شام کو دروازہ بجا زیتون نے باہر
جھانکا ۔جلّاد چنگیزی نائیک، بھائی جیسی پینٹ بش شرٹ پہن کر سائیکل لئے
کھڑا تھا اور سائیکل کے پیچھے ایک بڑا سا کریٹ رسیوں سے باندھا ہوا تھا ۔
سوال کیا ، ”حنیف خان ہے“ ۔” جی بھیجتی ہوں “ زیتون نے کہا ۔ اندر جا کر
بھائی کو بتایا ۔ ” ارے استاد صاحب۔آئے ہیں “ یہ کہہ کر بھائی تیزی سے اٹھا
اور باہر نکل گیا ۔ تھوڑی دیر بعد بھائی سائیکل لے کر اندر آیا اور کھڑی کر
دی ۔” زیتون ۔ تو ذرا ایک طرف ہو جا استاد نے امی سے ملنے آنا ہے “ زیتون
سیڑھی کے پاس جا کر دیوار کی طرف منہ کر کے کھڑی ہو گئی ۔ ” نظام صاحب ۔
اندر آجائے “ بھائی نے آواز لگائی ۔ نظام صاحب نائیک کھانستے ہوئے اندر آئے
اور کمرے میں چلے گئے ۔ بھائی نے امی سے ملایا ۔ نظام نے امی کو سلام کیا
اور طبیعت پوچھی امی نے جواب طبیعت بتائی ۔سلام کر کے باہر آگئے ۔ زیتون
سائیکل کے پیچھے کھڑی کریٹ کا معائنہ کر رہی تھی اسے امید نہ تھی کہ اتنی
جلدی سلام دعا ہو جائے گی ۔ گھبراہٹ میں وہ ایک طرف ہٹی، سائیکل دھکا لگنے
سے گر گئی اور وہ کمرے میں جھپاک سے گھس گئی ۔ بھائی اور نظام نے سائیکل
کھڑی کی کریٹ کھول کر سائیکل سے اتارا اور نظام صاحب اپنی سائیکل لے کر چلے
گئے ۔کریٹ میں دیگچی ، توا ، تام چینی کی پلیٹیں ، دو مگے ، اور باورچی
خانے کا دیگر سامان کے علاوہ دالیں ، مرچ نمک گرم مصالحہ دو کلو آٹا ، گھی
چینی وغیرہ تھا ۔ بھائی باہر سے چار اینٹیں اٹھا لایا ۔ تاکہ چولہا بنایا
جائے ۔ زیتون ، کلثوم آپا سے لکڑیاں لے آئی اور شام کا کھانا انہوں نے
بنایا ۔ زیتون نے ایک پلیٹ میں دال ڈالی اور کلثوم آپا کو دے آئی ۔جواباً
انہوں نے پلیٹ دھو کر زردہ ڈال کر صغرا کے ہاتھ بھجوایا ۔مغرب سے پہلے
کھانا کھانا بیٹھے کہ آواز آئی ۔” مسجد کی روٹی اللہ کے نام پر“۔ زیتون نے
حسب عادت مسجد کے لئے بنائی ہوئی روٹی اور پلیٹ میں دال ڈال کر بھائی کو دی
۔ بھائی صافی کو روٹی دے آیا اور یوں حنیف خان کے الاٹمنٹ والے گھر میں
پاکستان میں پہلے دن کے غروب ہونے کی آذان آئی یہ ستمبر 1947کی بیس تاریخ
ہفتے کا دن تھا ۔پاکستان میں وہ سولہ ستمبر کے دن داخل ہوئے تھے۔ بھائی
نماز پڑھنے حویلی کے نزدیک چٹائیوں سے بنی ہوئی مسجد میں چلا گیا ۔زیتون نے
برتن سمیٹے ، دھوئے اور ماں کے پاس جاکر بیٹھ گئی ۔
تھوڑی دیر بعد کلثوم آپا کے کمرے میں کھلنے والا دروازہ بجنے کی آواز آئی ۔
زیتون دروازے کے پاس گئی اور پوچھا ” کلثوم آپا کیا بات ہے “ ۔” دروازہ
کھولو“ کلثوم آپا کی آواز آئی ۔ کلثوم آپا اور ان کی ساس بلقیس اندر داخل
ہوئیں ۔ ”تمھاری امی کی طبیعت کیسی ہے “ انہوں نے کمرے کی طرف بڑھتے ہوئے
پوچھا ”اب اچھی ہے “ زیتون نے جواب دیا ” زیتون تم نے دال بہت مزیدار پکائی
ہے “ بلقیس بولی ” شکریہ خالہ “ زیتون نے جواب دیا ۔ دونوں عورتیں کمرے میں
داخل ہوئیں اور زیتون کی امی کے پاس جا کر بیٹھ گئیں ۔ زیتون کے با ربار
دروازے کی طرف دیکھنے پر کلثوم بولی ” فکر نہ کرو تمھارے بھائی اب عشاء پڑھ
کر ہی آئیں گے ۔ وہ باتیں کر رہی تھیں کہ صغرا ، چھ لڑکیوں کے ساتھ کمرے
میں داخل ہوئی ۔صبح والی لڑکی بھی اس کے ساتھ تھی ۔ لڑکیاں ایک طرف فرش پر
بیٹھ گئیں سب نے اپنا تعارف کرایا ۔ زیتون اِن سب میں بڑی تھی ۔ صبح والی
لڑکی کا نام خاتون تھا ۔نجمہ سولہ سال کی تھی اور باقی سب لڑکیاں دس دس اور
بارہ سال کی تھیں ۔خاتون کا صرف ایک کام تھا اور وہ ہر بات پر ہنسنا ۔ سب
نے زیتون کو کہانی سنانے پر مجبور کیا ۔ اجمیر کے رہنے والے کہانی سنانے کا
فن جانتے ہیں ۔زیتون کا پورا نام زیتون کوثر تھا ، اُس نے مدرسہ سے پانچ
کلاسیں پڑھیں تھیں ۔ جو اُس زمانے میں لڑکیوں کے لئے اعلیٰ تعلیم تھی اس کے
علاوہ الف لیلہ ہزار داستان ، اجمیر کی وادی، داستانِ رومی ، بوستان اور
گلستان بھی تعلیم کا حصہ تھیں ۔ نعت گوئی میں بھی اُسے مہارت تھی ۔چنانچہ
ہر رات نئے محلے کی لڑکیا ں اُس کے گھر آجاتیں اور ایک نئی کہانی سنتیں ۔
جنوں، بھوتوں ، دیو ، پریوں، امیر حمزہ اور اڑنے والے قالین کی کہانیاں
باقی کہانیوں پر سبقت لے گئیں ۔ اِس کے علاوہ زیتون نے لڑکیوں کو قرآن بھی
پڑھانا شروع کر دیا ۔زیتون نے قران ترجمے سے نہیں پڑھا تھا ان دنوں رواج
بھی نہیں تھا لہٰذا ترجمے ولے قرآن خال خال ملتے تھے ۔ ایک دن بھائی کرائے
کی سائیکل لایا ۔ بھائی کے سونے کے بعد زیتون نے حویلی کے سامنے میدان میں
حویلی کی ساری لڑکیوں کو سائیکل کی سیر کرائی ۔ لڑکیوں کو ایک اور مشغلہ
ہاتھ آگیا وہ صدر سے باغبان پورہ جانے والی سڑک پر پھاٹک کے پاس سائیکلوں
کی دکان سے سائیکل ایک پیسہ گھنٹہ کے حساب سے کرائے پر لاتیں اور زیتون
انہیں سائیکل پر سیر کراتی اور انہیں سائیکل بھی سکھاتی یوں سوائے خاتون کے
باقی سب لڑکیاں سائیکل چلانے کی ماہر ہو گئیں ۔ خاتون سائیکل کو ہاتھ میں
پکڑتی تو اس کو ہنسی آنی شروع ہو جاتی جونہی وہ ایک پیڈل پر پیر رکھ کر
کھڑی ہوتی تو اُس پر ہنسی کا دورہ پڑتا وہ سائیکل سمیت گر جاتی جب بھی
ہنستی رہتی چنانچہ اُس نے سائیکل سے دوری میں بھلائی سمجھی وہ لڑکیوں کو
سائیکل چلاتا دیکھ کر خوشی سے ہنستی رہتی ۔
بھائی دس دن کی چھٹی گزار کر واپس سیالکوٹ چلا گیا ۔ زیتون اور اماں اکیلے
رہ گئے لیکن حویلی کے پندرہ خاندانوں کی وجہ سے انہوں نے کبھی تنہائی محسوس
نہیں کی ۔ سوائے کلثوم آپا کے جو درانی پٹھان تھے باقی سب روہتک کے میو
گھرانے تھے ۔ لڑکیاں کہانی سنتے سنتے وہیں فرش پر سو جاتیں اور صبح آذان کے
وقت اُٹھ کر کلثوم آپا کے کمرے کے راستے اپنے اپنے کمروں کا رخ کرتیں۔
خاتون اور زیتون میں بہت دوستی ہو گئی تھی ۔ کلثوم آپا کے بھائی ضمیر احمد
خان درانی ریلوے میں گارڈ تھے ۔ جو روزانہ صبح ایشور نگر کے پاس ریلوے
سٹیشن سے مال گاڑی کے ڈبے لے کر لاہور جاتے جو ساڑھے چار یا پانچ کلومیٹر
دور تھا اور شام کو چار بجے لاہور سے انجن اور گارڈ کا ڈبہ لے کر واپس
ایشور نگر آتے ۔ لڑکیوں اور اُن کی ماں کے ساتھ اتوار کو یہ صبح ناشتہ کر
کے ایشور نگر کی اِس حویلی سے نکلتیں ،مال گاڑی میں گارڈ کے ڈبے میں سوار
ہوتیں لاہور ریلوے سٹیشن پر اترتیں ۔ ریلوے سٹیشن سے انارکلی بازار تک
تانگے کا کرایہ ایک پیسہ تھا ۔ یہ سب ٹولنٹن مارکیٹ ، چڑیا گھر ، مال روڈ
وغیرہ گھومتی ہوئی واپس ریلوے سٹیشن آجاتیں ۔ایشور نگر سے لاہور اور واپسی
کا مال گاڑی پر سفر کرنے کا کرایہ فی فرد ایک آنہ تھا ۔ ہاں ریلوے کے
ملازمین کے لئے کرایہ معاف تھا ۔ضمیر بھائی ایمانداری سے سب کا اکھٹا ووچر
بناتے اور اکاؤنٹ میں یہ رقم جمع کروا دیتے۔ لڑکیاں اور عورتیں صدر میں
گھومتے ہوئے یہ دیکھ کر حیران ہوتیں کہ اینگلو انڈین عیسائی عورتیں بڑے مزے
سے بغیر بازو کی قمیضیں اور پاجامے پہن کر سائیکل پر گھوما کرتیں ۔ افسروں
کی بیگمات اور اُن کی بچیاں بھی اُنہی جیسا لباس پہن کر سائیکل چلاتیں تھیں
۔شالامار باغ میں اُنہیں بہت مزا آتا گھنے درخت ، پانی کے تالاب جن میں نہر
کا پانی آتا تھا ۔
مہینے کے بعد نومبر میں بھائی سیالکوٹ سے چھٹی لے کر آئے ، اُن سے معلوم
ہوا کہ ، دونوں بڑے بھائی اپنے بچوں اور ابراہیم بھائی کے بیٹے کے ساتھ
پاکستان اُن سے پہلے پہنچ گئے تھے ۔ حکیم خاں بھائی جو ریلوے میں ملازم تھے
۔ اپنے بچوں اور بھتیجے سلیمان کے ساتھ نوابشاہ مہاجر کیمپ چھوٹے بھائی
عبداللہ خان ٹیلیفون کے محکمے میں تھے وہ مہاجر کیمپ بہاولپور اور بڑی بہن
بسم اللہ خاتون میر پورخاص مہاجر کیمپ مولچند باغ میں ٹہرے ہیں اور باقی
تما م رشتہ دار مورو، حیدر آباد اور کراچی میں مختلف مرحلوں میں آئے ۔بھائی
نے پروگرام بنایا کہ وہ فروری میں دو مہینے کی چھٹی لے گا اور یہ لوگ بڑے
بھائیوں اور رشتہ داروں سے ملنے اُن کے پاس جائیں گے ۔ جنوری میں ایک عجیب
بات ہوئی۔ شام کا وقت زیتون اپنی امی کے پاس بیٹھی چاول صاف کر رہی تھی کہ
خاتون کی امی ، دو خالائیں اور ممانی ملنے آئیں ادھر اُدھر کی باتوں کے بعد
خاتون کی خالہ نے زیتون کی امی سے پوچھا ،” بہن حنیف خان کی شادی کی کہیں
بات کی ہے “ ۔ زیتون کی امی نے جواب دیا ،” نہیں “ ۔ تو وہی خالہ پھر بولیں
،” ہم حنیف خان کے لئے خاتون کا رشتہ لائے ہیں“۔ زیتون اور اس کی امی کو
جھٹکا لگا ۔ کیوں کہ رشتہ تو لڑکے والے ،لڑکی کے گھر لے کر جاتے ہیں ۔
انہوں نے ایک دوسرے کے طرف دیکھا ۔ زیتون کی امی ،” بہن خیریت تو ہے ، کیا
حنیف خان نے آپ لوگ سے اس سلسلے میں کوئی بات کی ہے ۔ یا آپ شکایت لے کر
آئی ہیں “۔” نہیں بہن ، حنیف خان تو بہت شریف لڑکا ہے ۔ ہمیں تو وہ بہت
اچھا لگتا ہے ۔ ہمارے ہاں لڑکی والے ، لڑکے کے ہاں رشتہ دینے آتے ہیں “۔
زیتون کی امی نے کہا ،” بہن خاتون بہت اچھی بچی ہے ۔ میں حنیف خان سے پوچھ
کر جواب دوں گی “ ۔
شام کو کہانیاں سننے سب لڑکیاں آئیں ، خاتون نہیں آئی ۔ زبیدہ نے بتا یا کہ
اب وہ شادی کے بعد ہی اِس گھر میں آئے گی ۔ زیتون نے سوچا عجیب رسم ہے ۔
رشتہ کی ابھی بات چلی ہے ۔ یہ پہلے سے ہی یقین کر بیٹھے ہیں ۔محرم ختم ہو
چکا تھا جمعرات کا دن تھا بھائی چار دن کی چھٹی پر آئے تو ماں نے کسی قسم
کی بات کرنے سے زیتون کو منع کر دیا ۔حالانکہ زیتون کی خواہش تھی کہ وہ
بھائی کو چونکا دے اور اُسے چھیڑے ۔ لیکن ماں کی ہدایت پر سختی سے عمل کیا
۔مغرب سے پہلے ماں کھانے کے بعد لیٹ گئی ، حنیف خان نے معمول کے مطابق پاؤں
دبانے شروع کئے ۔” حنیف۔ تجھے خاتون کیسی لگتی ہے ؟‘ ماں نے پوچھا ۔ حنیف
نے جواباً سوال کیا ،” اماں کیا موٹی (زیتون) سے اس کی لڑائی ہو گئی ہے “۔
” مذاق میں مت ٹال میرے سوال کا جواب دے “ ماں نے پیار بھرے غصے سے پوچھا
۔”اماں میں کیا جواب دوں عام لڑکیوں جیسی ہے ۔ ہنسنے کے علاوہ اُسے کچھ
نہیں آتا۔بات کیا ہے ؟ “ حنیف خان نے جواب دیا ۔ ” اِن کے ہاں سے تمھارا
رشتہ آیا ہے “۔ماں بولی ۔ حنیف خان نے حیرت سے پوچھا،” کیا میرا رشتہ!
لاحول ولا قوة۔میں کوئی لڑکی ہوں؟ “ ۔ اُن کے ہاں رواج ہے کہ اپنی پسند کے
لڑکے کے ہاں رشتہ بھجواتے ہیں۔ اگر تم مناسب سمجھو میں ہاں کہہ دوں؟ ماں نے
رائے مانگی ۔” جو آپ کی مرضی “ حنیف خان نے جواب دیا اور مغرب کی نماز کے
لئے مسجد چلا گیا ۔ بھائی کا نکلنا تھا کہ تینوں عورتیں آگئیں ۔ ”ہاں بہن ،
بیٹے سے پوچھا “ خالہ نے پوچھا ۔ ” مجھ پر چھوڑ دیا ہے “ زیتون کی امی نے
جواب دیا ۔ ” تو آپ کی کیا رائے ہے ؟“ خالہ نے پوچھا ،”مجھے کوئی اعتراض
نہیں “ زیتون کی امی نے جواب دیا ۔ خاتون کی ممانی نے دوپٹے کے پلو سے گڑ
کی ڈلیاں نکالیں ۔ زیتون کی امی کے منہ میں ڈالتی ہوئی بولی ،”خالہ مبارک
ہو “ باقی عورتوں کو بھی گڑ دیا ۔ خالہ نے زیتون کی امی سے پوچھا ” باجی
!پرسوں شادی کر دیں “ِ زیتون کی امی گھبرا کر بولیں،”ارے باؤلی ہوگئی ہو ۔
اتنی جلدی ؟ تیاری نہیں کرنی “ ۔” خالہ ہم ہندوستان سے لٹ پٹ کر آئے ہیں ہم
نے کیا تیاری کرنی ۔ تم ہاں کرو ! پرسوں ہفتے کو عصر کے بعد نکاح کردیں گے۔
کلثوم کی امی کو اندر والا کمرہ دے دیں گے اور یہ کمرہ دولہا اور دلہن کو
دے دیں گے ۔ ہاں مہر بتیس روپے ہوگا ۔جو نکاح کے وقت دینا ہوگا ۔تم دو جوڑے
تیار کر دینا ۔ باقی رہا زیور، جب اللہ دے گا تو شوہر بعد میں بنا دے گا “
۔ ممانی نے بلا تکان سارا پروگرام پیش کر دیا ۔ ماں ہکا بکا ہو کر سارا
پروگرام سنا اور سر ہلا دیا ۔
زیتون نے حساب لگایا کم از کم تقریباً پچاس روپے خرچ ہوں گے،عبداللہ خان کی
شادی پر نوے روپے خرچ آیا تھا ۔جو ابا کے انتقال سے دو ماہ قبل ہوئی تھی جس
پر زیادہ تر رشتہ داروں کے کھانے کا تھا ۔ ایک ہفتہ روزانہ عشاء کے بعد
قوال، قوالی کرتے رہے ۔ ان دنوں گھر بھر کے جہیز کی قبیح رسم مسلم معاشرے
میں داخل نہیں ہوئی تھی ۔باورچی خانے کے سامان میں پیتل کی دیگچیاں،پلیٹیں
،گلاس،پلیٹیں ، توا،پرات ، بستر ،رضائی ، اور چند کپڑے ، زیورات میں چاندی
زیادہ استعمال ہوتی تھی ، سونے میں انگوٹھی ، چوڑیاں اور بندے ۔ ہندو
رسومات سے سخت پرہیز کیا جاتا تھا ۔ ایک روپے کا من آٹا ملا کرتا تھا ۔ اس
سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ لڑکی کے ماں باپ کو فکر نہ ہوتی تھی کہ بیٹی
کے ہاتھ پیلے کرنے کے لئے رقم کہاں سے آئے گی ، چودہ سال کی عمر میں لڑکی
کی شادی ہو جاتی تھی ، ہاں البتہ تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کے لئے رشتے
محدود ہو جاتے تھے ۔ زیتون بھی چودہ سال کی تھی ۔ بڑے بھائی حکیم خان اُن
دنوں پونا میں تھے ۔زیتون اپنی امی کے ساتھ اُن سے ملنے گئیں ۔انگریزوں کا
متحدہ ہندوستان پر سب سے بڑا احسان ریلوے کا نظام تھا جو اُس نے اپنی حکومت
کے استحکام کے لئے کیا اُ س کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ اُسے
ہندوستان سے جانا پڑے گا ۔ تو وہ کبھی ہندوستان کا پیسہ ہندوستان میں خرچ
نہ کرتا ۔ دوسرا بڑا احسان سندھ کے ریگستان کو نہری نظام سے نخلستان میں
تبدیل کرنا ۔ بھائی کی ریلوے میں ملازمت کی وجہ سے زیتون نے اپنی امی کے
ساتھ زیادہ وقت بھائی کے ساتھ مختلف شہروں میں گزارا ۔ اجمیر (راجستان )سے
پہلی دفعہ وہ ابا کی وفات کے بعد جو پُشکر گاؤں میں اُن کی دوسری بیوی کے
ہاں 1935کی چھوٹی عید کے پانچویں دن ہوئی تھی ۔ زیتون اپنی امی کے ساتھ
حکیم خان بھائی کے پاس بھیل واڑا گئی جو سو میل دور راجستان ہی کا ایک قصبہ
تھا ۔ حکیم خان بھائی کا ایک بیٹا طیّب خان تھا اور بھابی امید سے تھیں ۔
زیتون کی عمر تقریباً سات سال ہوگی اور طیّب چھ سال کا دونوں پھوپی اور
بھتیجا آپس میں کھیلتے اور خوب شرارتیں کرتے ۔ آم کے درختوں سے آم توڑنا،
توتے اور فاختہ کے بچوں کو گھونسلوں میں دیکھنا یا اجمیر سے آنے والی یا
اجمیر کو جانے والی ٹرین کو دیکھنا ۔ انجن کی سیٹی سنتے ہی یہ دونوں دوڑ کر
گھر سے باہر نکل جاتے کبھی اُن کے پیچھے ماں دوڑتی اور کبھی بھابی اِن کی
کوشش ہوتی کہ وہ انجن کے زیادہ سے زیادہ قریب جا کر دیکھیں اور انجن گزرنے
کے بعد طیب دوڑ کر لوہے کی تار یا واشر کا ٹکڑا اٹھا کر لاتا جو چپٹا ہو کر
پھیل کر بڑا ہو جاتا ۔ایک دن بھابھی طیب کے پیچھے بھاگتے ہوئے پھسل گئیں ۔
ساتویں مہینے کا حمل ضائع ہو گیا ، لڑکا تھا ۔بھابی کو جان کے لالے پڑ گئے
۔ سال تک علاج ہوتا رہا ۔ بھائی نے اپنی ٹرانسفر نیمچ کروالی جو فوجی
چھاؤنی تھی اور ریلوے کا ہسپتال تھا ۔ نیمچ اصل میں زیتون کا خاندانی شہر
تھا جہاں اُس کے دادا پردادا دفن تھے اور ریلوے اسٹیشن سے جنوب میں یوسف
زئیوں کا محلہ تھا ۔ بنیادی طور پر یہ لوگ بیوپاری اور تاجر تھے ۔اور
تقریباً سارے ہندوستان میں پھیلے ہوئے تھے ۔زیتون کے پردادا انگریز فوج کو
راشن سپلائی کرتے تھے جو ریلوے لائین کے مشرق میں کافی رقبے پر پھیلی ہوئی
تھی ۔اُس کے والد ہاشم خان نے اجمیر میں اپنا گودام بنایا تھا ۔ جو فرخ
شہریار بادشاہ کے وزیر میاں خان کے مقبرے کے پاس تھا ۔جہاں سے وہ اپنے
بھائیوں کو نیمچ ، اندو ر ، اورنگ آباد اور پونا میں سامان بھجوایا کرتا
تھا ۔ سامان لینے کے لئے وہ دلّی سے پونا تک کا سفر کیا کرتا تھا ۔ ہاشم
خان کے بیٹوں نے بزنس کے بجائے نوکری کو ترجیح دی ۔ جس میں آرام تھا اور
ریلوے کی ملازمت میں تو کئی فائدے تھے ۔ کواٹر، مفت سفر علاج ، چھٹیاں ،
وقت پر کام اور نئے نئے شہر وں میں ٹرانسفر اور پھر ترقی بھی تھی ۔ دو
بیٹوں نے ریلوے میں نوکری کی ایک بیٹا ٹیلیفون کے محکمے میں لگ گیا۔چھ فٹ
لمبے حنیف خان نے فوج پسند کی ۔ حنیف خان کو کشتی اور پہلوانی کا بڑا شوق
تھا، چودہ سال کی عمر سے مقابلے کی کشتیاں لڑنی شروع کر دیں۔ دستور تھا کہ
کشتی سے ایک دن پہلے پہلوان معین الدین چشتی کی درگاہ پر جاتے تھے اور فتح
کے لئے دعائیں مانگتے ۔ حنیف خان بھی دعا کے لئے درگاہ گئے کوئی بارہ بجے
گھر واپس آئے اور کھانا کھا کر سو گئے ۔ خواب دیکھتے ہیں کہ کوئی انہیں
کھینچ کر لے جارہا ہے اور ایک بڑے منبر کے پاس کھڑا کر دیا جو بہت اونچا
تھا ۔ آواز آئی ،” ہمارے پہلوان حنیف خان کو لائے ہو؟“ ۔ جو شخص حنیف خان
کو لے کر آیا تھا اُس نے کہا ،” جی جناب حاضر ہے “۔ ”یہ نہیں ہے اِس کو
واپس لے جاؤ“ ۔ لانے والے شخص نے حنیف خان کو کھینچ کر پیچھے دھکا دیا ۔
حنیف خان فضا میں قلا بازیاں کھاتے ہوئے گرنے لگا ۔ خوف سے آنکھ کھل گئی
کیا دیکھتا ہے ، اماں ، بھابیاں اور زیتون پاس بیٹھی رو رہی ہیں ۔آنکھ
کھلتے دیکھ کر بھابی چلائی ،” اماں حنیف زندہ ہے “ ۔ حنیف خان کو سخت بخار
پورا ایک ہفتہ رہا اُس نے پہلوانی سے توبہ کی اور پکا نمازی بن گیا ۔
پونا میں حکیم بھائی کو ریلوے کی طرف سے دو کمروں کا گھر ملا تھا ۔ یہاں
یوسف زئیوں کے کئی خاندان آباد تھے اور سب کا ایک دوسرے سے خوشی غمی میں
رابطہ تھا ۔ ایک یوسف زئی خاندان کی عورتوں کو زیتون پسند آگئی ، انہوں نے
اپنے بیٹے کے لئے رشتہ ڈالا جو رائل نیوی میں ایک سال ہوا بھرتی ہوا تھا
اور بمبئی سے اتفاق سے جہاز لگانے پر وہ چھٹی پر گھر آیا ۔ ماں اور بھائی
نے قبول کر لیا، 1943نو میلاد کے دوسرے دن بدھ تھا اور پندرہ سالہ زیتون کی
شادی ہو گئی شادی کے ہفتہ بعد شوہر کی چھٹی ختم ہوگئی اور وہ واپس جہاز پر
چلا گیا ۔ بعد میں معلوم ہوا جہاز اٹلی کی طرف چلا گیا ۔ دوسری جنگ لگی
ہوئی تھی اتحادی فوجوں نے اٹلی پر حملہ کیا ۔ اٹلی کی فوجوں نے بھی جواباً
کاروائی کی ایک توپ کا گولہ جہاز پر آکر گرا ۔ زیتون کا شوہر اور دیگر
افراد مارے گئے ۔یہ خبر رجب کے دوسرے ہفتے دوپہر کے وقت گھر پہنچی ۔ گھر
میں کہرام مچ گیا ۔ زیتون کمرے میں سو رہی تھی رونے کا شور سن کر کمرے سے
گبھرا کر دوڑی آئی ۔ پانچ چھ عورتیں دھاڑ مار مار کر رو رہیں تھیں ، زیتون
کی ساس زمین پر پچھاڑیں مار رہی تھی زیتون نے ہاتھ لگا کر پوچھا ،” اماں
کیا ہوا“۔ ساس ایک دم کھڑی ہوئی زیتون کو دھکا دیتی ہوئی بولی ،” ڈائن ،
منحوس میرے بچے کو کھا گئی اور زیتون کو دھکا دیا ، وہ اپنے پیچھے بیٹی
ہوئی عورت کے اوپر سے الٹ کر گری ۔ پیٹ میں زور کا درد اٹھا ۔ اُس نے چیخ
ماری اس وقت سب چیخ کر رو رہے تھے زیتون درد سے بے ہوش ہوگئی ۔ ہوش آیا تو
ریلوے ہسپتال میں تھی ۔ چار ماہ کا حمل ضائع ہو چکا تھا ۔ بے ہوش ہونے کے
بعد آدھے گھنٹے بعد اماں اور بھابی شوہر کی موت کا سن کر آئیں ۔ زیتون کو
بے ہوش دیکھا تو فوراً بھائی کو بلایا زیتون کو ہسپتال لے آئے ۔ ہسپتال میں
ہفتہ رہی پھر ماں بھائی کے گھر لے آئی ۔ عدت گزارنے کے بعد ماں واپس لے کر
اجمیر آگئی ۔بھائی نے پونا واپس آنے کا کہا کئی بار پیغام بھیجا مگر زیتون
نے انکار کر دیا پونا سے اس کی یادوں میں تلخیاں بھری ہوئی تھیں ۔اُسے
خوابوں میں اپنے بیٹے کے رونے کی آوازیں آتیں ۔وہ بچے کی طرف دوڑتی تو آگے
ساس نظر آتی جو بڑے بڑے ناخنوں سے اس کے بیٹے کو نوچ رہی ہوتی ۔ پھر پلٹ کر
اُس پر حملہ کرتی ۔ زیتون پاگلوں کی طرح چیخیں مارتی اُٹھ جاتی ۔ یہ خواب
اس کا کئی سالوں تک پیچھا کرتا رہا ۔ شادی کے نام سے اُسے نفرت ہوگئی تھی ۔ |