عورت مرد سے برتر ……

گذشتہ چند سالوں سے عورتوں کا عالمی دن قریب آتے ہی ایک عجیب سے بحث کا آغاز ہو جاتا ہے ۔ خواتین کا ایک ’’اقلیتی گروہ‘‘ اکثریتی خواتین پر فوقیت حاصل کرنے کی کوشش میں جت جاتا ہے ۔ اپنی مظلومیت اور نام نہاد استحصال کا رونا روتے ہوئے متضاد نعروں کے ساتھ ان حقوق کا مطالبہ کرتا دکھائی دیتا ہے جو انہیں اسلام کے علاوہ معاشرے نے بھی دے رکھے ہوتے ہیں ، مگر انہیں اس کا ادراک نہیں ہوتا ۔
بظاہر دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں عورت پہلے ہی مرد سے برتر ہے ۔ کہتے ہیں کہ ‘‘ایک عورت نے کسی عالم سے پوچھا:اسلام نے ہمیں شوہر کی اطاعت اور فرمانبرداری کا پابند کیوں کیا ہے، شوہر کو ہماری اطاعت کا پابند کیوں نہیں کیا گیا ؟ عالم نے استفسار کیا : آپ کے کتنے بیٹے ہیں؟ ۔ بولی، تین …… عالم نے جواب دیا: اﷲ نے تجھے ایک مرد کی اطاعت کا حکم فرمایا ہے جبکہ تین مردوں کو تیری اطاعت کا حکم دیا ہے ۔ تیری اطاعت اور تجھ سے اچھا سلوک کئے بغیر وہ ہر گز جنت میں داخل نہیں ہوسکیں گے ۔ اب تو بتا کون زیادہ پابند ہے؟‘‘ ……

حقوق اور برابری کے شوق میں وہ یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ ہماری سوسائٹی میں خواتین کو پہلے ہی مرد پر اوسطاً برتری حاصل ہے ۔ گو ، کہ ہم انہیں تمام حقوق دینے کے معاملے میں کنجوس واقع ہوئے ہیں ، لیکن اس کے باوجود فرائض کی انجام دہی کے حوالے سے وہ ہم سے کئی درجہ اوپر ہیں ۔ اگرچہ وہ سسرالیوں کے ظلم کا بھی شکار ہوتی ہے ……شوہر کے تشدد کا بھی نشانہ بنتی ہے …… اسے ہراساں بھی کیا جاتا ہے …… چولہا پھٹتا ہے تو خاتون پر …… تیزاب گردی کا بھی شکار ہوتی ہے …… ونی بھی ہوتی ہے …… جائیداد کے حوالے سے بھی اس کی حق تلفی ہوتی ہے …… قدم قدم پر اپنے استحصال کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے …… ملازمتوں میں بھی اس کاکوٹہ نہ ہونے کے برابر ہے …… ایسے ہی مزید کئی مسائل کا بھی شکار رہتی ہے …… ہماری تضحیک کا نشانہ بنتی ہے …… مگر اس کے باوجود وہ صبر اور استقامت کا کوہ ہمالیہ ہے ۔ دھتکاری بھی جاتی ہے مگر سب سے زیادہ قوت برداشت رکھتی ہے ۔ اپنی ہتک کے باوجود روز و شب کے معاملے میں وہ مجھے مرد کو مات دیتے ہوئے ملتی ہے ۔
ہم صبح بیدار ہوتے ہیں تو خاتون ، چاہے ماں ہو ، بہن ، بیوی یا بیٹی ، ہم سے پہلے اٹھی ہوتی ہے …… ہم آنکھیں مل رہے ہوتے ہیں تو ناشتہ ٹیبل پر لگا ہوتا ہے …… بیک وقت سکول اور دفاتر جانے والوں کیلئے بھی الگ ناشتہ تیار ہو رہا ہوتا ہے اور گھر کے باقی افراد کیلئے بھی …… دوپہر اور رات کیلئے بھی سوچنا اور انتظام کرنا ہوتا ہے …… ملازمت پیشہ خواتین گھر داری کے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی پر بھی توجہ مرکوز کئے ہوتی ہیں …… آپ رات کو گھر جاتے ہیں تو آمد کے ساتھ ہی عشائیہ پیش کیا جاتا ہے …… گھر صاف ملتا ہے اور کپڑے بھی دھلے ہوئے اور استری شدہ …… بچوں کو سکول سے لے جانا ہو ، یا طبیب کو دکھانا ہو ، گھمانا ہو ، پڑھانا ہو ، یا کسی ضرورت کو پورا کرنا ہو ، یہ ذمہ داری بھی خود لے رکھی ہوتی ہے …… غرض خاتون کولہو کے بیل کی طرح دن بھر مختلف کاموں میں جتی رہتی ہے …… ہم سے قبل بیدار ہوتی ہے اور ہمارے بعد سوتی ہے …… ہم اٹھ کر پانی کا گلاس نہیں پی سکتے مگر وہ تھکن سے چور ہونے کے باوجود ہماری ہر فرمائش کو تعظیم دیتی ہے …… ہمارے کام ختم ہو جاتے ہیں ، لیکن ان کے ختم نہیں ہوتے …… عورت کی یہ مصروفیات تو ماہ رمضان میں مزید بڑھ جاتی ہیں …… جب ہمارے سوتے میں یہ سحری بنا رہی ہوتی ہیں …… ہم آخری وقت میں اٹھ کر اس سحری سے اپنا پیٹ بھر چکے ہوتے ہیں تو یہ اخیری چند منٹوں میں لقمے حلق سے اتار رہی ہوتی ہیں …… ہم دفاتر میں اے سی کے مزے لے رہے ہوتے ہیں یا گھروں میں گرمی سے دبکے پنکھے تلے آرام فرما ہوتے ہیں ، تو وہ اپنی تھکاوٹ اور بوجھل طبیعت کے باوجود تپتے کچن میں ، روزے ، بھوک ، پیاس سے بے نیاز ہمارے لئے افطار کی تیاری میں مصروف ہوتی ہیں …… گھریلو کے ساتھ ساتھ اپنی سماجی سرگرمیوں اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے بھی عہدہ برآء ہو رہی ہوتی ہیں …… کم آرام ، زیادہ کام والا فارمولا ہر دم اپنائے رکھتی ہے …… ملازمت پیشہ خواتین معمولی اجرتوں پر مجموعی طور پر مردوں کی نسبت دگنا کام کرتی ہیں ۔ بیک وقت خاندان کی دیکھ بھال ، گھر داری ، ملازمت ، غرض ، ان پر دوہری ذمہ داری ہوتی ہے …… بلاشبہ یہ انہی کی ہمت اور استقامت ہے کہ نہ تھکن محسوس کرتی ہیں ، نہ ماتھے پر شکن لاتی ہیں …… شکوہ زبان پر آتا ہے اور نہ ہی صلے کی کوئی آرزو ہوتی ہے …… ہر حال میں مسرور اور بے غرض ان خواتین کے اظہار تشکر کیلئے الفاظ دنیا کی کسی ڈکشنری میں دستیاب نہیں ۔
ہے پانی کی طرح فطرت میں اپنی
وہ ہر سانچے میں ڈھلنا جانتی ہوں

آپ صرف ایک دن اپنے گھر میں موجود خواتین کے دن بھر کے امور کا مشاہدہ کیجئے تو اپنی ہی کمتری اور ان کے معتبر ہونے کا احساس ہوگا اور بے اختیار ان کا احسان مند ہونے کو جی چاہے گا ۔ اسے تو وقفہ بھی میسر نہیں آتا ۔ یہ تو مرد سے زیادہ مقدم حیثیت کی حامل ہیں ۔ شدید بیماری کی حالت یا بچے کی پیدائش کے مراحل سے گزرنے کے دوران بھی آخری دن تک روٹین کے کاموں کی انجام دہی میں کوئی لغزش نہیں آنے دیتی ۔ اسے تو بنایا ہی اس مٹی سے گیا ہے جس میں مسلسل محنت اور برداشت جیسے عناصر شامل ہیں ۔ ہماری سوسائٹی میں عورتوں کی تعداد مردوں سے کئی گنا زیادہ ہے ۔ اوسطاً دیکھا جائے تو مرد جلد وفات پا رہے ہیں اور بیواؤں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ ایسے میں یہ عورت ہی ہے جو بیوگی کے روگ کے باوجود خود کو بھی سنبھالتی ہے اور محنت مزدوری کرکے بچوں کی بھی پرورش کر رہی ہے ……

ہمارا مٹھی بھر ’’برگر خواتین‘‘ کا طبقہ جس مرد سے خود کو خائف دکھاتا ہے ، اس پر تو خواتین پہلے ہی حاوی اور بااختیار ہیں ۔ ان کی حیثیت ہی مثبت ہے …… عزم و ہمت ، محنت مشقت اور ذمہ داریاں نبھانے کا جتنا سٹیمنا ایک خاتون میں ہے ، اتنا تو مرد کا بھی نہیں ہے …… مذکورہ تمام امور پر غور کیا جائے تو عورت کا رتبہ پہلے ہی مرد سے برتر ثابت ہوتا ہے ۔ مردوں کے خلاف نکل کر یہ خود اپنی تکریم کو ٹھکرا رہی ہیں ۔

کہنے کو خواتین نصف آبادی ہیں لیکن اصلاً ایک مکمل روایات اور مساوات کی امین ہیں ۔ یہ نہ رہیں تو پسماندگان کو خاندان والے بھی بھول جاتے ہیں …… پبلک مقامات ، ٹرانسپورٹ ، بینک ، مارکیٹس ، ہر جگہ انہیں مقدم جان کر لیڈیز فرسٹ والا قانون اپنایا جاتا ہے …… یہ ائیر یا بس ہوسٹس ہیں تو بھی حاوی ، کھیتوں میں مزدوری یا دفتر میں کام کریں تو بھی فوقیت حاصل …… ہماری خواتین ہر لحاظ سے ہمت اور جرات کی داستان ہیں اور ہم ان کی زندگی کے ہر پہلو کے معترف اور قدردان …… اسلام میں اگرچہ مرد کو عورت پر فوقیت دی گئی ہے ، لیکن عمومی مزاج دیکھا جائے تو ہر جگہ عورت ہی برتر ہے …… مگر اس کے باوجود اگر خواتین کا کوئی طبقہ حقائق کی نفی کرتے ہوئے سورج کو چراغ دکھانا چاہتا ہے تو یہ اس کا اپنا فیصلہ ہوگا ۔
 

Muhammad Noor-Ul-Huda
About the Author: Muhammad Noor-Ul-Huda Read More Articles by Muhammad Noor-Ul-Huda: 82 Articles with 70209 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.