کیا حکومت نواز شریف کو برطانیہ سے پاکستان واپس لا سکے گی؟

image


اتوار کو وزیراعظم پاکستان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بیان دیا کہ 'علاج کے غرض سے پاکستان سے برطانیہ جانے والے وی آئی پی قیدی میاں محمد نواز شریف کو پاکستان واپس لانے کا وقت آچکا ہے۔ اس لیے وفاقی حکومت برطانوی حکومت کو یہ خط لکھنے جا رہی ہے کہ ان کو برطانیہ سے جلا وطن کیا جائے'۔

اس بیان کے ردعمل میں مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثنا اللہ نے کہا کہ ’میں تحریک انصاف کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ لندن میں علاج کی غرض سے مقیم سابق وزیر اعظم نواز شریف کو ملک بدر کروانے کے لیے برطانیہ کی حکومت سے رجوع کریں۔‘

حکومت کے اس اقدام کے بارے میں بی بی سی نے چند ماہرین سے اس کے قانونی پہلوؤں پر بات کی۔

قانونی پہلو
کسی شخص کی حوالگی سے متعلق بین الاقوامی قوانین کے بارے میں بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے وکیل ہاشم احمد خان نے بتایا کہ نواز شریف کو پاکستان لانے کے لیے حکومت کو ایک مخصوص طریقہ کار اپنانا پڑے گا اور یہ فیصلہ برطانوی ہوم سیکریٹری پر منحصر ہے۔

ان کے مطابق ’اگر حکومت پاکستان برطانوی حکومت سے درخواست کرتی ہے کہ میاں محمد نواز شریف کو پاکستان بھیجا جائے تو اس کے لیے سب سے پہلے انھیں برطانوی ہوم سیکریٹری کی رضامندی درکار ہوگی جس کے بعد ہی برطانیہ میں نواز شریف کے خلاف کسی قسم کی قانونی کارروائی کی جا سکے گی۔ جبکہ اس کے بعد بھی برطانوی حکومت اپنے قانون کے مطابق اس بات کا جائزہ لے گی کہ اس شخص کو وہ نکالیں یا نہیں۔‘
 

image


انھوں نے برطانیہ کے حوالگی کے قانون 2003 کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ برطانوی حکومت سب سے پہلے یہ دیکھتی ہے کہ جس ملک کی طرف سے حوالگی کی درخواست آئی ہے کیا اس ملک کے ساتھ برطانیہ کا دوطرفہ معاہدہ ہے یا نہیں۔ کچھ ممالک ایسے ہیں جن کے ساتھ برطانوی حکومت اپنے قانون اور معاہدے کے تحت مجرموں کا تبادلہ کرتی ہے اور بعض مخصوص کیسز میں یکطرفہ حوالگی بھی کی جاتی ہے لیکن پاکستان کے ساتھ برطانیہ کا کوئی ایسا معاہدہ نہیں ہے۔

اگر برطانوی ہوم سکریٹری پاکستان کی درخواست پر میاں محمد نواز شریف کا معاملہ آگے چلانے پر رضامندی کا اظہار کر دیتے ہیں تو پھر انھیں مجسٹریٹ کورٹ میں پیش کیا جائے گا۔

وکیل ہاشم احمد خان کے مطابق ’وہاں پاکستانی حکومت کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ کس بنیاد پر ان کو پاکستان واپس لے جانا چاہتی ہے۔ اس کے علاوہ برطانوی کورٹ میں یہ بھی بتایا جائے گا کہ میاں محمد نواز شریف کس کیس میں سزا یافتہ ہیں۔ جبکہ انھیں اس کیس کے تمام شواہد بھی عدالت کے سامنے پیش کرنے ہوں گے۔
 

image


اس کے بعد برطانوی کورٹ اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ کیا جو درخواست یا اپیل کی گئی ہے، وہ درست بھی ہے یا نہیں۔ اگر فیصلہ کسی شخص کے خلاف آ بھی جاتا ہے تو بھی اس شخص کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں فیصلے کے خلاف اپیل کر سکتا ہے جس میں تقریباً کم از کم دو سال لگ ہی جاتے ہیں‘۔

وکیل ہاشم احمد خان کے مطابق ’ان تمام باتوں کے علاوہ بھی برطانوی قانون میں دو اہم نکات کا بہت خیال رکھا جاتا ہے جس میں انسانی حقوق اور سیاسی طور پر ظلم کا نشانہ بنایا جانا بھی شامل ہیں۔ اس طرح میاں محمد نواز شریف کیونکہ طبی بنیادوں پر عدالت سے ضمانت لے کر گئے تھے اس لیے برطانونی عدالت یہ پہلو بھی دیکھے گی کہ کیا ایک بیمار شخص کو وطن واپسی پر جیل میں تو نہیں ڈال دیا جائے گا جو کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اگر ہم ان تمام پہلوؤں کو دیکھیں تو یہ کافی مشکل ہے کہ حکومت میاں محمد نواز شریف کو پاکستان لانے میں کامیاب ہو سکے گی۔‘

ماہر قانون سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ کیونکہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان حوالگی کے قانون کا کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے اس لیے برطانونی حکومت اس بات کی پابند نہیں ہے کہ وہ پاکستانی حکومت کی طرف سے نواز شریف کی حوالگی کی درخواست پر عمل بھی کرے۔

ان کا کہنا ہے ’اس سے پہلے بھی پاکستانی حکومت اسحاق ڈار کے حوالے سے کافی مرتبہ برطانیہ کو لکھ چکی ہے لیکن انھوں نے نہیں مانا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ میاں محمد نواز شریف سزا ملنے کے بعد برطانیہ گئے جبکہ اسحاق ڈار اس سے پہلے ہی وہاں چلے گئے تھے۔ اس لیے پاکستانی قانون کے مطابق یہ صرف برطانیہ کو لکھ سکتے ہیں آگے ان کا باقاعدہ ایک قانوی طریقہ کار ہے جس کے مطابق وہ کام کرتے ہیں۔‘

نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایک ماہر قانون نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اگر سنگین جرم جیسے دہشتگردی ہو یا کوئی ایسا شخص جس کی وجہ سے لوگوں کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہو، ایسی صورتحال میں ایسا ممکن ہے کہ ثابت ہونے پر برطانوی حکومت کسی بھی شخص کا ویزہ کینسل کر سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت پاکستان کے نمائندگان کی جانب سے جو بات کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ہم برطانوی حکومت کو لکھیں گے کہ وہ میاں محمد نواز شریف کو اپنے ملک سے جلا وطن کریں۔ جبکہ حوالگی کے قانون اور جلاوطن کرنے کے قانون میں یہ بات ایک جیسی ہے کہ جس شخص کے بارے میں درخواست دی گئی ہے کیا اسے سیاسی طور پر ظلم کا نشانہ تو نہیں بنایا جا رہا۔ تو وہ ایسی درخواستوں کو نہیں مانتے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’تاہم نواز شریف کو جب بھی کوئی ایسا نوٹس گیا تو ان کے وکلا انہی دلائل کا استعمال کریں گے کہ انھیں سیاسی مقاصد کے لیے پاکستان بلایا جا رہا ہے جس کی قانون میں بہت اہمیت ہے۔ اس لیے میرے خیال میں ان کو ایسے واپس لانا بہت مشکل ہے۔‘
 


Partner Content: BBC

YOU MAY ALSO LIKE: