راغبؔ مُرادآبادی کی شاعری کی چند جہتیں اکرم کُنجَاہی کی نظر میں

راغبؔ مُرادآبادی کی شاعری کی چند جہتیں اکرم کُنجَاہی کی نظر میں
٭
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
میں نے اکرکُنجاہی کے افسانوں کے مجموعہ ”دامنِ صَد چاک“ میں چند دن قبل اپنے اظہاریے میں لکھا تھا کہ ”کراچی کے ادبی افق پر اکرم کُنجاہی کو روشن ہوئے کم ہی عرصہ ہوا ہے۔ وہ تیزو تند ہوا کے جھونکے کی مانند آئے اور کراچی کے علمی، ادبی حلقوں میں ایسے گھل مل گئے جیسے وہ برسوں کے ادبی دوست ہوں۔ ملنسار و ہمدر، خوش اخلاق و خوش گفتار، مجازاً متمدن، خلیق و شفیق، خوش بیان و شیریں سخن انسان ہیں۔ اکرم کُنجاہی صاحب سے میری پہلی ملاقات ایک ادبی نشست میں ہوئی جسے بہت عرصہ نہیں ہوا۔ یہ تقریب تھی معروف ناول نگار و کالم نگار محترمہ نسیم انجم اور معروف کہانی کار، خاکہ نگار، سید محمد ناصر علی کی کتابوں کی تقریب اجراء جو 2مئی2019ء کو کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے زیر اہتمام پریس کلب میں منعقد ہوئی تھی، تقریب کی صدارت اکرم کُنجاہی صاحب نے کی تھی جب کہ مجھ ناچیز کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے کتاب پر کچھ کہنا تھا۔ یہاں میں نے اکرم کُنجاہی کو پہلی مرتبہ کسی بھی علمی موضوع پر گرجتے، برستے اور شعلہ بیانی کرتے دیکھا، خوب بولتے ہیں، اچھا بولتے ہیں، تسلسل اور ربط کے ساتھ بولتے ہیں، موضوع کو مکمل گرفت میں رکھتے ہوئے بولتے ہیں، موضوع پر مستعدی اور سج دھج کے ساتھ بولتے ہیں، ان کا حافظہ ماشاء اللہ غضب کا ہے۔ اس کے بعد ان سے جب بھی ملاقات ہوئی کسی نہ کسی ادبی تقریب میں ہی ہوئیں جہاں وہ بھی اسٹیج پر اور مَیں بھی اسٹیج پر ہوتے اور موضوع پر گفتگو تو تقریب کا لازمی حصہ ہوتی ہی ہے۔
9فروری2020ء کی بات ہے کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کی جانب تھی افسانوں کے مجموعوں کی تقریب اجراء تھی۔اکرم کُنجاہی صاحب کوئی جلدی جانا تھا اس وجہ سے اولین مقرر کی حیثیت سے افسانوں کے مجموعوں پر اظہار خیال کیا اور چلے گئے، اکرم کنجاہی صاحب بنیادی طور پر شاعر و افسانہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ تنقید نگار بھی ہیں، اب سب لوگ ہماری طرح توصیف نگار تو نہیں ہوتے، اس لیے ان کی گفتگو میں حقیقت پسندی ہوتی ہے، کچھ کچھ تنقید بھی ہوتی ہے جو ہضم نہیں ہوپاتی، حالانکہ ایک تنقید نگار کی تنقید تعمیری ہوتی ہے وہ تنقید برائے تنقید نہیں ہوتی۔بات کہیں اور چلی گئی، اس تقریب میں ہم جوں ہی پہنچے، کنجاہی صاحب نے جھٹ اپنے بستے سے دو عدد کتابیں نکالیں اور ہمیں تھمادیں، ساتھ ہی فرمایا کہ اُنہیں جلدی جانا، اس وجہ سے کہیں یہ میرے ساتھ ہی واپس نہ چلی جائیں۔ ان دو تصانیف میں ایک شعری مجموعہ ”دامنِ صَد چاک“ تھا جس پر ہم کچھ روز قبل ہی بساط کے مطابق لکھ چکے ہیں اور دوسری کتاب’راغب مراد آبادی (چند جہتیں)‘ تھی۔ اس وقت ان کی یہی تصنیف میرے پیش نظر ہے۔
راغب مراد آبادی کو میں نے بہت قریب سے دیکھا، سنا، داد دی، پڑھا بھی، ان کی چند کتابیں میرے ذاتی ذخیرہ میں موجود بھی ہے۔ اپنی ذاتی لائبریری وفاقی جامعہ اردو کی لائبریری ”مولوی عبد الحق میموریل لائبریری“ کو دے چکاہوں، جہاں پر میرا علمی ذخیرہ میرے نام سے گوشہ کی صورت محفوظ ہے۔ راغب مراد آبادی، یو پی کے شہر مراد آباد سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی شخصیت کا خاکہ جو میرے ذہن میں آرہا ہے وہ کچھ اس طرح سے ہے ”دبلے پتلے،دراز قد، کرتا پاجامہ، کبھی شیروانی ذیب تن کیے ہوتے، گندمی رنگ، سر پر کالے بال، اونچی ناک، چوڑا ماتھا، غلافی آنکھیں، چہرے پر سنجیدگی،لمبے ہاتھ، مخروطی انگلیاں، کلین شیو، شعر پڑھتے ہوئے دانت نمایاں ہوا کرتے، تحت الفظ میں شعر خوانی کیا کرتے تھے۔شاعری کے حوالے سے راغب مرادآبادی کی سب سے اہم خوبی یا خصوصیت ان کا فی البدیہہ شعر کہنا تھی۔ وہ محفل میں بیٹھے بیٹھے لمحہ موجود کی صورت حال کے مطابق شعر کہہ دیا کرتے تھے۔ ان کی اس منفرد خصوصیت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، لوگ اس سے محظوظ ہوا کرتے تھے۔حمایت علی شاعر نے راغب کی بدیہہ گوئی اور رباعی کو ان کی ’پہچان‘ لکھا ہے۔اپنے سفر نامہ ’جادہئ رحمت‘ میں وہ ہمارے ایک عزیز کے گھر رکے، بلکہ وہ انہیں ائر پورٹ سے اپنے گھر لے گئے اور پھر وہاں رہتے ہوئے انہیں مقدص مقامات کی سیر کرائی۔ راغب صاحب نے اپنے میزبان اور ان کی میرزبانی کا نقشہ شاعری میں خوبصورت انداز سے کھینچا۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ کنجاسے نسبت رکھنے والے شاعر، افسانہ نگار اور تنقید نگار نے شہنشاہ غزل جگر مراد آبادی کے ہم وطن، پاکستان ہجرت کر کے آنے والے اور کراچی کو اپنا مسکن بنانے والے شہنشاہ رباعی راغب ؔ مراد آبادی کی کن کن جہتوں کو ڈھونڈ نکالا اور ان کو علمی اور
تنقید ی نقطہ نظر سے پیش کیا ہے۔ پہلی جہت جس کا ذکر مصنف نے کیا وہ ہے مراد آباد کا وطن اول مراد آباد کے برتنوں کی صنعت، ان برتنوں پر مینا کاری، پھول بوٹے بنے ہوتے ہیں۔ مراد آباد اس صنعت کے حوالے سے بہت مشہور ہے، کراچی میں بھی ان برتنوں کو مراد آباد سے ہی منصوب کیا جاتا ہے۔ اگلی جہت میں اکرم کنجاہی نے تذکرہ جگرؔ و راغبؔ کے عنوان سے کیا ہے جس میں انہوں نے جگر ؔکو شہنشاہ غزل اور راغبؔ کو شہنشاہ رباعی کہا ہے۔ یہاں انہوں نے دلاور فگار مرحوم کا قطعہ نقل کیا، آپ بھی دیکھئے ۔
دریا تو بہت سے ہیں علوم و فن کے
ایک ان میں سے ہے علم کا دریا راغبؔ
دریا وہ جنہیں کہیے مراد آبادی
وہ ان میں ہیں مشہور جگرؔ اور راغبؔ
راغبؔ کی جہتوں کی تلاش میں اکرم کنجاہی صاحب راغب ؔ کے شعری سفرکو مختلف ادوار میں تقسیم کر کے ان کا الگ الگ تجزیہ کرتے ہیں۔ پہلا دور 1939-1930کے درمیان کا ہے، امیر اور داغ کے شاگردوں کے درمیان راغبؔ مراد آبادی نے شاعری کی ابتدا عشقیہ شاعری سے ہی کی اور غزلیں کہیں۔ اس دور کا تجزیہ تفصیل سے کیا گیا ہے۔ راغب کا ایک شعر
بلا سے ان کے جوکوئی تباہ ہوتا ہے
کہ یہ تو مشغلہ یک نگاہ ہوتا ہے
راغب ؔ کی شاعری کا دوسرا دور اکرم کنجاہی کے خیال میں 1939-1947ء کا ہے۔اس دو ر میں قیام پاکستان کے آثار نمایاں ہونے لگے تھے بلکہ تحریک عروج پر تھی اور 1947 ء میں قیام بھی عمل میں آگیا۔ اس دور میں قومی اور ملی شعور کو اہمت دی گئی۔ اس دور میں جاری ہونے والے ادبی جرائد کا ذکر بھی ہے۔ اس دور کی شاعری کی مثال مصنف نے اس طرح نقل کی ہے
ہے لیگ ایک کشتی مردان حق پرست
اور اس کا ناخدا ہے محمد علی جناح
عمر خضر نصیب ہو تجھ کو خدا کرے
راغبؔ کی یہ دعا ہے محمد علی جناح
تیسرا دور 1947ء 1960ء یعنی قیام پاکستان کے بعد 13سال تک کے دور کو تیسرا دور شمار کیا گیا ہے۔ اس دور کی شاعری میں راغب مراد آباد کی تخلیق ”آزادی“ اور”کشمیر“اور ”نذر شہدائے کربلا“شائع ہوئیں۔ اس دور کے بارے میں اکرم کنجاہی لکھتے ہیں کہ ”یہ وہ زمانہ تھا جب شعراء کی اکثریت تو اقبالؔ کے فکر و فلسفہ کے ساتھ بہہ گئی مگر جوشؔ، ندیم ؔاور راغبؔجیسے بزرگوں نے افکار اقبال سے استفادہ کیا، پیغام اقبال کو آگے بڑھایا، ساتھ ہی ساتھ نئے مضامین کی تلاش میں چل نکلے“۔ اس دور میں جوشؔ کی شاعری کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔
اکرم کنجاہی راغب ؔ کی شاعری کا چوتھا دور1960ء سے 1975ء کے درمیان کو گردانتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس دور میں ملک کے جوحالات تھے ان میں شعراء و ادباء نے جو معاشرے کا حساس طبقہ ہوتے ہیں نے فیض ؔ کے اس شعر کے مطابق سوچنا شروع کردیا۔
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظا رتھا جس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
اس دور کا تجزیہ کرتے ہوئے کنجاہی لکھتے ہیں کہ”راغب صاحب کے فن کی نمو افکار ِ اقبال ؔ کے سائے میں ہوئی۔ وہ جانتے تھے فکر اقبال نے جو سفر طے کیا ہے اس سفر کی روداد ہی کو انہوں نے اپنے اشعار میں سمیٹ کرایک آرام طلب اور غافل قوم کو عملیت پسندی کا درس دیا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ اقبالؔ کی اس مثبت سوچ کی باز گشت جن شعراء کے کلام میں نظر آئی ہے۔ ان میں ایک نام راغبؔ صاحب کا بھی ہے“۔
قدم نہ رکھا یقین محکم کی راہ میں جس نے والہانہ
زباں پہ آئی اسی کی اکثر شکایت گردش زمانہ
راغبؔ مراد آبادی کی شاعری کا پانچواں دور اکرم کنجاہی نے اپنی اس کتاب کی اشاعت تک کا مقرر کیا۔ یعنی 1975ء تا حال، حال سے مراد 2000ء ہی لینا چاہیے اس لیے کہ یہ کتاب فروری 2001ء میں منظر عام پر آئی۔ راغبؔ مراد آبادی اس کتاب کی اشاعت کے 10 سال بعدتک زندہ رہے یعنی ان کا انتقال 18جنوری 2011ء میں ہوا۔ممکن ہے کہ کنجاہی صاحب نے راغب ؔ سے اپنی محبت اور عقیدت کو سامنے رکھتے ہوئے بقیہ 10سالوں کی شاعری کا حال بھی کسی جگہ مضمون کے طور پر لکھاہو وہ میرے علم میں نہیں۔اگر نہیں تو اس گیپ کو اکرم کنجاہی بہت آسانی سے پر کرسکتے ہیں۔ راغبؔ مراد آبادی کے پانچویں دور کی شاعری کے بارے میں اکرم کنجاہی نے لکھا ہے کہ ”راغب صاحب کے تجربات وسیع ہیں۔ مشاہدے کی حس بہت تیز ہے۔ حساسیت کا یہ عالم ہے کہ جو سوچ ذہن میں آجائے اسے فوراشعری جامہ پہنادیتے ہیں“۔ جیسا کہ ابتداء میں کہا کہ راغب ؔ کو فی البدیہہ شعر کہنے میں کمال حاصل تھا۔ مزید واضح کیا کہ ”1975ء کے بعد ان کے شعری موضوعات میں گہرائی کا عنصر زیادہ ہوا۔ ان کی کوشش رہی ہے کہ خیال خو اہ کتنا ہی ارفع کیوں نہ ہو، مگر فہم و ادراک سے بالا تر نہ ہو۔ دوسرے کے لیے معنی ہو“۔راغب ؔ نے کہا۔راغبؔ کا یہ شعر موجودہ دور کے حالات معاشی صورت حال کا بھر پور اظہار ہے۔
آزاد تو ہم ہوگئے راغب لیکن
قبضے میں ہے غیروں کے معیشت اپنی
شہر کی سڑکوں پہ دوڑتی ہے اب فکر معاش
تیل ڈیزل کا ہے، رَم خوردہ ہرن کے پاؤں میں
راغبؔ مراد آبادی کی شاعری کو مختلف ادوار میں تقسیم کرکے اس کا تجزیہ کرنے کے بعد راغب نے شاعری کی مختلف اصناف جیسے راغبؔ اور ربا عی گوئی، منظوم سفر نامہ، فن اور شخصیت، سوانح،ا کتساب ِ فیض کے تحت اظہار خیال کیا ہے۔ آخر میں چند شعری محاسن، سماجی،علمی ور ادبی خدمات، اہم علمی و ادبی موضوعات جیسے کشمیر، ندائے شہدائے کربلا، حبِ انسانیت، راغب کی صحافتی شاعری، راغب کے ممددح، تصوف، نونہال، جوش سناسی وغیرہ کے عنوان سے راغب ؔ کی شاعری کے تمام تر جہتوں کو خوبصورت انداز سے بیان کیا گیا ہے۔
اکتسابِ فیض کے حوالے سے کنجاہی نے لکھا کہ ”آپ نے ادب میں جن شخصیات سے استفادہ کیا، ان میں صفیؔ لکھنوی، سید علی اخترؔ اور یگانہؔ چنگیزی کے نام نمایاں ہیں۔ مولانا ظفر علی خان سے آپ نے فارسی پڑھی۔ اس طرح وہ فارسی دانی میں بھی آپ کے استا ہوئے۔ ان کے بارے میں دلا ور فگار کا قطعہ۔
شاگروں میں مولانا ظفر کے وہ رہے
یہ دور بھی ارباب نظر نے دیکھا
اس شعر کی قسمت پہ ہیں نازاں راغبؔ
جس شعر کو مولانا ظفر نے دیکھا
کنجاہی صاحب کے شہر کنجا اور وہاں جنم لینے والی علمی و ادبی شخصیات کا ذکر میں کنجاہی صاحب کے افسانے کے مجموعہ ”دامنِ صد چاک“ میں تفصیل سے کر چکا ہوں۔ دلچسپی رکھنے والے میرا وہ تبصرہ مطالعہ کر سکتے ہیں۔یہاں انہیں دھرانہ مناسب نہیں۔ اکرم کنجاہی آج کل کراچی کی ادبی محفلوں میں گھن گرج کے ساتھ موجود ہوتے ہیں، پیشے کے اعتبار سے بنکار ہیں، حمایت علی شاعرنے کتاب پر جائزہ کے عنوان سے اکرم کنجاہی کے بارے میں لکھا کہ ’وہ اچھے شاعر و ادیب ہیں۔ ٹی ایس ایلیٹ کی طرح اُن کا تعلق بھی بینکنگ سے ہے“۔ پہلے اسٹیٹ بنک میں اب نیشنل بنک میں حساب کتاب کے ہنر سکھانے پر معمور ہیں۔وہ شاعر بھی ہیں نثر نگار، تنقید نگاربھی۔ وہ ایک ادبی کتابی جریدہ ”غنیمت“ کے مدیر ہیں۔غنیمت‘ کنجاہی سے تعلق رکھنے والے عالم جناب غنیمت کنجاہی کے نام سے منسوب ہے۔ یہ ادبی جریدہ جو سہ ماہی ہے کراچی اور گجرات سے بیک وقت شائع ہوتا ہے۔ ان کے کئی شعری مجموعے’ہجر کی چتا‘،’بگُولے رقص کرتے ہیں‘،’محبت زمانہ ساز نہیں‘ اور ’دامنِ صد چاک‘ شائع ہوئے۔ جب کہ شعری انتخاب ”امن و مان اور قومی یکجہتی“ کے نام سے شائع ہوچکی ہے۔
اکرم کُنجاہی جب اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں تو ان کا انداز بتا رہا ہوتا ہے کہ وہ تقریر کے فن سے خوب آگاہ، اور زمانہ طالب علمی میں مقرر رہ چکے ہیں۔ میری اس رائے کی تائید ان کی وہ تصانیف ہیں جو انہوں نے اُصول تقریر اور فن خطابت کے عنوان سے تحریر کیں۔ وہ ٹی وی میں میزبانی بھی کرنے کا شرف حاصل کرچکے ہیں، پنجاب رنگ کے نام سے انہوں نے خود ایک مبصر کی حیثیت سے پروگرام پیش کیے۔انہیں معروف شاعر جناب راغب مراد آبادی کا تلمیذ ہونے کا شرف حاصل ہے، وہ اپنے شاعر استاد کا حد درجہ احترام، عزت و عظمت کرتے ہیں، اسی عقیدت اور تعلق کا حاصل یہ کتاب ہے جسے اکرم کنجاہی صاحب نے بہت ہی محبت اور فنی مہارت کے ساتھ تحریر کیا ہے۔اگر وہ راغب مراد آبادی کو اپنے ایم فل یا پی ایچ ڈی کا موضوع بنالیتے تو انہیں اس پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض ہوجاتی۔ اس لیے کہ یہ کام ایم فل یا پی ایچ ڈی کے جملہ لوازمات، فنی ضروریات کے عین مطابق لکھی گئی ہے۔بس حوالہ جات کی کمی ہے۔ میرے علم میں ہے کہ راغب مراد آبادی کی زندگی میں ایک خاتون نسرین شگفتہ نے راغب ؔ مراد آبادی کی شخصیت اور شاعری کو پی ایچ ڈی کا موضوع بنایا تھا، جامعہ کراچی میں انرول ہوئیں، کام بھی شروع کیا، ان کے سپر وائیزر میرے دوست جامعہ اردو کے شعبہ اردو کے سابق پروفیسرو چیرئ مین پروفیسر ڈاکٹر حسن وقار گل تھے۔ لیکن وہ خاتون یہ کام نہ کرسکیں اور راغبؔ صاحب اس دنیا سے چلے گئے۔
آخر میں اپنی بات پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد قادری کی اس بات پر ختم کرنا چاہوں گا کہ ”یہ مقالاتی جائزہ اُن کی وسعت مطالعہ کا ثبوت ہے۔ راغب صاحب پر کام کرتے ہوئے وہ موصوف کے اسرار و غوامض کو کھولتے چلے گئے ہیں، تقابلی مطالعہ کا اُسلوب، اصل متن کے عمیق مطالعے کی عکاسی کررہا ہے۔قاری آپ کے قلم کے ساتھ نظر ملا کر آگے بڑھے گا اور موضوع پر اُن کی گرفت کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکے گا“۔اللہ تعالیٰ راغبؔ مراد آبادی کے درجات بلند فرمائے۔ اکرم کنجاہی صاحب نے اپنے تلمیذ ہونے کا عملی ثبوت دے کر ثابت کردیا کہ ابھی دنیا میں
استاد کا احترام، توقیر، تعظیم، تکریم اور عزت کرنے والے موجود ہیں۔(6مارچ2020ء)









Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 866 Articles with 1438804 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More