|
برصغیر پاک و ہند میں صوفی بزرگوں کے کلام کو گانے والے گلوکاروں کی ایک
طویل فہرست موجود ہے جنہوں نے عارفانہ کلام گا کر بڑا مقام حاصل کیا- ان ہی
گلوکاروں میں ایک بڑا نام پٹھانے خان کا بھی ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے
کہ ان کو گلوکاری کا شوق اس وقت سے تھا جب کہ ان کو خود بھی پتہ نہیں تھا
کہ موسیقی حلال ہے یا حرام ہے-
پٹھانے خان کا تعلق کوٹ ادو کے گاؤں سناواں سے تھا ان کے والد نے جب دوسری
شادی کی تو ان کی والدہ اپنے بچوں کو لے کر ان کے نانا کے پاس لے آئیں۔
پٹھانے خان کا بچپن اپنے دوستوں کو غلام فرید کا کلام سناتے گزرا-
ان کی والدہ نے بچوں کی پرورش کے لیے جب تندور لگایا تو پٹھانے خان کے ذمے
جنگل سے اس تندور کے لیے لکڑیاں لانے کی ذمہ داری لگی- کوٹ ادو کے ہی ایک
سرکاری اسکول میں ان کی والدہ نے ان کا داخلہ کروا دیا مگر ان کی تعلیم کی
طرف سے بےالتفاتی دیکھتے ہوئے ان کی ماں کو ان کے سامنے ہی اس بستے کو آگ
لگا دینی پڑی -
|
|
گھر سے پیسے چوری کر کے ہارمونیم خریدا اور نجی محفلوں میں گانے گانے شروع
کر دیے- کسی مہربان کی مہربانی نے ان کو ریڈیو پاکستان کا رستہ دکھایا جہاں
پر ان کی گائی ہوئی کافی میڈا عشق وی توں میڈی جاں وی توں نے پورے ملتان کو
لپیٹ میں لے لیا اور ان کی شہرت زبان زدعام ہو گئی-
ریڈيو سے ان کی شہرت ٹیلی وژن اور اس سے سیاسی لیڈران تک پہنچی کہا جاتا ہے
کہ ذوالفقار علی بھٹو ان کی آواز کے اتنے بڑے فین تھے کہ غلام مصطفیٰ کھر
ان کو اپنے ساتھ اسلام آباد لے کر جایا کرتے تھے اور بھٹو صاحب ان کو
گھنٹوں اپنے سامنے بٹھا کر سنتے رہتے تھے -
اس کے بعد ضیا الحق بھی پٹھانے خان کی آواز کے اتنے بڑے فین ثابت ہوئے کہ
انہوں نے ان کو نہ صرف صدارتی ایوارڈ سے بھی نواز دیا بلکہ دو ہزار روپے
ماہانہ وظیفہ بھی دینے کا اعلان کیا- مگر ان لوگوں سے اس خودار فنکار نے
کچھ بھی نہ مانگا-
|
|
آخری عمر میں جواں بیٹے کی موت نے ان کو بہت کمزور کر دیا یہاں تک کہ ان کے
معاشی حالت اس درجے تک خراب ہو گئے کہ ان کے گھر کی بجلی بھی کاٹ دی گئی
مگر اس پر بھی اس خودار فنکار نے کسی سے مدد نہیں مانگی -
یہاں تک کہ اسی سال کی عمر میں انہوں نے نو مارچ 2000 کو انتہائی کسمپرسی
کی حالت میں انتقال فرمایا-
|