے گئے تو کبھی ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے ذریعے گاجر اور چھڑی کا کھیل کھیلا گیا ،کبھی کیری لوگر کی چوسنی سے ہمیں بہلایا گیا تو کبھی القائدہ اور طالبان کے ساتھ فوج کے مراسم کی کہانیاں گھڑ کے ہمیں پریشرائز کیا گیا۔اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے اور اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ دہشتگردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ میں فرنٹ لائن سٹیٹ ہونے کا صلہ ہم آئے روز ڈرون حملوں کی صورت میں پا رہے ہیں جس میں اب تک ہمارے ان گنت بے گناہ بھائی شہید ہو چکے ہیں۔ پاکستانی علاقوں پرڈرون حملوں کا سلسلہ ڈمہ ڈولہ کے ایک مدرسے سے شروع ہوا اس وقت عنانِ اقتدار ملکی تاریخ کے بدترین ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے ہاتھ میں تھی اس وقت ایوان میں اس امریکی حرکت پر خاصا شور برپا ہوا لیکن اس بردہ فروش کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی اس وقت کئی مبصرین نے ان حملوں کو آمریت کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اگر اس وقت ملک پر جمہوری حکومت ہوتی تو امریکہ کو ہرگز ایسا اقدام اٹھانے کی جرات نہ ہوتی لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ آج ہمارے ملک پر عوام کی سب سے بڑی پارٹی ہونے کی دعویدار پی پی پی کی حکومت ہے لیکن اپوزیشن میں ہوتے ہوئے دن رات ڈکٹیٹر شپ کے خلاف آواز بلند کرنے والی یہ نام نہاد پارٹی عملاً پرویزی مشن کو ہی آگے بڑھانے میں دن رات کوشاں نظر آتی ہے ملک میں اس وقت امن و امان کی صورت حال کا اندازہ گزشتہ ایک سال میں دہشتگردی کے واقعات سے ہی باآسانی لگایا جا سکتا ہے جس میں تقریباََ 2500پاکستانی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ،اس کے علاوہ ڈرون حملوں میں 957 اور خودکش حملوں میں 1159اور نامساعد معاشی حالات بھی 2399افراد کو نگل گئے ۔ یہ سب کیا ہے ؟ اگرچہ اس ملک کی کشتی ڈبونے میں ہم سب نے اپنی حسبِ استعداد حصہ ڈالا ہے لیکن اس میں بڑا حصہ اس پرائی صلیبی جنگ کا ہے جس کو آج ہم اپنی جنگ کہتے ہوئے نہیں تھکتے آپ اندازہ کریں کہ پاکستان پر مجموعی طور پر58ارب ڈالر قرض ہے اور سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اس جنگ پر ہم آج تک اپنے خزانے سے 45ارب ڈالر جھونک چکے ہیں اس کے علاوہ ناقابلِ اعتبار سکیورٹی کے باعث کوئی ملک ہمارے ہاں سرمایہ کرنے کو تیار نہیں ،بدترین بدامنی نے ہمارے کھیل کے میدانوں تک کو ویران کر کے رکھ دیا ہے،بہترین تفریحی مقامات رکھنے کے باوجود کوئی سیاح ہمارے ملک کا رُخ کرنے کو تیار نہیں حالانکہ ہم اس سے کثیر زرِمبادلہ کما سکتے ہیں ۔اس تمام تر صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایک محب وطن آدمی بجا طور پر اپنی منتخب کردہ حکو مت کی جانب دیکھتا ہے لیکن قوم کا سر اس وقت شرم سے جھُک جاتا ہے جب ملک کا وزیر دفاع یہ اعتراف کرتا ہے کہ ہر سال سینکڑوں پاکستانیوں کو خاک و خون میں نہلا دینے والے ڈرون طیارے کہیں اور سے نہیں بلکہ اسی ارضِ پاک سے ہی محوِ پرواز ہو تے ہیں بلکہ یہاں تک کہ ان کو ایندھن بھی ہم ہی فراہم کرتے ہیں ،دوسری جانب وزیرِ داخلہ عبدالرحمان ملک بارہا اس بات کا اعلان فرماتے نظر آتے ہیں کہ ہم ڈرون طیارے گرانے کی صلاحیت نہیں رکھتے(حالانکہ ائر چیف کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ ڈرون گرانا ہمارے لئے کوئی مسئلہ نہیں )۔

ایسے میں بجا طور پر عوام کے ذہنوں میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ ایسی کون سی چیز ہے جس نے ہمارے حکمرانوں کو اتنا بے حس کر دیا ہے کہ انہیں ہزاروں جانوں کی قربانی اور اربوں ڈالر کے بدترین گھاٹے کے باوجود بھی امریکہ سے سخت احتجاج تک کی جرات نہیں ہوتی یہ کیسا تماشا ہے کہ امریکہ اپنے شہریوں کی حفاظت کے نام پر ہم پر بم برسا رہا ہے اور ہم عین اسی دوران امریکہ کو شدید ردعمل دینے کی بجائے اس سے چند ٹکوں کی بھیک مانگ رہے ہیں یہاں پر وکی لیکس کے اس انکشاف کی اہمیت ایک بار پھر واضح ہوتی نظر آتی ہے کہ '' زرداری انتظامیہ خود یہ حملے رکوانے میں سنجیدہ نہیں ہے اور اس نے امریکہ کو واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ ہمیں ڈرون حملوں سے کوئی مسئلہ نہیں'' ۔

دوسری جانب ڈرون حملوں کو روکنے اور امریکی ایجنٹوں کی فہرست دینے سے واضح امریکی انکار ان اطلاعات کی تصدیق کرتا بھی نظر آتا ہے جن کے مطابق ڈرون حملے بھی اس بدنامِ زمانہ NROکا حصہ ہیں جس کے تحت آج زرداری اینڈ کمپنی ہم پر مسلط ہے۔اس تمام تر صورتحال میں پی پی گورنمنٹ کو فوری طور پر اپنی پوزیشن واضح کرتے ہوئے نہ صرف پاکستان میں موجود تمام امریکیوں کو ہر قسم کے آپریشنز بند کر کے ملک چھوڑنے کا حکم صادر کرنا چاہئے بلکہ آئندہ ڈرون حملوں کی صورت میں انہیں گرانے اور امریکہ سے ہر طرح کے سفارتی تعلقات ختم کرنے کی دھمکی دینی چاہئے یہ اگرچہ خاصا مشکل کام ہے کہ ہمیں امریکی ڈالروں اور پرسرار معاہدوں کی زنجیروں نے ہمارے اربابِ اختیار کی زبانوں کو گنگ کر رکھا ہے لیکن اب اس خاموشی کا بائیکاٹ کرنا ہی ہو گا کہ ہماری خوشحالی، امن اور امریکی دیوی سے جان چھڑانے کی یہی واحد صورت ہے ورنہ حکمرانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اگر وہ اس کے برعکس ایک کمزور سے احتجاج پر ہی اکتفا کرتے رہیں گے تو یہ واضح ہو کہ اب یہ ٹوپی ڈرامہ زیادہ دیر نہیں چلے گا قوم اب اس سے زیادہ جگ ہنسائی برداشت نہیں کرے گی۔
Qasim Ali
About the Author: Qasim Ali Read More Articles by Qasim Ali: 119 Articles with 100534 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.