خواتین کا عالمی دن ہر سال 8مارچ کو منایا جاتا
ہے۔یہ دن خواتین کے حقوق اجاگر کرنے کے حوالے سے مختص ہے۔
بعض ممالک ایسے بھی ہیں جہاں خواتین کے عالمی دن یعنی 8مارچ کو ملک میں عام
تعطیل ہوتی ہے ۔کئی ممالک میں اسے احتجاج کے طور پر منایا جاتا ہے جبکہ بعض
ممالک میں اسے بطورِ جشنِ نسوانیت کے طور پر منایا جاتا ہے۔وطنِ عزیز میں
2018سے اس دن کے مناسبت سے ’’عورت مارچ ‘‘ کا آغاز ہوا اور رواں سال اس
سلسلے کا تیسرا مارچ پاکستان کے بڑے شہروں میں آج منعقد کیا جا رہا ہے۔عورت
مارچ کے بارے میں دو متضاد رائے پائی جاتی ہیں ، خصوصا ’عورت مارچ ‘ میں
بعض خواتین کے ہاتھوں میں ’’ میرا جسم ،میری مرضی ‘‘ جیسے پلے کارڈ دیکھ کر
سوشل میڈیا میں ایک طوفان کھڑا کر دیا گیا ہے ۔جبکہ بعض خواتین آج بھی اپنی
بات پر یا اپنی موقف پر قائم ہیں۔ میرے خیال میں سب سے زیادہ اتراض ہی اسی
نعرہ یعنی میرا جسم میری مرضی پر ہے کیونکہ اس سے یہ تا ثر ابھرتا ہے کہ
گویا خواتین جنسی آزادی کا مطالبہ کر رہی ہیں ، مناسب یہ ہو تا کہ وہ ’’
وراثت میں حصہ دو ،، تعلیم کے مواقع دو،،بیٹی کے ساتھ بیٹے جیسا سلوک کرو
،، جیسے جملے پلے کارڈز کی زینت بنا لیتیں۔تو شاید ان کے احتجاج کو معشرے
کی طرف سے پذیرائی ملتی۔بحر حال حقیقت کیا ہے ؟ کیا مرد اور عورت دونوں
یکساں ہیں ؟اس سلسلہ میں بحیثیتِ مسلمان ہمیں اپنے مذہب سے راہنمائی حاصل
کرنی ہوگی کیونکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور ہمارے لئے اس سے سے
بہتر کوئی اور چشمہ ہدایت موجود نہیں۔عورت اور مرد کے بارے میں اسلام میں
جو قوانین موجود ہیں ، وہ سب اس اصولی موقف پر قائم ہیں کہ مرد اور عورت دو
الگ الگ صنفیں ہیں۔تخلیقی اعتبار سے دونوں میں فرق موجود ہے اس لئے خاندانی
اور سماجی زندگی میں دونوں کا دائرہ عمل ایک جیسا نہیں ہو سکتا۔اس کا مطلب
ہر گز یہ نہیں کہ اسلام نے میں عورت کا درجہ مرد سے کم تر ہے ،اسلام کا
کہنا صرف یہ ہے کہ عورت مرد سے مختلف ہے،یہ ایک دوسرے کے مقابلہ میں فرق کا
معاملہ ہے نہ کہ ایک کے مقابلہ میں دوسرے کے بہتر ہونے کا ۔۔‘‘ جیسے ایک
ڈاکٹر اپنے مریض سے کہتا ہے کہ ’’ آنکھ تمھارے جسم کا نہایت نازک حصہ ہے،
تم اپنے آنکھ کے ساتھ وہ معاملہ نہیں کر سکتے جو تم اپنے ناخن کے ساتھ کرتے
ہو ، اپنی آنکھ کے معاملہ میں تم کو زیادہ محتاط رویہ اختیار کرنا پڑے گا
‘‘ ڈاکٹر کے اس ہدایت کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ناخن کے مقابلہ میں آنکھ کو کم
درجہ دے رہا ہے بلکہ وہ ناخن کے مقابلہ میں آنکھ کے فرق کو بتا رہا ہے۔‘‘
قدیم دنیا میں مختلف تو ہماتی خیالات کے تحت عورت کو حقیر سمجھا جاتا تھا،
ان کو جائداد میں حصہ دینے سے محروم کیا گیا تھا یہ اسلام تھا جس نے تاریخ
میں پہلی بار باقاعدہ طور پر عورتوں کا وراثتی حصہ مقرر کیا ۔یوں اسلام نے
عورتوں کے حقوق دینے کادروازہ کھولا ۔۔
اب آتے ہیں، عورت مارچ کی طرف ۔۔! جب یورپ میں صنعتی انقلاب آیا تو عورتیں
کارخانوں اور دفتروں میں پہنچ کر کام کرنے لگیں۔
پہلے کمائی کا انحصار مرد پر تھا، پھر عورتیں خود کفیل ہونے لگیں، اسی کے
ساتھ عورتوں کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ وہ مردوں کی پابندی سے نکلیں
اور اپنے لئے آزاد مستقل زندگی بنائیں ، اس طرح ایک تحریک پیدا ہو ئی جس کو
آزادی نسواں تحریک کہا جاتا ہے،جو آج منایا جا رہا ہے۔ اس کی ابتداء
انگلینڈ سے ہوئی، خواتین نے احتجاج کرتے ہوئے یہ موقف اپنایا کہ قدیم
سماجوں میں عورت اور مرد کے درمیان جو فرق تھا اس کا سبب فطرت میں نہ تھا
بلکہ سماج میں تھا۔عورت ہر وہ کام کر سکتی ہے جو مرد کرتا ہے یا کر سکتا ہے۔
مگر سماجی حالات نے عورت کو موقعہ ہی نہیں دیا اگر یہ سماجی دباؤ ختم کیا
جائے تو عورت ہر میدان میں مرد کے شانہ بشانہ کام کرے گی۔ وہ کسی اعتبار سے
مرد سے پیچھے نہیں رہے گی۔ اس تحریک کے نتیجہ میں یورپین ممالک میں برابری
کے قوانین بنائے گئے ۔مگر اس کے باوجود یہ ایک
کھلی حقیقت ہے کہ وہ کسی بھی شعبہ میں مرد کی برابری نہ کر سکی۔ مغربی
ممالک ہوں یا وطنِ عزیز میں ، جہاں کہیں عورتیں دفتروں، کارخانوں وغیرہ میں
کام کرتی ہیں وہاں جنسی بد سلوکی ان کے لئے عام تجربہ بن چکا ہے۔اس لئے آج
جو خواتین ہاتھوں میں ’’ میرا جسم میری مرضی ‘‘ کے پلے کارڈز اٹھائے احتجاج
کر رہی ہیں ،ان سے گزارش ہے کہ وہ اس حقیقت کو تسلیم کر لیں کہ مرد کو قدرت
نے صنفِ قوّی
بنایا ہے اور عورت کو صنفِ نازک ۔۔۔یہ فرق دونوں کے اس کام کی نو عیت سے ہے
جو قدرت دونوں سے الگ الگ لینا چاہتی ہے دونوں کے تقسیمِ عمل میں تبدیلی
فطرت کی خلاف ورزی ہے اور فطرت کے خلاف ورزی سے جس طرح مغرب کی عورت جنسی
کھلونا بن چکا ہے ، اسی طرح ان کا بھی یہی حال ہو گا۔عورت گھر میں رہے گی
تو بہن، بیوی اور ماں کی حیثیت سے نہایت با عزّت جگہ کی مالک بنی رہے گی
لیکن اگر گھر سے باہر نکال دیا جائے اور مردوں کے دوش بدوش کھڑا کر دیا
جائے تو اس کا وہی انجام ہو گا جو مغربی دنیا میں اس وقت عورت کا ہو چکا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|