مودی کا نام فسادی ہونا چاہئے پتہ نہیں کیسے مودی رکھ
دیا، نام کے مودی او ر حقیقت میں چائے والے نے بھارت میں مسلمانوں کا جینا
محال کر رکھا ہے، امریکی صدر ٹرمپ کے دورہ بھارت کے دوران دہلی میں جو کچھ
ہوا، عالمی دنیا بھی اس پر چیخ رہی ہے لیکن مجال ہے کہ بھارت پر کوئی اثر
ہو ، ایک طرف خود کو سیکولرازم کا علمبردار اور دوسری جانب اقلیتوں پر
بھارت میں زمین تنگ کر دی گئی، متنازعہ شہریت بل کے پاس ہونے کے بعد سے اب
تک پرامن احتجاج بھارت میں جاری ہے ، شاہین باغ میں تین ماہ سے خواتین
بیٹھی ہیں ،نہایت ہی پرامن احتجاج ہے کہیں توڑ پھوڑ نہیں، لیکن مودی اور
امت شاہ کے غنڈوں شیو سینا، آرایس ایس ، بی جے پی کے انتہا پسندوں نے دہلی
میں مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک کیا دنیا اس کی مذمت کر رہی ہے،بھارت کے
دارالحکومت نئی دہلی میں فسادات سے متاثرہ علاقوں گوکل وری، شیوویہاڑ کے
نالوں سے مزید 4 افراد کی لاشیں ملی ہیں جس کے بعد ہلاکتوں کی تعداد 46 ہو
گئی،فسادات کے دوران خواتین کو بھی گولیاں ماری گئیں، دہلی میں چار مساجد
کو شہید کیا گیا،لوگ تڑپتے رہے لیکن پولیس نے بھی بچانے کی بجائے انتہا
پسندوں کی مدد کی، ہندو انتہا پسندوں کے تشدد سے مسلم املاک کو بھاری نقصان
پہنچا اور مسلمانوں کا قتل ہوا ہے,پولیس ،انتظامیہ اور مودی سرکار کی ساز ش
واضح طور پر نظر آرہی ہے، متعدد ویڈیو کلپس میں اصل مجرموں کے ساتھ ساتھ
گجرات کی نسل کشی کو دہرانے کے نمونہ کو بھی دکھایا گیا ہے ،پولیس کچھ
مقامات پر خاموش تماشائی بن کر کھڑی دکھائی دیتی ہے جبکہ غنڈے مساجد،مزار
ات اور مسلمانوں کے املاک کو توڑنے اورآگ لگانے میں مصروف ہیں اور کچھ
مقامات پر پولیس ہی قصورواروں کے ساتھ تشدد میں حصہ لیتے ہوئے دکھائی دے
رہی ہے، دہلی فسادات کے حوالہ سے سوشل میڈیا پر موجود ویڈیو فوٹیج میں اشوک
نگر کی ایک مسجد کے مینار پر چڑھ کر چند غنڈے لاؤ ڈ اسپیکر کو توڑ کر
ہنومان اور جئے سری رام کے نعرے کی نقش لگائے ہوئے بھگوا جھنڈے کو باندھ کر
وہاں سے ترنگا ہٹاتے نظر آر ہے ہیں ،ہندو انتہا پسند مساجد پر حملے کے
دوران "ہم آ پ کے ساتھ ہی مودی جی "اور "جئے شری رام "کے نعرے بھی لگاتے
رہے،یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہندو انتہا پسندوں کو مودی سرکار کی جانب سے ان
کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔
دہلی فسادات کا آغاز مودی سرکار کی پارٹی بی جے پی کے رہنما کپل شرما کے
اشتعال انگیز بیان سے ہوا ،کپل شرما نے جعفر آ باد میٹرو اسٹیشن کے قریب
ایک انتہائی اشتعال انگیز تقریر کی تھی اور اس کے فورا بعد اس نے ٹویٹ کے
ذریعے انتہا پسندوں کو اس علاقے میں حملے کرنے کیلئے بلایاتھا. دہلی میں جو
حملے ہوئے ہیں و ہ 2002 کے گجرات فسادات سے مماثلت رکھتے ہیں،فسادات کے
دوران ہندو انتہا پسندوں نے متعدد علاقوں میں ہندوؤں کے گھروں اور کاروباری
اداروں کے سامنے زعفران کے جھنڈے باندھ دیئے تاکہ اس سے غنڈوں کو صرف
مسلمانوں پر حملہ کرنے میں مدد ملے،سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک
تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ ایک مسلمان کی دوکان تنہا تباہ ہوگئی ہے جس کے
دونوں اطراف ہندوؤں کی دوکانیں محفوظ ہیں ، انتہا پسندوں نے ہندووں کی
دکانوں کو کچھ نہیں کیا بلکہ صرف مسلمان کی دکان کو لوٹ کر اس کو آگ لگا
دی،فسادات کے ملزمان کے ساتھ پولیس کا سلوک اتر پردیش کی طرح ہے ، دہلی کے
وزیراعلٰیٰ کیجریوال دہلی تین دن تک جل رہا تھا لیکن وہ محض خاموش تماشائی
بنے رہے ،دہلی حکومت متاثرین کو کوئی مدد فراہم کرنے میں مکمل ناکام رہی ہے
.فسادات کے دوران صحافیوں کو کوریج سے روکا گیا اور ان میں سے کچھ کو اپنی
ہندو شناخت کی تصدیق کرنے کرنے کیلئے پینٹ اتارنے پر مجبور کیا گیا،دہلی
فسادات کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ کے استعفیٰ کا
مطالبہ کیا لیکن امت شاہ استعفیٰ کیا دے وہ تو کپل شرما جو فسادات کے ماسٹر
مائینڈ ہیں انکو سیکورٹی مہیا کر رہے ہیں تا کہ کوئی نقصان نہ پہنچائے، اس
سے بھارت کے دوہرے معیار کا پتہ چلتا ہے ،بھارت میں مسلمانوں پر تشدد تو
آئے روز ہوتا ہی رہتا ہے، کبھی گائے کے گوشت کے نام پر سرعا م تشدد کیا
جاتا ہے کبھی مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے جانے والوں کو روک کر تشدد کا
نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن اب جو دہلی میں ہوا اس سے پوری دنیا کے سامنے
مودی کا موذی چہرہ سامنے آ گیا، دہلی جلتا رہا، مسلمان مرتے رہے اور مودی
ٹرمپ کے ساتھ رہے،کیجریوال گھر میں سوتے رہے کسی نے مسلمانوں کو تحفظ نہیں
دیا۔
بھارت کے معروف عالم دین مولوی جرجیث نے متنازعہ شہریت بل کے خلاف احتجاجی
جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انڈین گیٹ پر جاتے وقت لسٹ دیکھ لیجئے گا اس
دیس کی آزادی کے لئے، ہندوستان کو انگریزوں سے آزادی دلانے کے لئے پچانوے
ہزار لوگوں نے جانوں کا نذرانہ دیا، ان کے نام گیٹ پر لکھے ہیں، ان میں سے
61 ہزار مسلمانوں کے نام ہیں، پچانوے ہزار ٹوٹل، آج ہم سے پوچھتے ہو شہریت
دکھاؤ ، شہریت ایڈوانی، امت شاہ ،مودی دکھائے کہ تم کہاں سے آئے، ہم نے اس
دیس کے لئے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں، سکھ 8050 لوگوں نے قربانی دی، 14
ہزار دلت نے قربانی دی، مودی جی جہاں تم بیٹھے ہو، آر ایس ایس ،شیو سینا کا
نام لسٹ میں دیکھو ایک نام نہیں ملے گا،ایک نے بھی آزادی کی تحریک میں حصہ
نہیں لیا، اب تم فیصلہ کرو گے کہ دیس میں کس نے رہنا ہے، آج تم ہم سے شہریت
کا ثبوت مانگتے ہو، مودی جی تمہارا یہ قانون مولوی جرجیث کے پاؤں کی ٹھوکر
پر، نہیں مانتا میں، آج یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مودی جی تم نے اس جنگ کو شروع
کر دیا، ختم ہم کریں گے، تم نے جولڑائی کا اعلان کیا ہے ہمیں تمہاری جنگ
قبول ہے، تمہارے پاس اقتداد کی طاقت ہے مجھے بے بسی، کمزوری معلوم ہے، تم
بڑی طاقت ہو،پولیس، آرمی تمہارے ساتھ، یہاں تک کہ سپریم کورٹ کے جج بھی
تمہارے ساتھ، ہمارے ساتھ اس دیس کے لوگوں کا پیار ہے، ہم برداشت کرتے رہے
دیش میں امن چاہتے تھے، بابری مسجد کا فیصلہ برداشت کیا لیکن تم نے اب ہمیں
بھارتی شہری ماننے سے انکار کیا ہے، مودی جی اب ہم اٹھ گئے ہیں یا تو جیتیں
گے یا ہاریں گے، اب اس جنگ میں یا تمہاری جیت ہو گی یا ہماری، جیتے تو وطن
مبارک، ہارے تو کفن مبارک، کسی صورت میں بھارت نہیں چھوڑیں گے، مودی سن لیں
ہم دیس کی دھرتی کو چومتے ہیں ہمیں غدار نہ کہا جائے۔
بھارتی مسلمان متنازعہ شہریت بل کے خلاف پرامن احتجاج کر رہے ہیں اور یہ ان
کا حق ہے ان کو احتجاج کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا تا ہم دہلی میں جو کچھ
مودی سرکار نے کروایا یہ مودی کے ماتھے پر ایسا کلنک ہے جو کبھی بھی نہیں
مٹے گا، تاریخ کی کتابوں میں لکھا جائے گا کہ مودی ہمیشہ سے ہی فسادی تھا،
مسلمانوں کا خون بہانا اس کا مشغلہ تھا، احمدآباد، گجرات سانحات کی مثالیں
سامنے ہیں، بابری مسجد کو دیکھ لیں،بھارتی سپریم کورٹ فیصلہ کرتے ہوئے بھی
ان سے ڈرتی ہے، مسلمانوں کو متبادل جگہ دینے کا کہا گیا اور مسجد کی جگہ
ہندووں کو دے دی گئی کیونکہ مودی اقتدار میں ہے، اب جس جج نے دہلی فسادات
کا مقدمہ درج کرنے کا کہا اس جج کا امت شاہ نے تبادلہ کروا دیا، مسلمانوں
کو بھارت میں عدالتوں سے بھی انصاف نہیں مل رہا،ایک بھارتی اخبار نے دلی
فسادات کے حوالے سے دل دہلا دینے والی رپورٹ شائع کی جس میں انتہا پسندوں
کے مسلمانوں پر بہیمانہ حملوں کے طریقوں کو نازی جرمنی سے بھی جدید قرار دے
دیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ 2020 میں بھارتی نازی جرمنوں کے مقابلے میں
جدید ہو رہے ہیں۔ مودی حکومت اور بی جے پی پر طنز کرتے ہوئے رپورٹ میں لکھا
گیا کہ ہمیں گیس چیمبروں کی ضرورت نہیں ہے، ہم انسانوں کو سینکنے کے لیے
گھروں کو تندوروں میں بدل دیتے ہیں۔ بھارت کے نوبل انعام یافتہ ماہر
معاشیات امرتیہ سین نے دلی فسادات کے دوران پولیس کی کارکردگی پر سوال
اٹھاتے ہوئے کہا کہ بھارت جیسے سیکولر ملک میں لوگوں کو مذہبی خطوط پر
تقسیم نہیں کیا جاسکتا، دارالحکومت دہلی میں پولیس کی ناکامی باعث تشویش
ہے۔
|