ماہنامہ ’ندائے گُل‘ خصوصی شمارہ 2019 ء

ماہنامہ ’ندائے گُل‘ کا خصوصی شمارہ 2019ء اس وقت میرے پیش نظر ہے۔ میری اس میں کوئی تحریر نہیں البتہ میرے بعض مہربانوں کی تخلیقات اس میں موجود ہیں۔ یہ خصوصی ضخیم شمارہ لاہور سے سفر کرتا ہوا کراچی پہنچا اور پھراس کی ایک کاپی فیصل جوش کے توسط سے مجھ تک پہنچی۔ بات ہے14دسمبر 2019ء کی، فیصل جوش نے ہمیں عارف باحلیم سے ہاٹ ایف ایم 105 ریڈیو کے دفتر واقع شاہراہ فیصل ”حفیظ پلازہ“ میں دعوت دی، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ چند تخلیق کار بھی ہوں گے،گپ شپ رہے گی،ایک مقصد ہاٹ ایف ایم 105 ریڈیو پر پروگرام ’کتابیں بولتی ہیں‘ میں ہمارے مضامین پر مشتمل کتاب کا تعارف کے حوالے سے دن اور وقت طے کرنا تھا، جو ہوااور کتاب کا تعارف بھی ایک جمعہ کی شب پیش کیا گیا۔ ہم طے شدہ پروگرام کے مطابق ان کے دفتر پہنچ گئے، کچھ ہی دیر میں ہم تخلیق کار،شاعر، ادیب، و دانش ورفیروز ناطق خسرو،ناول نگار، صحافی، کالم نگار اقبال خورشید، فیصل جوش، عارف با حلیم اورادبی جریدے ’کولاش کے مدیر اقبال نظر کے ساتھ تھے۔ تعارف کے بعد علمی ادبی موضوعات پر گفتگو رہی۔ فوٹو سیشن کے ساتھ اقبال نظرصاحب نے کولاژ کا شمارہ دس 2019، اقبال خورشید نے اپنی کتاب تکون کی چوتھی جہت، فیروز ناطق خسرو صاحب نے اپنی کتاب اور فیصل قریشی نے ماہنامہ ندائے گُل کا سالنامہ 2019 عنایت فرمایا۔لکھنے کی مصروفیات کے پیش نظر وقت کافی گزرگیا، اس علمی، ادبی، معاشرتی روایات کے علمبردار جریدے کے خصوصی شمارہ پر نہ لکھ سکا۔ دیر آید درست آید۔ فیصل جوش اور مدیر جریدہ سے معزرت کے ساتھ اظہاریہ پیش خدمت ہے۔

خصوصی شمارہ 632صفحات وہ بھی بڑے سائز میں۔سفیان اصغر طور صاحب اس کے مدیر ہیں۔ محمد جاوید انور معروف افسانہ نگار و شاعر اس کے اعزازی مدیرہیں ساتھ ہی شہزاد شاکر طور بھی اعزازی مدیر ہیں۔ خصوصی شمارہ جلد 7 کا شمارہ 2 ہے، گویا اس جریدے کو جاری ہوئے ساتواں سال ہے۔ اس میں ادب کے حوالے سے کیا کچھ نہیں ہے،ادب کی تمام اہم اصناف پر معروف لکھنے والوں کی نگارشات شامل ہیں۔اداریہ کا آغاز ایک معروف شعر سے کیا گیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے مدیران نے جریدے کا اجراء تنہا ہی کیا ہوگا، رفتہ رفتہ علمی و ادبی شخصیات ساتھ ہوتی گئیں۔ ریختہ پر یہ شعر معروف شاعر مجروح سلطان پوری کا اس طرح لکھا ہوا ہے۔
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب ِمنزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

مدیر نے اداریے میں بہت اچھی بات کی جس کا میں بھی قائل ہی نہیں بلکہ ”ہماری ویب رائیٹرز کلب“ کے صدر کی حیثیت سے میرا اور میرے ساتھیوں کا بنادی مقصد بھی یہی ہے اور ہم اس مقصد کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ مدیر نے لکھا”چونکہ ماہنامہ ”ندائے گل ادبی فورم و جریدہ“ کے مقاصد میں ہے کہ نئے لکھنے والوں کو سامنے لایا جائے تو اسی وجہ سے اس سالنامہ میں بھی اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے، نئے افسانہ نگاروں کے افسانے اور شاعروں کی شاعری کو بھی شامل کیا گیا ہے تاکہ نے لکھنے والوں کی حوصہ افزائی ہو اور لکھنے کا عمل رکے نہیں“۔’ندائے گل‘ کے مدیران کے اس مقصد کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔ آج نئے لکھنے والے نئے ہیں، ان کی حوصلہ افزائی ہوگی تب ہی یہ مستقبل کے سینئر لکھنے والے بن سکیں گے۔ مدیر ان’ندائے گل‘کی اس سوچ اور عمل قابل تحسین ہے۔

آغاز حمد، نعت ِ رسول مقبول ﷺ اور سلام سے ہوا ہے۔ حصہ اول افسانوں پر مشتمل ہے، اس حصہ کی ایک خاص بات جو مجھے محسوس ہوئی کہ اس میں کل17افسانوں میں سے 8افسانوں کے لکھنے والوں کا تعلق بھارت سے ہے، یعنی 8افسانہ نگار بھارت سے تعلق رکھتے ہیں، ایک ایک امریکہ،یونان اور مقبوضہ کشمیر باقی پاکستانی افسانہ نگار ہیں۔ ادب ہر طرح کی تقسیم سے آزاد ہوتا ہے، اس کی کوئی حدود ہیں ہوتیں۔ اس طرح پڑوسی ملک جو سیاسی طور پر پاکستان سے کدورت رکھتا ہے، ادیبوں، شاعروں کی سطح پر قریب، پیار، محبت اور قربت کا رشتہ استوار ہوسکے گا۔ یونان کے شہر ایتھنز کے باسی میرے علمی و ادبی دوست چودہدی بشیر شاد کا افسانہ ”گورگخ (بجُو) خصوصی شمارے کا حصہ ہے،شاد صاحب کا افسانہ خوبصورت تحریر، منفرد اسلوب، منظر نگاری کا خوبصورت انداز، مضبوط پلاٹ، جاندار کردارافسانے کی خاص باتیں ہیں۔ اس کے علاوہ محمد جاوید انور کا افسانہ ”دروازہ“ کا موضوع دلچسپ اور ایک اچھا لکھنے والی کی کہانی ہے جو بد دل ہوکر لکھنا چھوڑ دیتا ہے۔ افسانہ کا آغاز ہی اس جملے سے ہوا ہے ”کہہ دیا نا میں نے لکھنا چھوڑ دیا ہے“۔ افسانہ نے دو کردار وحید ارشد اور ساجد صاحب ہیں، ساجد صاحب ایک چائے خانے سے جڑے ہوئے تھے ساتھ ہی ٹی روم کنٹریکٹر تھے،انہوں نے افسانہ نگار وحید ارشد کا حلیہ کچھ اس طرح لکھا ”وحید ارشد سیاہی مائل گندمی رنگت کا منحنی سا انسان تھا۔ چیچک کے خال خال داغ اس کے انتہائی سندجیدہ اور کرب ناک حد تک غمگین نظر آتے چہرے کو دلچسپ بناتے تھے۔ وہ کہنے کو تو بلدیہ میں کلرک تھا لیکن اس کی زندگی کا عشق افسانہ نویسی تھا“۔ افسانے میں ساجد صاحب افسانہ نگار ارشد کو افسانہ نگاری اورکتابیں لکھنے سے کنارہ کشی اختیار کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ارشد انہیں کیا خوب جواب دیتا ہے۔ ارشد کہتا ہے ”کتاب کی بھی خوب کہی۔ کوئی ایک سو چالیس کے لگ بھگ افسانے لکھ چکا ہوں۔ دو کتابیں بھی بھلے وقتوں میں چھپ گئیں۔ صحیح بات تو یہ ہے کہ اپنا خرچ نکال کر تھوڑے پیشے مجھے بھی چھوڑ گئیں“۔آگے ارشد کہتا ہے”ان دنوں ادبی جرائد نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔ جو چند کام کے ہیں بمشکل ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلباکے برے بھلے تنقیدی مضامین اور پھر اپنے گروپ کے چند لوگوں کے افسانے اور غزلیں نظمیں لگاتے ہیں۔ کچھ کلاسیکی چیزیں پرانی لگتی ہوتی ہیں۔ آپ اگر افسانہ دو تو پھر دے کر بھول جاؤ۔ پتا نہیں کب پرچہ نکلے اور چھپے یا نہ چھپے۔ پھر اگر چھپ بھی جائے تو اکثر کو ایک اعززی پرچہ تک نہیں بھیجتے۔ پتا نہیں یہ مجلے دو درجن چھپتے ہیں کہ تین درجن جو کہیں نظر نہیں آتے، نہ اسٹال پر نہ کسی کتابوں کی دکان پر۔ ہم پرانے لوگوں کو سوشل میڈیا کی زیادہ خبر نہیں۔ سنا ہے وہاں کچھ ادبی فورم دھوم مچائے ہوئے ہیں۔ میرے بھی دو چار افسانے کسی نے لگوادیے۔ سچ کہوں تو کچھ پتا نہیں چلا کہ کیا ہوا۔ میرے بڑے لڑکے نے پڑھ پڑھ کر تبصرے سنائے تو ایک دو ناموں کے علاوہ سب ناماس نام“۔

اگر میں تمام افسانوں، مضامین کا حال مختصر مختصر بھی یہاں لکھتا ہوں تو یہ بہت طول پکڑجائے گا۔ یہاں تک کہ مصنفین کے نام اور ان کے افسانوں و مضامین کے نام بھی لکھتا ہوں تو بات بہت طویل ہوجائے گی۔ حصہ اول کے تحت 17غزلیں ہیں۔ دیکھئے اعظم کمال کی ایک غزل کا ایک شعر۔
لہو پسند ہے جن کو وہ راج مانگتے ہیں
عجیب لوگ ہیں سب تخت و تاج مانگتے ہیں
شبیر نازش کی غزل کا ایک شعر دیکھئے۔
گر نہیں وصف تو پھر عیب اچھالے میرے
عشق میں کچھ تو رہیں زندہ حوالے میرے
ناز بٹ کا ایک شعر
خیال و خواب میں ہی مُسکرانے لگے ہو
کسی کو سوچوں تو تُم یاد آنے لگتے ہو

نظموں کے حصے می ڈاکٹر ابرار احمد، مسعود عثمانی، سلمان باسط، راحت سرحدی، محمد جاوید انورکی نظم سراب، ڈاکٹر شفیق آصف کی نظم فلک مجھے آز مارہاہے، سعید اشعر کی اس بستی میں مت جا، بشریٰ شیریں کی پکار، زحیم رشید، صفدر یوسف بلقیس خان، زرقانسیم،یت علی، مجاہد خان تاثیر، شہزاد شاکر طورکی بھول سکو کیا گے کیا تم، سعید احمد اور منظر منعم کی غزل شمل ہے۔ ڈاکٹر شفیق آصف کی مختصر نظم ”فلک مجھے آزما رہا ہے“۔
نئے رِتون کے نئے تقاضے
فراق کے ے وصال لمحے
چھپی ہوئی خواہشوں کے چہرے
یہ بے ثمر سوچ رُت کے عنوان
یہ میرا دل اور یہ میرے ارماں
یہ خشک دھرتی کے خواب پیا سے
یہ خالی آنکھوں کے خالی کاسے
ہیں کس کی یادوں کے یہ دلاسے
یہ کیا تماشا دکھا رہا ہے
فلک مجھے آزما رہا ہے

تنقید کے حصے میں خواجہ احمد عباس کی افسانہ نگاری، کرشن چندر کی طنز و مزاح نگاری، جاوِداں کہانیاں، نیلم ملک کے مجموعہ ’نیلی آنچ‘ پر تاثرات، اکرم کُنجاہی کا مضمون ”ناز بٹ کی وارفتگی ”گنبِد ذات کی باز گشت‘، ایک اچھاتنقیدی مضمون ہے، اردو افسانے میں انتظار حسین کا امتیاز و اختصاص، شعروں اورکہانیوں کا دہقان۔ علی اکبر ناطق،ڈاکٹر سعادت سعید۔کجلی بن وار الحان کے آئینے میں، سا لک جمیل براڈ کی ’مٹی کے رنگ‘، دیپک بُد کی کے افسانے ’زخموں کے اُجالے‘ کا تجزیہ، دیپک کنول کے افسانوں میں امن و انسان دوستی کا پیغام، ادب، ادیب اور پاکستانیت ایک جائزہ، آغا حشر کاشمیری اور ڈرامہ نگاری، آواز دوست کا تجزیاتی مطالعہ، ٹوٹی ہوئی سڑک کے افسانے۔جمیل اخترشامل ہیں۔ افسانے سے افسانچہ، ناول سے نا ولچہ اوریہاں سفرنامہ کی ایک نئے اصطلاح ”سفرانچہ“ سامنے آئی، جس کے تحت چودھری محمد امین سندھو کا سفرانچہ ”قصور سے بابو سرٹاپ تک“عمدہ تحریر ہے۔ مائیکرو فکشن بھی ہیں، انٹر ویو کے تحت ناول نگار، افسانہ نگار گلزار ملک سے مکالمہ ہے، اس خصوصی شمارے کی خاص بات اہل علم و ادب کے ’گوشے“ ہیں۔ ان میں گوشہ محمد حمید الدین شاہد، گوشہ جمیل احمد عدیل، گوشہ ثفر محمود ہاشمی، گوشہ سید تحسین گیلانی، گوشہ ڈاکٹر دانش عزیز اور گوشہ محمد ساجد شامل ہیں۔ حصہ سوم میں بھی افسانے ہیں ان میں فیصل جوش کا افانہ دوسرا کپ، انشائیہ میں بستہ، انتقال، ڈرائیونگ لائسنس، مارننگ ڈاک۔ پنجابی نثراور پنجابی شاعری نظم و غزل پر مشتمل حصے ہیں۔

مجموعی طور پر مدیران ماہنامہ ’ندائے گُل‘ نے خصوصی شمارہ کو معیاری ادبی تخلیقات نثر و نظم سے بھر پور طریقے سے مرتب کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے جس میں وہ کامیاب نظر آتے ہیں۔ ادبی جریدہ نکالنا کوئی آسان کام نہیں، ہر اعتبار سے علمی و ادبی مواد حصول، ترتیب و اشاعت مشکل اور تکلیف دہ مراحل ہوتے ہیں۔ معیاری اور ضخیم مجلہ کی اشاعت پر مدیران کو ڈھیروں مبارک باد۔ (4 مارچ2020ء)

 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437642 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More