مہدی حسن کا مشورہ اور لُغتُ المُغَلِّظات

1994 کی بات ہے۔ ہم نے غزل گائیکی کے شہنشاہ خاں صاحب مہدی حسن خاں کا انٹرویو کیا جو تین نشستوں پر محیط تھا۔ تیسری نشست میں جب ہمارے یاد دلانے پر بھی خاں صاحب کو اپنے ایک گانے کی دُھن یاد نہ آئی تو ہم نے گنگنا کر دُھن یاد دلائی۔ خاں صاحب بہت متاثر ہوئے اور کہنے لگے ”میں آپ میں ’وہ‘ بات دیکھ رہا ہوں!“ ہم نے وضاحت چاہی تو فرمایا ”باقاعدگی سے ریاض کرو تو اچھا گانے لگو گے!“ ہم نے دست بستہ معذرت چاہی کہ ہم جو کچھ (یعنی قلم کاری) کر رہے ہیں بس وہی ڈھنگ سے کرلینے دیجیے! جب یونہی اپنے دل کی تسلی کے لئے ہم نے پوچھا کہ آخر انہوں نے ہم میں کیا دیکھا ہے تو ارشاد ہوا ”تمہاری آواز میں کھرج ہے!“ اب ہم اُنہیں کیا سمجھاتے کہ ہر شادی شدہ آدمی رفتہ رفتہ کھرج کے سُروں ہی میں گفتگو کرنے لگتا ہے، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ سوچتا بھی کھرج کے سُروں میں ہے!

آج خیال آتا ہے کہ خاں صاحب کی بات مان لیتے اور چند راگوں کو اچھی طرح گانا سیکھ لیتے تو کالم نویسی کے میدان میں فتوحات کے جھنڈے گاڑ چکے ہوتے! اب کالم لکھنے اور راگ الاپنے میں کچھ خاص فرق نہیں رہا! وہی کالم نویس کامیاب ہیں جو چند پکے راگ اور بالخصوص راگ درباری الاپتے رہتے ہیں! جیسا مال ویسی سرگم! مال ملے تو تانیں ہی تانیں اور لفافوں کی آمد میں وقفہ متعارف ہو تو پَلٹے ہی پَلٹے! بعض کلاسیکی گویّے اگر کسی دن سکّہ بند کالم نویسوں کی نگارشات پڑھ لیں تو محفل میں بھرپور لگن کے ساتھ گاتے ہیں! ہمارا اندازہ یہ ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب کلا ونت گھرانوں کے لوگ اپنے بچوں کو پکّے راگ سکھانے کے لئے ٹھیٹھ کالم نویسوں کا گنڈا بند شاگرد بنانے میں فخر محسوس کیا کریں گے!

مگر خیر، کامیاب کالم نویس اور عدیم المثال تجزیہ کار بننے کے لئے راگ راگنیاں ہی کافی نہیں۔ ایڈیٹ باکس یعنی ٹیلی وژن پر بولنے کے لئے انسان کو اور بھی بہت کچھ آنا چاہیے۔ جو منہ میں آئے وہ بولنے کی صلاحیت لازم ہے۔ صلاحیت، بے جگری، بے فکری اور ڈھٹائی۔۔ یہ چار عناصر ہوں تو کالم نویس بنتا ہے تجزیہ کار! کم از کم جملہ باز کالم نویسوں کو تو ہم نے اِسی طور پنپتے دیکھا ہے۔

جب ہم اپنے لئے کام کی چیز خریدنے نکلے تو اردو اور اردو بازار کی تنگ دامانی کا کچھ کچھ اندازہ ہوا! ہم ٹی وی کے سِکّہ بند تجزیہ کاروں کی گفتگو سمجھنے کے لئے ”لُغَتُ المُغَلِّظات“ خریدنے نکلے تھے۔ اردو بازار چھان مارا مگر کہیں بھی یہ لُغَت نہ ملی۔ اِن دونوں الفاظ کی ”عربیت“ سے متاثر ہوکر چند ایک دکانداروں نے خاصے خشوع و خضوع سے معذرت چاہی! بعض دکانداروں نے تو اِس لُغَت کا نام سُن کر یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ہم غلط بازار میں آگئے ہیں اور پھر دو تین حکیموں کے پتے بھی دیئے! وہ سمجھے شاید ہم کِسی ”مُغَلّظ“ نُسخے کی تلاش میں ہیں!

معلوم ہوا کہ بازار میں مُغَلِّظات تو بہت ہیں، ”لُغتُ المُغَلِّظات“ دستیاب نہیں! چند ایک جہاں دیدہ اور بظاہر علمی قسم کے دکانداروں سے دریافت کیا کہ اب ہم کیا کریں تو جواب ملا ٹی وی باقاعدگی سے دیکھیے اور اپنی ”لُغتُ المُغَلِّظات“ خود مُرَتّب کیجیے! بازار کے حالات پر نظر رکھنے والے چند دکانداروں کا کہنا تھا کہ مُغَلِّظات کے شعبے میں ٹی وی چینلز اتنی تیزی سے ”ترقی“ کر رہے ہیں کہ کسی مُستند اور جامع ”لُغتُ المُغَلِّظات“ کا شائع کرنا ممکن نہیں۔ کِس کو اِتنی فرصت ہے کہ ہر ماہ نئے الفاظ شامل کر کے نیا ایڈیشن چھاپتا پھرے!

آپ سوچیں گے کہ اِس لُغَت کی ضرورت ہمیں کیوں پیش آئی۔ بات یہ ہے کہ ایک مشہور کالم نویس، دانشور اور تجزیہ کار کو جب ہم نے ٹی وی پر آپے اور شرافت کے جامے سے باہر ہوتے دیکھا تو سوچا اُن کی ناقابل فہم باتوں کو سمجھنے کی کوئی صورت نکالی جائے! موصوف کا حال یہ ہے کہ لکھتے ہیں تو تاریخ اور زبان کو پلٹ دیتے ہیں اور ٹی وی پر بولتے ہیں تو اپنے وجود کو پلٹ دیتے ہیں! چولہے پر چڑھی ہوئی پتیلی کو اُلٹ دیجیے تو کالک منہ چڑاتی ہے۔ یہی حال موصوف کا ہے۔ کوئی اگر اِن کی مرضی کے خلاف کوئی بات پوچھ بیٹھے تو بیچ چوراہے پر اپنی شرافت کی ہنڈیا پھوڑ دیتے ہیں اور بادبانی کشتی کی طرح اپنا رُخ دشمن کی طرف موڑ کر اپنی ”دانشوری“ کو کچھ اِس طرح نمایاں کرتے ہیں کہ لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ہاتھ آنکھوں پر رکھیں، ناک پر یا کانوں پر! ویسے تو بولنے کے معاملے میں دریائے سندھ کی سی روانی رکھتے ہیں، لیکن اگر کِسی مقام پر رُک کر کِسی کو لتاڑنا ہو تو اِن کے جوہر اِنہیں جوہڑ ثابت کر کے دم لیتے ہیں! یہ تماشا اِس حُسن کے ساتھ ہوتا ہے کہ اِن پر نثار ہونے کو جی چاہتا ہے!

اگر کوئی اِن سے اثاثوں اور آمدنی کے بارے میں پوچھ بیٹھے تو آن کی آن میں میڈیا کے بازار سے نکل کر ”اُس“ منڈی تک جا پہنچتے ہیں اور شریکِ گفتگو کو ”اُس“ منڈی کا کارندہ قرار دینے میں دیر نہیں لگاتے! یعنی بس زبان ہلانے کی دیر ہوتی ہے اور حریف کو آسمان سے پہلے زمین پر لاتے ہیں اور پھر تحت الثرٰی تک پہنچاکر دم لیتے ہیں! موصوف حریف پر کچھ ایسی تیزی اور طرّاری سے حملہ آور ہوتے ہیں کہ عرش منیر مرحومہ اور عشرت ہاشمی مرحومہ کی ارواح دیکھیں تو منہ ڈھانپ لیں اور کانوں میں اُنگلیاں ٹھونس لیں!

ٹی وی چینلز کے ماسٹر کنٹرول روم (ایم سی آر) میں کام کرنے والے بے چارے زمین اور آسمان کے درمیان مُعَلّق رہتے ہیں۔ جن کا غائبانہ ذکر ہم کر رہے ہیں وہ اور اُنہی کے قبیل کے بعض تجزیہ کار کچھ اِس روانی سے بَکنے پر اُتر آتے ہیں کہ ایم سی آر کے کنٹرول پینل کو آپریٹ کرنے والے ایک ہاتھ سوئچ بورڈ پر رکھتے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے سر پکڑے رہتے ہیں! کبھی کبھی تو لاکھ پریکٹس اور مہارت کے باوجود اُن کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کس ”دانشور“ کی کون سی بات سے ناظرین کو محظوظ ہونے دیں اور کون سی بات سے محفوظ رکھیں!

ایک بار ہم نے ٹی وی چینلز کے شاہکار ”ٹِکرز“ جمع کر کے کتابی شکل میں شائع کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا۔ ایک ٹی وی چینل کا یہ شاہکار ٹِکر بھی ہماری الیکٹرانک بیاض میں درج ہوا تھا۔۔”مہدی حسن طویل علالت کے بعد.... ہسپتال سے گھر منتقل ہوگئے!“ پھر ہم نے سوچا کہ ٹی وی چینلز تو قیامت تک ایسی ہی قیامتیں ڈھاتے رہیں گے، ہم کب تک مُنشی گیری کرتے رہیں! وہ پراجیکٹ تو ادھورا رہ گیا مگر اب ارادہ ہے کہ ٹی وی چینلز کی مدد سے ”لُغتُ المُغَلِّظات“ خود مُرَتّب کرلیں۔ دُعا کیجیے کہ ہم اپنے مقصد میں نہ صرف کامیاب ہوں بلکہ سلامت بھی رہیں!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 486760 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More