4/فروری 2017ء کا سورج طلوع ہوا تو کسی کو خبر نہ تھی کہ
یہ سویرا اردو ادب کی ایک مایہ ناز شخصیت کا اس جہانِ فانی میں آخری سویرا
ہو گااور جیسے ہی سورج غروب ہوگا اس کے ساتھ ہی ناول نگاری، ڈرامہ نگاری
اور کہانیاں کہنے والی پاکستان کی معروف ادیبہ کی زندگی کا چراغ بھی بجھ
جائے گا۔۔اردو ادب کی یہ کہنہ مشق مصنفہ بھارت کے شہر فیروز پور میں
28/نومبر1928ء میں پیدا ہوئی اور زندگی کی88 بہاریں دیکھ کر جہانِ ابد کو
سدھار گئی۔ پاکستان بلکہ دنیائے اردو ادب کی یہ بے مثال ناول نگار بانو
قدسیہ جو زوجہ اشفاق احمد بھی تھیں، کا انتقال نہ صرف اردو کے مصنفین کے
لیے ایک بڑا دھچکا ہے بلکہ اردو زبان و ادب سے محبت رکھنے والوں کے لیے بھی
کسی بڑے سانحے سے کم نہیں ہے۔
تقسیم ہند کیساتھ ہی بانو قدسیہ کا خاندان پاکستان ہجرت کر آیا۔اس وقت بانو
قدسیہ مشرقی بھارت کے صوبے ہماچل پردیش کے دارالحکومت(موسمِ سرما) دھرم
شالا کے ایک سکول میں زیرِ تعلیم تھیں۔ ہجرت کے بعد لاہو ر میں سکونت
اختیار کی اور کنیئرڈ کالج لاہورسے بی۔ اے اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور
سے1951ء میں اردو میں ایم۔اے کیا۔1955ء میں ان کی شادی معروف ادیب اور
ڈرامہ نگار اشفاق احمد سے ہو گئی۔ان کے اپنے بیان کے مطابق اشفاق احمد کے
ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو کر بہترین گھریلو زندگی بسر کررہی تھیں کہ
ایک دن اشفاق احمد انہیں باورچی خانے سے بلا کر صحن میں لے گئے اور کہنے
لگے کہ”کھانا پکانے کے علاوہ بھی تم کوئی کام کرسکتی ہو“؟ ”میں نے کہا، ہاں،
لکھ سکتی ہوں شاید“۔”پھر کہنے لگے، لکھتی کیوں نہیں“۔ ”میں نے کہا، پانچویں
جماعت میں تھی جب میں نے پہلا اردو افسانہ لکھا تھا“۔کہنے لگے اس کا نام
کیا تھا“؟،”میں نے کہا فاطمہ“۔بولے ”بس آج سے لکھنا شروع کردو“۔ اور یوں
بانو قدسیہ کی زندگی نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا جس نے ”راجہ گدھ“ جیسے
شہرہ آفاق ناول کی تخلیق کرائی۔
بانوقدسیہ عصرِ حاضر میں اردو کی ایک معتبر ادیبہ تھیں۔ان کی تخلیقات اردو
ادب کا خزینہ ہیں جو قارئین سے ہمکلام ہو کر انہیں مقصدِ حیات سے متعارف
کراتی ہیں۔ان کی تصانیف اردو زبان وادب کا حسن اور زندگی نیز مقاصدِ حسنہ
کی علامت ہیں۔بانو قدسیہ ادب میں سچا اور سُچا ادب تخلیق کرنے کی قائل
تھیں۔وہ تاریخ کو بہت اہمیت دیتی تھیں۔وہ اس بات پر بہت زور دیتی تھیں کہ
ادیب کو مسلک سے بالا تر ہو کر سچ لکھنا چاہیے۔ان کا خیال تھا کہ تربیت کے
بنا علم معاشرے اور خاندان دونوں کو بگاڑ دیتا ہے۔بانو قدسیہ کہتی تھیں،”جب
مرد خدا کا حکم نہیں مانتا تو وہ مسائل میں گھر جاتا ہے اور جب عورت اپنے
مرد کا حکم نہیں مانتی تو وہ مشکلات کا شکار ہوجاتی ہے۔“
بانو قدسیہ کی پچیس تخلیقات زیورِ طباعت سے آراستہ ہوئیں، ان میں راجہ گدھ،
آتشِ زیرپا، آدھی بات، ایک دن، امربیل، آسے پاسے،بازگشت، چہارچمن، دست بستہ،
دوسرا دروازہ، دوسرا قدم،فٹ پاتھ کی گھاس، حاصل گھاٹ، حوا کے نام، کچھ اور
نہیں اور چھوٹا شہر بڑے لوگ اہم ہیں۔ 2003ء میں ان کی ادبی خدمات کے اعتراف
میں حکومتِ پاکستان نے انہیں ستارہئ امتیاز اور2010ء میں ہلالِ امتیاز سے
نوازا۔
|