‎غرارے زمین پر

شادی بیاہ کے موقع پر دلہن کے پہنے جانے والے خوبصورت اور قیمتی ملبوسات کے بارے میں عام طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ یہ ایک دن کے بعد پھر نہیں پہنے جاتے ۔ یہ بات اتنی بھی صحیح نہیں ہے خود اپنی شادی کے بعد پھر کچھ عرصہ تک گھر خاندان یا بہت قریبی جاننے والوں کے ہاں کوئی شادی ولیمہ وغیرہ کی تقریب ہو تو یہ لباس بصد شوق پہن لیے جاتے ہیں ۔ اور کچھ برادریوں اور قبیلوں میں تو رواج ہے کہ پہلے بچے کی پیدائش کے بعد اس خوشی میں منعقد کی جانے والی تقریب میں ماں اپنے نکاح کا جوڑا ہی زیب تن کرتی ہے ۔ مگر بہت امیر کبیر اندھا دھند دولت رکھنے والے لوگوں میں واقعی شادی یا ولیمے کا لباس پھر دوبارہ نہیں پہنا جاتا کوئی موقع آتا ہے تو پھر سے نئے لباس بنوائے جاتے ہیں ، بھئی وہ کوئی ایسے گرے پڑے لوگ تھوڑی ہوتے ہیں کہ پرانے کپڑے دوبارہ پہنیں یہ تو ہم جیسے پھٹیچروں اور مڈل کلاسیوں کی مجبوریاں ہوتی ہیں جنہیں ہم کفایت شعاری کا نام دے دیتے ہیں ۔ اور دولہا کی شیروانی تو کسی کے ہاں بھی دوبارہ کبھی نہیں پہنی جاتی یہاں پھوہڑ پنا اپنے پیک پر ۔

ابھی چند روز پہلے میڈیا پر ایک تصویر بہت وائرل ہوئی تھی ، جس میں دھان پان سی دلہن کا منوں وزنی اور ٹنوں گز لمبا چوڑا شرارہ پورے اسٹیج پر سے ہوتا ہؤا ستاروں سے آگے ............... ہمارا مطلب نیچے سیڑھیوں سے بھی آگے تک تجاوز کر رہا تھا جیسے کوئی شامیانہ زمین بوس ہو گیا ہو ۔ بلاشبہ اس ایک شرارے میں سے کئی اور شرارے نکل سکتے تھے (غریب لڑکیوں کے ۔ سوشل میڈیائی دانشوروں کے سدا بہار دُکھڑے ) مگر بھلا کیوں نکلتے بھئی؟ جن کا مال تھا ان کی مرضی کہ وہ اپنے اوپر کم خرچ کریں یا زیادہ ، ہم کون ہوتے ہیں شرارے ............... مطلب کہ مشورے دینے والے؟ بس یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ دلہن اس پورے تنبو کو ساتھ لے کر گاڑی میں کیسے بیٹھی ہو گی؟ یا تنبو کو باقی کے لباس سے الگ کر کے کسی کیری وغیرہ میں لوڈ کر کے لایا گیا پھر لے جایا گیا اچھا خاصا سرکس تو لگا ہو گا ، خیر ہمیں کیا؟ ایسے ایشوز پر زیادہ سوچنے سے دماغ میں موچ آجاتی ہے ۔

مگر ابھی دو چار روز پہلے پھر ایک اور شادی اور ولیمے کی پکس اور وڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگیں ۔ سابق قاضی صاحب کی بہو کے زرق برق بھاری بھرکم عروسی لباس کی قیمت کے بارے میں ہوشربا انکشافات کئے گئے اور کچھ نامعقول سوالات اٹھائے گئے ۔ اور سوشل میڈیائی ناہنجاروں کی بےخبری کا یہ عالم کہ ایک ہی کیپشن کبھی شادی والی تصویر پر کبھی ولیمے والی تصویر پر ۔ بہرحال دونوں ہی موقعوں پر زیب تن کئے جانے والے عروسی ملبوسات لمبی قمیص کے ساتھ فرشی شراروں پر مشتمل تھے جنہوں نے قوم کی بچی کھچی خوش فہمیوں کو بھی عرش سے فرش پر لا پٹخا اور ان سبھوں کی آنکھیں کھول کر انہیں شرارے برسانے پر مجبور کر دیا ۔ ویسے کبھی کسی وقت فرشی غرارے ہؤا کرتے تھے ہم میں سے بہت سوں کی ماؤں نے اپنی شادی پر غرارے ہی پہنے تھے پھر لہنگوں کا رواج آیا یعنی ایک پائنچے والا غرارہ اور اسے شرارہ کا نام دیا گیا شاید مہنگا ہونے کی وجہ سے ۔ اور اب پچھلے چند برسوں سے غرارہ دوبارہ سے مقبولیت کی سند پا چکا ہے اور بلا تخصیص ہر عمر کی خواتین میں مروج ہو چکا ہے ۔ اس کی سب سے بڑی خوبی ہے زمین کو جھاڑنا اور ٹخنوں سے اونچے پائنچوں والے خدائی خوار پاجاموں اور شلواروں کا منہ چڑانا ۔ باقی قوم کا منہ تو آئے روز کسی نا کسی بہانے چڑایا ہی جا رہا ہوتا ہے تفصیل بہت طویل ہے مختصر یہ کہ عروسی شراروں کو لے کر سوشل میڈیا پر انتشار پھیلانے والے شرپسندوں کے خلاف کارروائی کی خبر ہے اب گھسیٹے جاویں گے سُسرے کورٹ میں اور بھگتاویں گے پیشیاں ۔ ہیں کتنے خوبصورت اس آگ کے غرارے ............ (رعنا تبسم پاشا)
 

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 228 Articles with 1854634 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.