" ہم نغمہ سرا کچھ غزلوں کے " ریڈیو پاکستان کا ماضی کی روایات کی جانب ایک قدم ۔

سہ پہر تین بجے جب ہم اس عمارت میں داخل ہوئے تو ماضی کی بہت سے یادیں بھی ہمارے ساتھ داخل ہوئیں ۔ جس اسٹوڈیو میں پروگرام ہورہا تھا غالباً وہ ایس ٹو تھا ۔ ریسیپشن پر بیٹھے زیدی صاحب سے ملاقات ہوئی ان کا انداز گفتگو دل کو بھلا لگا یادیں اور تازہ ہوتی چلی گئیں ۔ چند لمحوں میں ریڈیو کے حوالے سے گفتگو کرنے پر علم ہوا زیدی صاحب ماہ پارہ صفدر صاحبہ ، صفدر ہمدانی صاحب سمیت بہت سے پرانے پروڈیوسر اور افسران کو جانتے ہیں ۔ جوں ہی اسٹوڈیو میں داخل ہوئے ۔تو صائمہ نفیس صاحبہ نے دورانِ پروگرام ہی پرتپاک استقبال کیا ۔ اب آہستہ آہستہ ماضی کے ریڈیو پاکستان کی جھلک محسوس ہونا شروع ہوگئی ۔ صائمہ نفیس صاحبہ کے علاوہ وہاں موجود ان کے معاون ساتھی و اسٹاف کا انداز گفتگو ، مدہم لہجہ ، نچلے درجے کے اسٹاف سے مخاطب ہونے کا انداز سب کچھ پتا دے رہا تھا کہ ان کی سرشت میں ریڈیو پاکستان کی تربیت ہے ۔

ریڈیو پاکستان کراچی کی ایم اے جناح روڈ پر واقع شاندار عمارت پر جب بھی نظر پڑتی ہے تو احمد رشدی کا وہ گانا ضرور یاد آتا جس میں مہدی ظہیر ضو کلیمی نے ریڈیو پاکستان کی اس عالی شان عمارت کو زبردست خراج تحسین کچھ اس انداز سے پیش کیا ہے ۔

یہ آیا ریڈیو پاکستان، ہے گویا خبروں کی دوکان ، تو اس کے گنبد کو پہچان ، کہیں مسجد کا ہو نہ گمان، کہ ہوتا ہے درسِ قرآن، کبھی گمشدگی کا اعلان، بابو ہوجانا فٹ پاتھ پر، یہاں ہوتے ہیں بندو خان، یہاں درباری اور کلیان، یہیں پہ کوئی تمنچہ جان، سنائے گیت غزل کی تان، مگر ہم بوڑھوں کے یہ کان، کریں لے سر کی کیا پہچان، بابو ہوجانا فٹ پاتھ پر، گویا، شاعر، موسیقار، ہے سب کا نام یہاں فنکار، ملازم سب ناپائیدار، مگر برسوں کے وظیفہ خوار، یہ ہے فن کا جُونا بازار، کہ سب کا ہوتا ہے بیوپار، بابو ہوجانا فٹ پاتھ پر، ہے میرا ثی بھی ایکٹر بھی، قلی بھی مست قلندر بھی، یہاں ہے نیوز ایڈیٹر بھی، شکیل احمد بھی انور بھی، یہیں کا آرٹسٹ بنتا، جو ہوتا راجہ اِندر بھی، بابو ہوجانا فٹ پاتھ پر۔

اس وقت احمدی رشدی اور اس گیت کے خالق مہدی ظہیر صاحب کو گمان بھی نہ ہوگا کہ ایک دن ریڈیو پاکستان بندر روڈ سے گلشن اقبال چلا جائے گا۔ جب ریڈیو پاکستان کے دفاتر اور اسٹوڈیوز ایم اے جناح روڈ کی عمارت سے گلشن اقبال میں قائم فلک بوس عمارت میں منتقل ہورہے تھے تو دل بہت اداس تھا ۔ کیوں کہ میرا ریڈیو سے رشتہ بچپن سے ہے اور ریڈیو پاکستان کی پرانی عمارت میں سینکڑوں بار آنا جانا لگا رہتا تھا ۔ ہم ریڈیو سننے والے سامعین نے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی جسے انٹرنیشنل ریڈیو لسنرز آرگنائزیشن کا نام دیا جو دنیا کے کئی ممالک کے نشریاتی اداروں سے رجسٹر ڈ ہے ۔ اس لیے ہم نے کئی بار اس عمارت میں کئی نشریاتی اداروں کے ساتھ مل کر پروگرام کیے تھے ہمارا اس عمارت میں آخری پروگرام ریڈیو چین کی اردو سروس کے ساتھ تھا جب ان کا عملہ کراچی آیا تھا ۔ اس کے بعد جب اس عمارت میں آگ لگی تو اسے لاوارث چھوڑ دیا گیا ۔ چند سال پہلے جب ریڈیو پاکستان کا رسالہ آہنگ لینے اس عمارت میں گیا تو آنکھ بھر آئیں ۔جس عمارت میں ہمیں مین گیٹ سے مسکراتے ہوئے خوش آمدید کہا جاتا تھا اندر داخل ہوتے ہی ہلکی ہلکی موسیقی کی آواز سنائی دیتی تھی۔اب وہاں ہمیں اندر جانے کے لیے اجازت درکار تھی۔ہمیں انتظار کرنا تھا ، اب اندر موسیقی کی نہیں بوٹوں کی چاپ اور وسل آواز سنائی دیتی ہے ۔افسوس اس امر پر بھی ہے کہ نہ اس درسگاہ سے نکل کر دنیا پر راج کرنے والوں نے اس پر احتجاج کیا نہ کسی عدالت نے اس پر ازخود نوٹس لیا ۔ چند ایک لوگ ہیں جو اب بھی اس پر آواز اٹھاتے رہتے ہیں جن میں صفدر ہمدانی صاحب ، ماہ پارہ صفدر صاحبہ اور رضا علی عابدی صاحب سرِفہرست ہیں ۔ اس تمام صورتحال کے بعد ہمارا بھی ریڈیو پاکستان سے دل ٹوٹ گیا نہ پرانے لوگ رہے نہ نئے آنے والوں نے اپنے پرانے سننے والوں کی تلاش کی نہ رابطے رکھے ۔ ہم سامعین بھی بین الاقوامی نشریات تک محدود رہے ۔

ایک مدت کے بعد گذشتہ دنوں فیس بک پر صائمہ نفیس صاحبہ کی ایک پوسٹ دیکھی جس پر ریڈیو پاکستان کا نشان اور ایک جملہ لکھا تھا " ہم نغمہ سرا کچھ غزلوں کے" اس جملے میں نہ جانے کیا کشش تھی کہ ہمیں ریڈیو پاکستان کا ماضی شدت سے یاد آنے لگا ۔ اس پوسٹ پر جب پروگرام میں شرکت کا پوچھا تو صائمہ نفیس صاحبہ نے رابطہ کرکے باقاعدہ مدعو کرلیا ۔ یہ ایک مشاعرہ کا پروگرام تھا ۔ ریڈیو پاکستان کی پرانی عمارت سے تعلق ختم ہونے کے بعد اس نئی عمارت میں یہ پہلا پروگرام تھا جس میں شرکت کرنے جارہا تھا ۔ اس عمارت میں دس پندرہ سال پہلے فرحان ہاشمی صاحب سے ضرور ملاقاتیں رہیں لیکن وہ صرف ریڈیو چین کے حوالے سے ہوتی تھیں کسی پروگرام کے حوالے سے نہیں ۔

سہ پہر تین بجے جب ہم اس عمارت میں داخل ہوئے تو ماضی کی بہت سے یادیں بھی ہمارے ساتھ داخل ہوئیں ۔ جس اسٹوڈیو میں پروگرام ہورہا تھا غالباً وہ ایس ٹو تھا ۔ ریسیپشن پر بیٹھے زیدی صاحب سے ملاقات ہوئی ان کا انداز گفتگو دل کو بھلا لگا یادیں اور تازہ ہوتی چلی گئیں ۔ چند لمحوں میں ریڈیو کے حوالے سے گفتگو کرنے پر علم ہوا زیدی صاحب ماہ پارہ صفدر صاحبہ ، صفدر ہمدانی صاحب سمیت بہت سے پرانے پروڈیوسر اور افسران کو جانتے ہیں ۔ جوں ہی اسٹوڈیو میں داخل ہوئے ۔تو صائمہ نفیس صاحبہ نے دورانِ پروگرام ہی پرتپاک استقبال کیا ۔ اب آہستہ آہستہ ماضی کے ریڈیو پاکستان کی جھلک محسوس ہونا شروع ہوگئی ۔ صائمہ نفیس صاحبہ کے علاوہ وہاں موجود ان کے معاون ساتھی و اسٹاف کا انداز گفتگو ، مدہم لہجہ ، نچلے درجے کے اسٹاف سے مخاطب ہونے کا انداز سب کچھ پتا دے رہا تھا کہ ان کی سرشت میں ریڈیو پاکستان کی تربیت ہے ۔

محفل مشاعرہ " ہم نغمہ سرا کچھ غزلوں کے" سجا اور خوب سجا ، باذوق شعرا اور باذوق سامعین جہاں خوب داد دی گئی خوب حوصلہ افزائی کی گئی ۔سب سے اچھی بات شعرا کرام نے بھی ایک دوسرے کو داد دی تو سامعین نے بھی تمام شعرا کی داد سے کر خوب حوصلہ افزائی کی وگرنہ تو آج کل اکثر مشاعروں میں بھی تالیاں بجا کر داد دی جاتی ہے ۔ جن ادبی محفلوں میں محسن نقی بھائی ہوتے ہیں اس میں ویسے بھی چار چاند لگ جاتے ہیں ۔ محفلوں کی کیا خوبصورت روداد تحریر کرتے ہیں اور کتنی محبت اور چاہت سے محفلوں کی عکس بندی کرتے ہیں ۔ محسن نقی بھائی سے مل کر مجھے ریڈیو پاکستان کراچی کے اسٹیشن ڈائریکٹر محمد نقی یاد آگئے جو ریڈیوکی مناسبت سے ہونے والی ہر تقریب میں مجھے مدعو کیا کرتے تھے ۔ محفل مشاعرہ میں موجودہ اسٹیشن ڈائریکٹر جناب نوراللہ بگھیو صاحب بھی براجمان تھے ۔ جب تک اسٹوڈیو میں بیٹھا رہا ماضی کی یادوں سے لطف اندوز ہوتا رہا، پروگرام بزم طلبہ، شہر نامہ، اسپورٹس روانڈ اپ ، پھلواری، آؤ بچو کہانی سنیں ، فوجی بھائیوں کے لیے، گھسیٹا خان ، آپ کی فرمائش ، روشنی اور جانے ماضی کے کتنے ہی خوبصورت پروگرام یاد آتے رہے ۔ دوران پروگرام کنٹرول روم کے قریب ہماری نظر ایک ایسی شخصیت پر پڑی جن سے کافی شناسائی رہی لیکن آداب محفل کا تقاضا تھا کہ محفل کے ختم ہونے پر ہی ملاقات کی جائے مگر بدقسمتی سے ملاقات نہ ہوپائی ہمیں یقین ہے وہ محترمہ میمونہ شمیل صاحبہ تھیں جو اب سے پہلے ریڈیو جاپان کی اردو سروس میں اپنی خدمات انجام دے رہی تھیں اکثر جاپان سے وہ ہمارا انٹرویو کیا کرتی تھیں اور سامعین میں بہت مقبول رہیں ۔ آج بھی ریڈیو جاپان کے سامعین ان کا زکر کرتے ہیں ۔

امید ِ واثق ہے ریڈیو پاکستان کراچی سے اس طرح کے پروگراموں کا تسلسل جاری رہے گا اور مستقبل قریب میں بھی ایسے پروگراموں کا انعقاد ہوگا جس میں سامعین کو بھی مدعو کیا جائے گا۔ ایسے پروگراموں کو بھی ترتیب دینے کے بارے میں سوچا جانا چاہیے جن میں ان پروگراموں کی جھلک نظر آئے جو ماضی میں نشریات کی دنیا پر راج کرتے رہے ۔ مجھے یقین ہے سامعین کی بہت بڑی تعداد ماضی کی طرح ایک بار پھر ریڈیو پاکستان سے جڑ جائے گی ۔

 Arshad Qureshi
About the Author: Arshad Qureshi Read More Articles by Arshad Qureshi: 141 Articles with 151039 views My name is Muhammad Arshad Qureshi (Arshi) belong to Karachi Pakistan I am
Freelance Journalist, Columnist, Blogger and Poet, CEO/ Editor Hum Samaj
.. View More