قلم کی نوک پہ رکھوں گی اس جہان کو میں
زمیں لپیٹ کے رکھ دوں کہ آسمان کو میں!
صحافت کا لفظ سنتے ہی سب سے پہلے جو تصور ذہن میں آتا ہے وہ کسی خبر کا
ہوتا ہے۔جدید دور میں جب بھی کہیں صحافت کا نام لیا جاۓ تو سننے والا فوراً
تصور میں اخبار رسائل ٹی وی دیکھتا ہے۔ صحافت صحف سے نکلا ہے صحف صحیفے کی
جمع ہے۔اور صحیفہ لفظ سنتے ہی کسی آسمانی کتاب کا تصور ذہن میں آتا ہے۔مگر
عربی میں صحف کسی بھی قسم کی لکھی ہوئی باتوں کے مجموعے کو کہا جاتا ہے۔
صحافت (Journalism) کسی بھی معاملےکے بارے میں تحقیق اور پھر اسے آواز،
تصویر یا تحریر کی شکل میں بڑے پیمانے پر سامعین، ناظرین یا قارئین تک
پہنچانے کے عمل کا نام ہے۔ گو تکنیکی لحاظ سے شعبہ صحافت کے معنی کے کئی
اجزاء ہیں لیکن سب سے اہم نکتہ جو صحافت سے منسلک ہے وہ عوام کو باخبر
رکھنے کا ہے۔
صحافت کو بطور پیشہ اختیار کرنے والے کو صحافی کہا جاتا ہے۔ جس طرح سمندر
میں بہری جہازوں کی رہنمائی کیلئے روشنی کے مینار بناۓ جاتے ہیں۔تاکہ جہاز
اردگرد کی پہاڑی چٹانوں سے بخیروعافیت گزر جائیں۔بعینہ ایک صحافی اس لائٹ
ہاؤس میں لگے بلب کی طرح معاشرے کو روشنی دیتاہے جو کہ معاشرے کو وقت کی
تاریکی اور اندھیرے سے بچا کے علم وعرفان کی روشنی کی طرف بلاتا ہے۔ رات کی
تاریکی میں راستے کے نشیب وفراز سے آگاہی حاصل کرنے،دوست اور دشمن کی پہچان
اور اندھیرے کی چادر میں چھپے ہوئے خطرات سے خبردار رہنے کے لئے جس طرح
چراغ کی روشنی انسان کی بنیادی ضروت ہے،اسی طرح لمحہ موجود میں ہونے والی
تبدیلیوں، موجودہ اور مستقبل کے خطرات ،عالمی حالات و واقعات سے باخبر رہنا
بھی انسان کا بنیادی حق ہے اور اس حق کے حصول میں صحافت انسان کی بے مثل
خدمت کرتی نظر آتی ہے۔
صحافت کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ لوگوں کو تازه ترین خبروں سے آگاه کیا
جائے،عصر حاضر کے واقعات کی تشریح کی جائے اور ان کا پس منظر واضح کیا جائے
تاکہ رائے عامہ کی تشکیل کا راستہ صاف ہو.صحافت رائے عامہ کی ترجمان اور
عکاس بھی ہوتی ہے اور رائے عامہ کی رہنمائی کے فرائض بھی سر انجام دیتی
ہے.عوام کی خدمت اس کا مقدس فریضہ ہے.اس لئے صحافت معاشرے کے ایک اہم ادارے
کی حیثیت رکھتی ہے۔ صحافت ایک مقدس پیشہ ،ایک بھاری ذمہ داری ،ایک اخلاقی
فریضہ اور ایک قومی امانت ہے۔ہر نئی بات ،نیا واقعہ یا نیا علم جس کا
معاشرے پر اچھا یا برا اثر یا معاشرے کی تربیت میں کوئی بھی حصہ ہو ،اس تک
رسائی تقریباً ہر انسان کا حق ہے۔کہیں بھی ہونے والے ظلم بے راہ روی ،جرائم
،برائیوں کو اجاگر کرنا ان کو حکام بالا تک پہنچانا یہ بھی صحافت کی ذمہ
داری ہے۔
صحافی معاشرے کے مظلوم، مقہور اور پسے ہوۓ طبقے کی آواز ہوتا ہے۔جبکہ ظالم
طاقتور اور صاحب اختیار لوگوں کے سامنے ایک بھاری پتھر۔کتنے ہی ظلم وجبر کی
آندھیوں میں صحافی اپنے سچ کا چراغ اٹھائے کسی مضبوط چٹان کی طرح سر اٹھاۓ
کھڑا رہتا ہے۔صحافی کا کام ہے خبر دینا ،غیر جانبدار رہتے ہوۓ سچ کو عوام
تک پہنچانا۔اپنے ملک وطن اور معاشرے کے اجتماعی مفاد کو سامنے رکھتے ہوۓ
ذاتی مفاد اور ترجیحات سے بالاتر ہوکر سچ کی عکاسی ہی ایک صحافی کا سرمایہ
ہوتا ہے۔ موجودہ دور کو میڈیا کا دور کہا جاتا ہے۔میڈیا یعنی صحافت کو
ریاست کا چوتھا ستون گردانا جاتا ہے۔ قومی راۓ عامہ کو بنانے بگاڑنے کا کام
صحافت سے لیا جاتا ہے۔ مگر وطن عزیز میں جس طرح دیگر اداروں کی حالت ناگفتہ
بہ نظر آتی ہے بعینہ صحافت میں بھی اخلاقی پستی اپنی تاریخ کی اتھاہ ترین
گہرائیوں تک پہنچ چکی ہے۔ صحافت ترسیل وابلاغ کا مؤثر اور طاقتور ذریعہ ہے
اور واقعات حاضره کی معلومات بہم پہنچانے کا اتنا بہتر وسیلہ ہے کہ دنیا کے
بڑے بڑے سماجی پشوا،سیاسی رہنما اور مشاہیر نے نہ صرف اس کی بھر پور طاقت
کے سامنے سر تسلیم خم کیا بلکہ اپنے افکار واظہار کی تشہیر کے لئے صحافت سے
منسلک بھی رہے.تاریخ شاهد ہے کہ صحافت نے کتنے ہی ملکوں کے تختے پلٹ دیے.۔۔ |