ایک زمانہ تھا جب طویل مدت تک
شعر کہنے کے بعد انتخاب شائع کیا جاتا تھا۔ اور بعض شعراء کو اشعار کا
انتخاب رُسوا بھی کر جاتا تھا! اب شعراء انتخابی رُسوائی سے بچنے کے لئے بس
اِس قدر شعر کہتے ہیں کہ مجموعہ خیریت سے چھپ جائے! ایسے شُعراء کو الگ سے
بیاض نہیں رکھنا پڑتی۔ جو کچھ کہا ہوتا ہے وہ سب اِن کی واحد ”کلیات“ میں
بھر، کھپ چکا ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ مشاعروں میں یہ اپنے مجموعے ہی کو
سامنے رکھ کر پڑھتے ہیں! مجموعہ چھاپنے کے معاملے میں اب کالم نویس بھی کسی
سے پیچھے نہیں رہے۔ برادرم عثمان جامعی نے بھی آؤ دیکھا نہ تاؤ، مزاحیہ
تحریروں کا مجموعہ دُنیا کے سامنے پیش کردیا! عثمان جامعی پر اِس سے زیادہ
تنقید اِس لئے نہیں کی جاسکتی کہ ہم خود بھی اپنے ”سنجیدہ“ کالموں کا
مزاحیہ مجموعہ چھاپنے کا ارادہ رکھتے ہیں!
عثمان جامعی نے اپنی کالمی مجموعے کی تقریب رونمائی کے لئے فنکاروں کے گڑھ
یعنی آرٹس کونسل آنے کی دعوت دی تو ہمیں اُن کے فنکار ہونے کا یقین آگیا۔
اِتنی ”چھوٹی سی بالی عمریا“ میں جو اپنے کالموں کا مجموعہ بازار میں لے
آئے وہ فنکار نہیں تو اور کیا ہے! ویسے بھی آج کے کالم نویس بڑے فنکاروں
میں سے ہیں! جب ہم نے عثمان جامعی کے سامنے تقریب آرٹس کونسل میں منعقد
کرنے سے متعلق اعتراض کرتے ہوئے فنکاری کا حوالہ دیا تو کہنے لگے کہ لکھنا
بھی تو فنون لطیفہ میں سے ہے۔ ہم متفق ہوئے بغیر نہ رہ سکے کیونکہ جو کچھ
عثمان جامعی لکھتے ہیں وہ فنون لطیفہ ہو نہ ہو، ہلکا پھلکا ہونے کی بنیاد
پر لطائف کے ذیل میں ضرور آتا ہے!
”کہے بغیر“ کی تقریب رونمائی میں احفاظ الرحمٰن، امر جلیل، نذیر لغاری اور
یوسف خان جیسی بھاری بھرکم شخصیات کو جمع کر کے عثمان جامعی نے ثابت کردیا
کہ اُنہیں ہماری طرح کے محض قاری ہی نہیں بلکہ جوہر شناس اہل قلم کی شفقت
بھی میسر ہے۔
تقریب رُونمائی سے کچھ دیر قبل ہمیں اوپر اوپن ایئر تھیٹر میں آرکیسٹرا
والے پریکٹس کرتے سُنائی دیئے۔ ہم سمجھے شاید عثمان جامعی اُردو ادب کی
تاریخ میں ایک نئی روایت کو جنم دینے والے ہیں یعنی مغربی موسیقی کی تھاپ
پر کالم خوانی کریں گے! ضیاء محی الدین نے بھی تو غالب کے خطوط اور فیض کا
کلام سِتار کی موسیقی کے جلو میں پیش کیا ہے۔ بعض عاقبت نا اندیش اور منچلے
قسم کے لوگ اِسے خالص کلاسیکی موسیقی کی دال میں خلل کا تڑکا قرار دیتے ہیں!
ہم نے سوچا کالم خوانی کی جارہی ہو اور پس منظر میں ڈرم بیٹ ہو تو کیا ہرج
ہے؟ جو ڈرم سے پیدا ہوتی ہے وہ سُنائی دینے والی بیٹ ہی تو ہے، سُنگھائی
دینے والی بیٹ تو نہیں! عثمان جامعی نے وضاحت کردی کہ اُن کا ایسا کوئی
ارادہ نہیں۔ ہم سوچ رہے تھے کہ اگر وہ ڈرم بیٹ پر کالم خوانی کر گزرتے تو
تقریب کچھ آف بیٹ ہو جاتی اور لوگوں کو اِس حوالے سے بھی یاد رہ جاتی!
برادرم عثمان جامعی نے ”کہے بغیر“ میں بہت کچھ بیان کرنے کی کوشش (بلکہ
جسارت) کی ہے۔ بعض مقاماتِ آہ و فغاں کو قدرے بولڈ اور رنگین جملوں کے
ذریعے ”گارنش“ کرنے سے بھی نہیں چُوکے! اگر قلم کی اِس ”سَعی“ پر اُنہیں
تنقید و تنقیص کی ”رَمی“ کا سامنا کرنا پڑے تو کسی کو حیران نہیں ہونا
چاہیے!
کالم خوانی پر یاد آیا کہ اِس ملک میں ہر آدمی وہ کام کر رہا ہے جو دراصل
اُس کا کام نہیں۔ جو لکھنے کے ماہر ہیں وہ صدا کاری کر رہے ہیں، جن کی
زندگی صدا کاری میں گزری ہے وہ اداکاری سکھانے پر مامور ہیں۔ اور اِس قوم
پر خدا کا قہر تو دیکھیے کہ جن کی دال اداکاری کے شعبے میں کبھی گل نہ سکی
وہ دانشوری پر اُتر آئے ہیں! رہے دانشور۔۔ سو وہ تو اداکار ہیں ہی! ایک ٹی
وی چینل نے بزرگ مزاح نویس مشتاق احمد یوسفی کو مزاح خوانی کی منزل تک
پہنچا دیا! یہ لفظ ”خوانی“ بھی اپنی ایک دنیا رکھتا ہے۔ یہ کان میں کیا
پڑتا ہے، ذہن فوراً قرآن خوانی اور فاتحہ خوانی کا تصور باندھنے لگتا ہے!
معاملہ یوسفی صاحب جیسی عظیم المرتبت ہستی کا ہے اِس لیے ہم یہ لکھنے کی
جسارت نہیں کرسکتے کہ مجمع کے سامنے اپنے لکھے کو پڑھنا فاتحہ خوانی کے ذیل
میں آتا ہے!
یوسفی صاحب نے 1990 میں ”آب گم“ لکھی اور خود بھی ایسے گم ہوئے کہ اہل ذوق
ڈھونڈتے ہی رہ گئے۔ یوسفی صاحب کے رشحاتِ قلم سے محرومی مزاح خوانوں اور
مزاح دانوں کے لئے ”صدمہ جاریہ“ سے کم نہیں۔ خاکم بدہن، یوسفی صاحب کی
اُفتادِ طبع کے نتائج سے محروم رہنا چراغ تلے اندھیرا نہیں تو اور کیا ہے؟
ڈاکٹر ظہیر فتح پوری نے کہا تھا کہ ہم مزاح کے عہدِ یوسفی میں جی رہے ہیں۔
اب، بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ ہم یوسفی صاحب کے نتائج طبع سے محرومی
کے دور میں زندگی گزار رہے ہیں! یوسفی صاحب کتاب لکھنے یا منظر عام پر لانے
سے بچنے کی کچھ ویسی ہی سَعی کر رہے ہیں جیسی زلیخا سے بچنے کے لئے حضرت
یوسف علیہ السلام نے کی تھی!
ایک ٹی وی چینل کے ذریعے یوسفی صاحب کا اُبھرنا خوش گوار حیرت کا باعث بنا
کیونکہ ہم نے تو الیکٹرانک چینلز کی دلدل میں لوگوں کو ڈوبتے، بلکہ غرق ہی
ہوتے دیکھا ہے! ہم نہیں جانتے کہ مزاح کو بھرے مجمع میں اِس طور پیش کرنے
کا آئیڈیا کِسے اور کیسے سُوجھا؟ ٹی وی چینلز پر اور جو کچھ بھی پیش کیا
جاتا ہے وہ مزاح سے کیا کچھ کم ہے؟
ویسے ادیبوں سے اُن کی نگارشات پڑھوانا کسی حد تک اُن پر (اور بہت حد تک
سامعین پر) ظلم ہے۔ شعراء تو شاعری کے وزن اور طبیعت کی موزونی کی بدولت
اپنی نگارشات کو ڈھنگ سے پڑھ جاتے ہیں مگر نثر خوانی میں حق ادا کرنا خاصا
مشکل ہوتا ہے۔ سنجیدہ تحریر بھی ریہرسل کے بغیر پڑھی جائے تو اُس میں سے
اچھا خاصا مزاح برآمد ہوتا ہے! مگر خیر، ہمیں تو اِس بات سے بھی خوشی ہوئی
کہ یوسفی صاحب اپنی گزشتہ تحریریں پڑھ کر ہی سہی، درشن تو دے رہے ہیں! بعض
اہل رقم۔۔ معاف کیجیے گا، اہل قلم تو اِتنا بھی نہیں کر پا رہے۔
عثمان جامعی کی وضع داری تسلیم کرنا پڑے گی۔ انہوں نے کالم خوانی سے پرہیز
کر کے یہ جتا دیا کہ وہ بزرگوں کی ہم سَری نہیں کرنا چاہتے! ”کہے بغیر“ کی
منزل سے ہم کہے بغیر ہی گزر گئے۔ ہماری اور ہمارے تبصرے کی بساط ہی کیا ہے!
ہم نے سنجیدگی سے کوئی رائے دی تو اُسے مزاح سمجھ لیا جائے گا اور اگر، خدا
ناخواستہ، مزاح پیدا کرنے کی کوشش کی تو لوگ پوری سنجیدگی سے بُرا مان
بیٹھیں گے! مگر خیر، عثمان جامعی کے لئے یہ بات بھی خوش نصیبی سے کم تو
نہیں کہ اُن کی کتاب کے حوالے سے ہم اور آپ یوسفی صاحب کے ذکر سے سرفراز
ہوئے! یار زندہ، صحبت باقی! اگر عثمان جامعی کا قلم اِسی رفتار سے موجیں
مارتا رہا تو اُن کے کالموں کا اگلا سونامی یعنی مجموعہ مستقبل قریب ہی کی
بات ہے! |