بَکنے کا ادب اور ہے، لِکھنے کا ادب اور

ہم ایک ایسے ملک میں جی رہے ہیں جس میں بولنے، بلکہ بولتے رہنے ہی کو سب کچھ سمجھ لیا گیا ہے۔ جنہیں اللہ نے سوچنے اور لکھنے کا شعور ہی نہیں، مہارت بھی بخشی ہے وہ اب صرف بولنے کو اپنی متاع لوح و قلم سمجھ بیٹھے ہیں! ادب کو ضبطِ تحریر میں لانے کے بجائے اب ادبی بیان بازی ہی کو ادب کا درجہ دیا جانے لگا ہے۔ بلا خوفِ تردید کہا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ ادب پاکستان میں بولا (اور بَکا) جاتا ہے! جس طور بہت سے ممالک کا آئین ضبطِ تحریر میں نہیں لایا گیا، محض نافذ کردیا گیا ہے بالکل اُسی طرح ہمارے ہاں بھی ”غیر تحریری ادب“ کو مروّج کرنے کی تحریک شباب پر ہے!

بزم آرائی اہل ادب کی فطرتِ ثانیہ بن چکی ہے۔ دن اور رات کی کچھ تفریق یا قید نہیں۔ بحث و تمحیص کی قبر کھود کر ادب کو سپردِ خاک کرنے کا سلسلہ ہر وقت جاری رہتا ہے۔ کبھی ایرانی ہوٹلوں کی کافی، کیک اور بسکٹ کے سہارے ادبی بحثیں ہوا کرتی تھیں۔ اب کوئٹہ ہوٹلوں کی چارپائیاں ہیں اور اہل ادب ہیں! کافی اور بسکٹ کی جگہ اب چرغے، کڑھائی اور کڑک دودھ پتی نے لے لی ہے۔ جتنا بڑا ادیب اُتنی ہی بڑی دعوت اور اُتنا ہی زبردست پتھراؤ۔ غالب کا دعویٰ تھا کہ وہ دیکھنے تو گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا اور اُن کے پُرزے نہ اُڑے۔ آج اگر وہ ہوتے تو بہ چشم خود دیکھ لیتے کہ ادب نوازوں کی محفل میں اُن کے پُرزے کس طور اُڑا کرتے ہیں! میر تقی میر کو خدائے سُخن کہا جاتا ہے مگر اِن محفلوں میں وہ دُنیائے سُخن کے بندہ بے دام ٹھہرتے ہیں! نظیر اکبر آبادی کو عوامی شاعر خیال کیا جاتا ہے۔ اکبر الٰہ آبادی کو بھی قوم کا ترجمان تصور کیا جاتا ہے مگر ادبی محفلوں میں اِن بے چاروں کی بھی درگت بنتے دیر نہیں لگتی۔ مرثیہ گوئی میں میر انیس کے قادر الکلام ہونے میں کس کو کلام ہے مگر مرزا دبیر سے اُن کا موازنہ کچھ اِس طور کیا جاتا ہے کہ کبھی وہ مصرع اُولیٰ ہوتے ہیں اور کبھی مصرع ثانی! ادبی بحث و تمحیص کی اِن محافل میں جو کچھ ہوتا ہے اُس کی بنیاد پر اِنہیں ادبی مجالس قرار دینا زیادہ موزوں ہوگا!

ادب کے بخیے اُدھیڑنے کی محافل جب شباب پر ہوتی ہیں تو اساتذہ بھی متبدی کا روپ دھارتے دکھائی دیتے ہیں! اِن محافل میں ادب کی تمام قد آور شخصیات کے مراتب کا تعین یومیہ بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ کل آپ نے جس کے بارے میں صرف توصیفی کلمات سنے تھے، آج کوئی اُس کے حق میں ایک لفظ بھی بولنے کا روادار دکھائی نہ دے گا! آج اگر کسی کی پوجا کی جارہی ہے تو یقین کیجیے کہ کل شاید اُس کی ایسی حالت بنادی جائے کہ ممکن ہے وہ بھی اپنا آپ آراء کے آئینے میں پہچان نہ پائے!

ہم نے 1983 میں فرسٹ ایئر (کامرس) کے طالب علم کی حیثیت سے ریڈیو پاکستان کراچی کے پروگرام بزم طلباء میں قدم رکھا۔ پہلا اعتراض تو اِسی بات پر ہوا کہ کامرس کا طالب علم ہوتے ہوئے ہم ادب کی طرف کیوں آرہے ہیں! صرف دو تین دن میں ہمیں اندازہ ہوگیا کہ ہم جسے بزم طلباء سمجھ کر آئے ہیں وہ تو بزم اساتذہ ہے! بزم طلباء کے انچارج قمر جمیل مرحوم تھے۔ اُن کے دفتر میں روزانہ ادبی محفل برپا ہوا کرتی تھی اور اس میں جدید شعراء سے اساتذہ تک سبھی کی خیریت اچھی طرح دریافت کی جاتی تھی! اِن محافل میں سلیم احمد مرحوم، ضمیر علی بدایونی مرحوم اور اداکار طلعت حسین پورے جوش و خروش سے شریک ہوا کرتے تھے۔ قمر بھائی کے خُلوص کی انتہا یہ تھی کہ وہ بزم طلباء کے پروگراموں میں شرکت کے لئے آنے والے طلباء کو اِن محافل میں بیٹھنے سے واضح طور پر روک دیا کرتے تھے! اُن کی اِس کرم نوازی ہی کا نتیجہ ہے کہ بہت سے طلباء ادب کے ہاتھوں برباد ہونے سے محفوظ رہے! ہمارے سر پر اُس زمانے میں ادب کا بھوت اچھا خاصا سوار تھا اِس لئے کسی نہ کسی طرح نظر بچاکر ہم کونے کھدرے میں چھپ کر یہ ادبی بحث سنا کرتے تھے۔

کالج سے واپسی پر ہم والد کی ٹیلرنگ شاپ پر دو ڈھائی گھنٹے کام کیا کرتے تھے۔ اس یکسانیت سے بچنے کے لئے ہم نے بزم طلباء کا رخ کیا تھا مگر یہ دیکھ کر تو ہم حیران رہ گئے کہ ریڈیو پاکستان کی عمارت میں بھی بخیہ گری اور بخیے ادھیڑنے ہی کام ہو رہا تھا! جب ادبی بحث کی محفل پورے شباب پر ہوتی تھی تو کسی بھی عالی مرتبت ادبی شخصیت کو دبوچ کر اُس کے فنی کمالات کو funny ثابت کرنے پر ایڑی چوٹی کا زور صرف کیا جاتا تھا۔ مگر یہ معاملہ کھٹا اور میٹھا ہوتا تھا۔ یعنی آج جس ادیب کو بے حیثیت ثابت کرنے کے لئے اُس کے فن کو بے لباس کیا جاتا تھا، کل اُسے نئے کپڑے بھی عطا کردیئے جاتے تھے!

قمر بھائی کی بزم میں بھی وہی اُصول کار فرما تھا جو دنیا بھر میں دکھائی دیتا ہے۔۔ یعنی دلہن وہی جو پیا من بھائے! اگر قمر بھائی کا موڈ اچھا ہے اور وہ کسی سے خوش ہیں تو سمجھ لیجیے کہ اُس کا ستارہ خاصی بلندی پر اور روشن ہے! اور اگر طبیعت میں آج کچھ ٹھہراؤ نہیں تو سمجھ لیجیے کسی بھی بڑے شاعر یا افسانہ نگار کی شامت آسکتی ہے! کبھی کِسی کے ایک آدھ شعر پر خوش ہوکر اُسے نئی نسل کا نمائندہ قرار دے دیا کرتے تھے اور کبھی یہ بھی ہوتا تھا کہ اپنی رائے سے رجوع فرماتے ہوئے اُسی شاعر کو ایسا رگڑا دیتے تھے کہ بے چارہ ہفتہ بھر منہ چھپائے پھرتا تھا! یہی سبب تھا کہ ہم قمر بھائی کو اپنی غزل اُس وقت سناتے تھے جب وہ خاصے اچھے موڈ میں ہوتے تھے! کبھی کبھی وہ ہمیں اشعار سے زیادہ اِس چالاکی پر داد دیا کرتے تھے!

جب ہم نے بزم طلباء کی بزم اساتذہ میں ادب کا یہ حال دیکھا تو ادب کو اوڑھنا بچھونا بنانے کے ارادے سے تائب ہوئے اور اپنے ذہنی رجحان کی گاڑی کی کو اخباری دُنیا کی طرف موڑ لیا۔ چند ایک احباب نے اِسے بھی ہماری ادب نوازی سے تعبیر کرتے ہوئے باضابطہ شکریہ ادا کیا!

کون ہے جسے ادبی بزم آرائی نے تباہ نہیں کیا؟ ایک مشہور ڈائجسٹ کے دفتر میں جون ایلیا مرحوم، جمال احسانی مرحوم اور آں جہانی عُبیداللہ علیم بحث و تمحیص کا ملاکھڑا منعقد کیا کرتے تھے۔ اِس شوق کی تکمیل ایسی باقاعدگی سے کی جاتی تھی کہ لوگ اِن احباب کو دیکھ کر گھڑی ملا لیا کرتے تھے! اِس بزم میں بھی لوگ بڑے بڑے بُتوں کو منہ کے بل گرتے دیکھا کرتے تھے، اور پھر اُنہی بُتوں کو دوبارہ طاق میں سجا بھی دیا جاتا تھا! ہم اِس بزم کے عینی شاہد تو نہیں تاہم جنہوں نے اِن تین شخصیات کو دیکھا ہے وہ بتاتے ہیں کہ جو کچھ بحث کے دوران کہا جاتا تھا وہ اگر بیان کردیا جائے تو لوگ بہت کچھ سیکھیں اور سیکھنے سے زیادہ عبرت پکڑیں اور ادب کی طرف آنے سے باز رہیں! ہم نے ادب کی دُنیا میں قدم رکھنے کے بعد ابتدائی زمانے میں زیادہ توجہ اِس بات پر دی کہ جنہیں ادبی ذوق ملا ہے وہ بزم آرائی کے اِس قدر شوقین کیوں ہیں۔ اندازہ ہوا کہ اِس میں خرچ کچھ نہیں ہوتا اور دل کی تسلی ہو جاتی ہے! جو کچھ لکھتے ہوئے موت آتی ہے وہ زبان سے بڑی آسانی کے ساتھ ادا ہو جاتا ہے! قرطاس و قلم کے جھنھٹ میں کون پڑے؟ اگر زبانی کلامی کسی کے بخیے ادھیڑ بھی دیئے جائیں تو گرفت کا خطرہ نہیں ہوتا۔ یہی کچھ اگر قلم بند ہو اور شائع بھی کردیا جائے (یا کرا دیا جائے) تو بہت سے لوگ ناراض ہوسکتے ہیں اور معاملہ نالش تک جاسکتا ہے! عام طور پر اردو کے عہد ہائِ رفتہ کے بڑے ناموں کو بار بار تنقید کی قبر میں سپردِ خاک کیا جاتا ہے تاکہ کوئی ازالہ حیثیت عرفی کا دعویٰ بھی نہ کرسکے! اگر کوئی ادیب تازہ تازہ مرا ہو تب بھی اُس کے بارے میں کوئی بھی ایسی بات لکھتے اور شائع کرتے وقت کسی نوع کے محاسبے کا خطرہ اِس لئے نہیں ہوتا کہ ادیبوں کے ورثاء بالعموم ایسی باتوں پر دھیان نہیں دیتے!

ہمارے ایک ادیب دوست کے بارے میں کسی جریدے میں چند انٹ شنٹ ریمارکس شائع ہوئے۔ ہم نے متوجہ کیا تو شکریہ ادا کرتے ہوئے بولے اچھا ہے، ایسی دو چار باتیں اور چھپ جائیں۔ ہم نے حیران ہوکر اِس خواہش کا سبب پوچھا تو فرمایا اِس صورت کمپنی کی کچھ مشہوری ہی ہو جائے گی! پھر اُنہوں نے یہ کہتے ہوئے ہمارے ”معلوماتی علم“ میں اِضافہ کیا کہ وہ اپنی ادبی نگارشات میں خود ہی زبان و بیان کی غلطیاں جانے دیتے ہیں تاکہ تنقیدی نشستوں میں خوب لَتّے لئے جائیں اور ادبی کالموں میں جگہ پائیں!

ہم تو سمجھے تھے کہ ادبی محفلوں میں منہ سے جھاگ اُڑاتے ہوئے بیان کی جانے والی ہر بات شائع ہو جائے تو طوفان اُٹھ کھڑا ہو، قیامت برپا ہو جائے۔ معلوم یہ ہوا کہ لوگ چاہتے ہیں کہ اُن کے بارے میں انٹ شنٹ باتیں بیان کی جائیں!

اب ایسے میں ادب کیا فروغ پائے گا، آپ اور ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ایک آپشن بہر حال باقی بچا ہے، ادبی محافل کی ریکارڈنگز انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کردی جائیں تاکہ دنیا کو معلوم ہوسکے کہ نری بکواس پر مبنی یعنی بولے جانے اور لکھے جانے والے ادب میں کیا فرق ہے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524445 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More