دماغ کی بھوک...

ہمیں جسم کی غذا اور روح کی غذا کا درس دینے والے تو بہت لوگ مل جاتے ہیں لیکن کوئی ہمیں یہ نہیں بتاتا کہ دماغ ہمارے جسم کا سب سے اہم عضو ہے اور اس کو بھی غذا کی ہوتی ضرورت ہے۔

ہمارا دماغ ایک ملٹی ٹیلینٹڈ عضو ہے. یہ ایک وقت میں بہت سے کام سرانجام دے رہا ہوتا ہے. اور مزید بھی دے سکتا ہے ۔ سائنس اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ آپ دونوں ہاتھوں سے ایک وقت میں مختلف کام لے سکتے ہیں. اکثر ناقدین کہتے ہیں کےاسکول میں بچوں کو بہت زیادہ مضامین پڑھائے جاتے ہیں اگر دیکھا جائے تو یہ ہمارے دماغ کی ضرورت ہے اس عمر میں ہمارا دماغ سیکھ لیتا ہے اسے کس علم میں زیادہ دلچسپی ہے وہ کیا پڑھنا , کیا لکھنا یا کس سمت میں جانا پسند کرے گا آیا وہ اپنی توانائی تخلیقی علوم میں یا کسی کھیل میں صرف کرنا چاہتا ہے.

اور یہی مختلف علوم پڑھ کر یا سیکھ کر ہم پرسکون محسوس کرتے ہیں۔یہی ہمارے ذہن کی خوراک ہیں.۔اگر ہم مناسب وقت پر ،مناسب مقدار کی خوراک دماغ کو مہیا نہں کریں گے تو بہت حد تک ممکن ہے کہ یہ متشدد ہوجائے, بالکل ایسے ہی جیسے پیٹ کی بھوک انسان میں حلال اور حرام کا فرق ختم کر دیتی ہے۔ اور جنس کی بھوک انسان کو وحشی جانور سے ملا دیتی ہے جنس کی بھوک کی بات چل نکلی ہے تو میں آپ کو بتاتی چلوں کہ ہمارے جسم میں سب سے زیادہ جنسی خواہشات کو کنٹرول یا بڑھاوا دینے والا عضو بھی دماغ ہی ہے ۔ اگر آپ کے دماغ میں جنسی خواہشات جنم نہ لیں تو آپ کسی صورت بھی جنسی تعلق نہیں قائم کر سکتے ۔ اس لئے جو لوگ ہر وقت جنسی معلومات سے بھرپور لٹریچر پڑھتے یا ایسی فلمیں دیکھتے ہیں. ان کے دماغ پر ہروقت جنس کی بھوک سوار رہتی ہے اور یہ لوگ اپنے دماغ کی صلاحیتوں کو انہی کاموں میں ضائع کر دیتے ہیں.

آپ نے اپنے اردگرد بہت سے الجھے ہوئے لوگ دیکھے ہونگے. جو اپنی بے سروپا یا بے مقصد زندگی سے بہت تنگ ہوتے ہیں. یہ وہ لوگ ہیں, جنہیں اپنے دماغ کی بھوک کا اندازہ نہیں ہوتا اور وہ اس کی مناسب خوراک کا بندوبست نہیں کر پاتے . ایسے لوگوں کے دماغ کو اگر مثبت رویے پر لگا کر کی دلچسپی پوری نہ کی جائے تو یہ فرد کو منفی رویے کی طرف لے جاتا ہے. یہ منفی رویے اس کی زندگی میں بے سکونی بھر دیتے ہیں کچھ لوگ اسی الجھن اور بے چینی سے تنگ آکر خود کو ختم کر لیتے ہیں اس کے پیچھے بھی دماغ کی بھوک کا عنصر ہوتا ہے.

سائنسدان ریسرچ سے یہ بات ثابت کر چکے ہیں ذہن کا مثبت استعمال انسان کے لئے بہت مفید ہے ۔ دماغ کی ایکٹیوٹی نرو سیلز کے درمیان نئے کنکشن پیدا کرتی ہے اور دماغ کو نےء سیل بنانے میں بھی مدد دیتی ہے۔ ذہن کو متحرک رکھنے والی کوئی بھی ایکٹیویٹی دماغ کو تروتازہ اور جوان رکھتی ہے. جیسے کہ نئے علوم حاصل کرنا. مختلف گورکھ دھندوں کو حل کرنا ریاضی کے مسلے حل کرنا، کوئی نئی زبان سیکھنا، یا ایسے تجربات کرنا جس میں ذہنی مشقت ہو اس میں مختلف اقسام کی ڈرائنگز ، پینٹنگز بھی شامل ہیں۔

روزمرہ کی ورزش جس میں انسان مختلف مسلز استعمال کرتا ہے . دماغ میں خون کی شریانوں میں اضا فہ کرتی ہے اور آکسیجن سے بھرپور خون دماغ کے اس حصے کو سپلائی کرتی ہیں جو کہ ہماری سوچنے کے عمل اور تخلیقی کاوش میں کام آتا ہے اس کے علاوہ روز کی ورزش دماغ کے درمیان روابط کو بہتر بناتی ہے اور بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ انہیں لچکد دار اور مشکلات کو سمجھنے اور حل کرنے کے قابل بناتی ہے.

جو لوگ بہت زیادہ پریشان یا ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں یا جن کی نیند پوری نہ ہوتی ہو اور ہر وقت تھکاوٹ کا شکار رہتے ہو ان لوگوں میں ذہنی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے.

جن لوگوں کے معاشرتی تعلقات مضبوط اور مثبت ہوتے ہیں ان کو بڑھاپے میں بھولنے کی بیماری کم لگتی ہے کیونکہ وہ لوگ پریشانیاں بانٹ کے اپنے ذہن کو ہلکا پھلکا کر لیتے ہیں۔

اچھی ذہنی صحت کا مطلب صرف ذہنی بیماریوں سے نجات ہی نہیں بلکہ ہم کیا سوچتے ہیں ,کیسا محسوس کرتے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر کیسا رویہ اپناتے ہیں یہ سب چیزیں ہمارے ذہن کی صلاحیتوں مثلا ذہنی دباؤ کو ختم کرنا, چیلنجز کا مقابلہ کرنا, نئے رشتے بنانا اور روزمرہ کی زندگی میں پیش آنے والے معاملات پر اثر انداز ہونا کے مرہون منت ہوتے ہیں. اگر ہم لوگ اپنے دماغ کی بھوک کو مد نظر رکھتے ہوئے ,اسکو پسندیدہ کاموں میں مصروف رکھیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم اپنی تمام زندگی پور طریقے سے لطف اندوز ہو سکیں گے لیکن اگر ہم اپنی سہل پسندی کو مد نظر رکھتے ہوئے دماغ کی بھوک کو نظر انداز کردیں گے تو بڑھتی عمر کے ساتھ تباہی کن زندگی ہماری منتظر ہوگی ورنہ ہمارے دماغ کی صلاحیتیں ہمیں نوجوانی میں ہی بھٹکا کر ختم کر دیں گی۔۔۔۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Sadaf Umair, Psychologist
About the Author: Sadaf Umair, Psychologist Read More Articles by Sadaf Umair, Psychologist: 4 Articles with 3255 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.