حسد تو ایک بہت بری بیماری ہے- اس میں مبتلا شخص ہر وقت
جلتا کڑھتا رہتا ہے- مستقل جلنے کڑھنے کی وجہ سے اسے مختلف بیماریاں بھی آن
گھیر لیتی ہیں- جس سے وہ حسد کر رہا ہوتا ہے اس کا تو کچھ نہیں بگڑتا، الٹا
اپنا ہی نقصان ہوجاتا ہے-
صفیہ بھی اس بیماری کا شکار ہو گئی تھی- اسے اپنی دیورانی عندلیب سے حسد
ہونے لگا تھا- وہ اس کے دیور احسان کی بیوی تھی- دونوں کی شادی کو دو ماہ
بھی نہیں ہوۓ تھے- اس گھر میں وہ دو بھائی ہی رہا کرتے تھے- صفیہ کا شوہر
رحمان اور دیور احسان- احسان کی شادی اس نے اپنی سہیلی کی بہن سے خود
کروائی تھی- اس کا نام عندلیب تھا- اپنے نام کی طرح وہ بھی بہت خوب صورت
تھی-
عندلیب سے حسد کرنے کی یہ وجہ تھی کہ احسان ہر وقت اس کے پیچھے پیچھے پھرتا
تھا- شام کو جب وہ آفس سے واپس آتا تو اس کی یہ ہی کوشش ہوتی تھی کہ عندلیب
بس اس کے پاس ہی بیٹھی رہے- عندلیب کو بھی اس کی عادت ہوگئی تھی- وہ اپنے
حصے کے کام جلدی جلدی نمٹا کر اس کے پاس جا کر بیٹھ جاتی تھی- جب احسان آفس
چلا جاتا تو عندلیب تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کا تذکرہ نکال لیتی- اس کے بارے
میں صفیہ سے باتیں کرتی- ان باتوں میں زیادہ تر احسان کی تعریفیں ہی ہوا
کرتی تھیں-
شروع شروع میں تو صفیہ نے برداشت کیا اور خاموشی سے اس کی باتیں سنتی رہی-
اسے احساس ہوگیا تھا کہ احسان عندلیب کی خوب صورتی اور اس کی عادتوں کی وجہ
سے بہت متاثر ہوگیا ہے-
اس کا شوہر رحمان ایک سنجیدہ اور نہایت غیر رومانوی شخص تھا اور اپنے اپنے
کام سے کام رکھتا تھا- صفیہ کن کپڑوں میں اچھی لگتی ہے، اس کے پاس سے کیسی
خوشبو آتی ہے، وہ کھلے بالوں یا چوٹی میں اچھی لگتی ہے، اسے ان باتوں کی
ذرا بھی پرواہ نہیں تھی- وہ گھر میں ہوتا تو زیادہ تر خاموش ہی رہتا تھا-
صفیہ کچن میں اکیلی بھی ہوتی تو وہ کوئی چھیڑ چھاڑ کیے بغیر خاموشی سے پاس
سے گزر جاتا- اس کا زیادہ تر وقت یا تو اخبار پڑھتے یا پھر ٹی وی دیکھتے
گزرتا تھا- رات کے کھانے کے فوراً بعد اسے نیند آنے لگتی تھی- جلدی سونے کی
وجہ سے وہ سویرے جلدی بھی اٹھ جاتا تھا- اس کی یہ تمام باتیں اب صفیہ کو
کھٹکنے لگی تھیں- اس کی آنکھ رات دو بجے بھی کھلتی تھی تو اس کے کانوں میں
احسان اور عندلیب کی باتوں کی بھنبھناٹ آتی رہتی تھی- وہ دونوں دیر سے سوتے
تھے اور دیر سے اٹھتے تھے-
صفیہ ایک اچھی عورت تھی مگر اس کے اور عندلیب کے شوہروں کے مختلف رویوں نے
اس کی سوچیں منفی کرنا شروع کردیں- وہ آئینے کے سامنے کھڑی ہوتی تو اسے
احساس ہوتا تھا کہ وہ کسی بھی طرح عندلیب سے کمتر نہیں- اس کے باوجود اس کا
شوہر اس کی مدح سرائی نہیں کرتا تھا- اس کا رویہ اس کے ساتھ بہت اچھا تھا-
وہ اس کی ہر بات کا خیال رکھتا تھا- اس نے کبھی اس سے کسی معاملے میں سوال
جواب نہیں کیے تھے- اس سے کبھی روکھے لہجے میں بات نہیں کی تھی- اس کے
باوجود صفیہ مطمین نہیں تھی- وہ چاہتی تھی کہ احسان کی طرح رحمان بھی اس کے
آگے پیچھے پھرے، اس سے اظہار محبّت کرے اور وقت بے وقت اس سے چھیڑ چھا ڑ
کرتا رہے- یہ اس کی کم عقلی تھی- بعض شوہر اپنی جھجک کی وجہ سے اظہار محبّت
اور اس قسم کی دوسری چیزوں کے اظہار سے گریزاں رہتے ہیں- انھیں بیویاں اچھی
تو لگتی ہیں اور وہ ان کا خیال بھی بہت رکھتے ہیں مگر اس بات کا بار بار
اقرار کہ وہ ان سے بہت محبّت کرتے ہیں، اس کو وہ غیرضروری سمجھتے ہیں-
انسانی عادتوں کا یہ بھی ایک شاخسانہ ہے-
پھر ایک دن یہ احساس محرومی اپنے عروج کو پہنچ گیا- صفیہ لاکھ پڑھی لکھی
اور سمجھدار سہی مگر حسد کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ
میاں بیوی کے درمیان ناچاقی پیدا کروائے گی- وہ یہ بات بھی بھول گئی تھی کہ
میاں بیوی میں نا چاقی پیدا کروانا بہت بڑا گناہ ہے-
اپنی شادی کے کچھ عرصے بعد اسے یہ بات پتہ چل گئی تھی کہ احسان کسی لڑکی سے
محبّت کرتا تھا- یہ محبّت برسوں چلی تھی مگر لڑکی والوں نے رشتہ دینے سے
انکار کردیا تھا- صفیہ نے سوچ لیا کہ باتوں باتوں میں اس کا تذکرہ عندلیب
سے کرے گی-
ایک روز دوپہر کے کھانے کے بعد وہ دونوں ڈرائنگ روم میں بیٹھی تھیں- صفیہ
تکیے کے غلاف بدل رہی تھی- اس نے ایک نظر عندلیب پر ڈالی- عندلیب کچھ یاد
کر کے زیر لب مسکرا رہی تھی- اسے یوں مسکراتے دیکھا تو صفیہ نے تلخی سے
سوچا "احسان کی کوئی بات یا حرکت یاد آگئی ہوگی"-
اس نے دونوں تکیوں پر غلاف چڑھا لیے تھے- وہ انھیں ایک طرف رکھتے ہوۓ بولی
"عندلیب- ان مردوں کی ذات بھی عجیب سی ہوتی ہے- ہوش سنبھالتے ہی انہیں کسی
نہ کسی سے محبّت ہوجاتی ہے- اگر مجھے کبھی پتہ چل جائے کہ میرا شوہر کسی
اور سے محبّت کرتا تھا تو میں تو گھر سر پر اٹھا لوں- اپنی اور اس کی جان
ایک کردوں"-
عندلیب کے ہونٹوں سے مسکراہٹ غائب ہو گئی- اس نے حیرت سے پلکیں جھپکا کر
صفیہ کو دیکھا اور بولی "بھابی- وہ کیوں- رحمان بھائی تو اتنے اچھے ہیں-
پھر بھی آپ ایسا کہہ رہی ہیں؟"
"میں یہ برداشت کر ہی نہیں سکتی کہ میرے شوہر کی زندگی میں کبھی کوئی دوسری
عورت رہی ہو"- صفیہ نے کہا- "کیا تم یہ برداشت کر لو گی؟"
اس کی بات سن کر عندلیب کچھ دیر تو خاموش رہی پھر دھیرے سے بولی "شادی کے
اگلے روز احسان نے مجھے بتا دیا تھا کہ ان کا کسی لڑکی سے افئیر تھا"-
عندلیب کے اس انکشاف نے صفیہ کو بری طرح چونکا دیا تھا- اس کی مشکل خود
بخود حل ہوگئی تھی- وہ دھڑکتے دل اور سوالیہ نظروں سے عندلیب کو دیکھنے
لگی- جب کافی دیر تک وہ کچھ نہ بولی تو صفیہ نے کہا "احسان کی یہ بات سن کر
تمہیں کیسا لگا تھا؟"
عندلیب نے اس کا سوال نظر انداز کردیا اور بولی- "انہوں نے مجھے بتایا تھا
کہ وہ اس لڑکی سے اسکول کے زمانے سے ہی محبّت کیا کرتے تھے- وہ بھی ان سے
بہت محبّت کرتی تھی- دونوں نے ایک ہی کالج اور یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی
اور یوں ان دونوں کا بیشتر وقت ایک دوسرے کے ساتھ ہی گزرتا تھا"-
صفیہ کو یہ تمام باتیں تو پہلے سے ہی پتہ تھیں مگر وہ انجان بن کر خاموش
بیٹھی رہی- اسے پتہ تھا کہ ایک عورت کبھی بھی یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ اس
کا شوہر کسی اور عورت سے محبّت کرے- چاہے یہ محبّت ماضی ہی کی کیوں نہ ہو-
"احسان نے مجھے اپنی اس محبّت کی پوری تفصیل بتائی تھی- انہوں نے کہا تھا
کہ ان کا پڑھائی لکھائی میں ذرا دل نہیں لگتا تھا مگر وہ صرف اس لڑکی کی
خاطر پڑھ لکھ کر ایک کامیاب انسان بننا چاہتے تھے- اس لڑکی کا تعلق کسی
امیر گھرانے سے تھا- انہوں نے مجھے جو باتیں بتائی تھیں انھیں سن کر مجھے
اندازہ ہوا کہ وہ اس لڑکی سے بے پناہ محبّت کرتے تھے- مگر جب انہوں نے اپنا
رشتہ اس لڑکی کے گھر بھیجا تو منع کردیا گیا- وہ لوگ اپنے سے کم حثیت والوں
میں اپنی لڑکی دینے پر تیار نہیں تھے- احسان نے بتایا کہ اس کے بعد بھی
انہوں نے اپنی کوششیں جاری رکھیں- انھیں اس لڑکی سے اتنی شدید محبّت تھی کہ
بار بار نہ سننے کی بے عزتی بھی برداشت کرتے رہے- پھر ایک روز اس لڑکی کی
کہیں اور شادی ہوگئی-"
"اچھا- پھر یہ باتیں سن کر تم نے کیا کیا؟" صفیہ نے بڑے اشتیاق سے پوچھا-
عندلیب نے دھیرے سے کہا- "احسان کی باتیں سن کر میرا دل بھر آیا تھا- میں
سوچ رہی تھی کہ اس لڑکی سے اس قدر محبّت کرنے کے باوجود، جب اس کی شادی کسی
اور سے ہوگئی ہوگی تو ان کے دل پر کیا گزری ہوگی- انھیں کس قدر دکھ ہوا
ہوگا"-
(ختم شد)
|