عورت کے حقیقی مسائل

دنیا بھر کی طرح ہر سال پاکستان میں بھی آٹھ مارچ کو عالمی یوم خواتین منایا جاتا ہے۔ اس دن کے منانے کا مقصد عورت کے مسائل کو ابتداء میں اجاگر گرنے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ آج کی عورت درپیش مسائل کی نشاندہی اور اس کے حل کے لیے کوشش کرنا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے گذشتہ کچھ عرصے سے ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھنے والی چند خواتین کی غیر مبذب اور انتہا پسندانہ رویے کی وجہ سے یہ دن خاصا متنازعہ ہوچکا ہے جس کی وجہ سے عورت کی وجہ سے عورت کے حقیقی مسائل پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ پاکستان مین گذشتہ سال عورت مارچ کے منتظمیں کی جانب سے غیر مناسب اور اشتعال انگیز نعروں سے بھرے بینرز نے ایک عام پاکستانی کو تشویش میں مبتلاء کردیا تھا۔ اس سال بھی اس مارچ کی تیاریاں زور و شور سے جاری تھی جس وجہ سے عوام میں تشویش بڑھتی جارہی تھی۔ عوامی تشویش کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ لوگوں نے اس مارچ کو رکوانے کے لیے عدالت کا دروازے پر بھی دستک دی۔ وہ اس مارچ کو رکوانے میں رکوانے میں کامیاب تو نا ہوسکے مگر ایک فائدہ یہ ضرور ہوا کہ عدالت نے غیر مہذ بینرز، پوسٹرز اور نامناسب نعروں پر پابندی لگادی۔ اگر چہ عدالتی حکم پر عمل کرنا مارچ کے منتظمن اور شرکاء نے درخور اعتناء نا سمجھا اور اس عدالتی حکم کو ہوا میں اڑادیا۔ اب یہ عدالت پر منحصر ہے کہ وہ اس حوالے سے کیا آرڈر جاری کرتا ہے۔ دوسری جانب اس مارچ کے خلاف ملک بھر مین حیا مارچ منعقد کیے گئے جس میں خواتین کی بڑی تعداد نے شرکت کرکے یہ ثابت کردیا کہ وہ معاشرے میں خود کو ملنے والے مقام سے خوش اور مطمئن ہیں۔ اس ھوالے سے سے اگر چہ پاکستان کے الیکٹرونک میدیا نے عوام کو تصویر کا ایک رک دکھانے کی کوشش میں لگے رہے لیکن عالمی میڈیا و سوشل میڈیا کے بدولت عوام اصل حقیقت کو جان گئے تھے اور انہوں نے عورت مارچ کو یکسر مسترد کردیا۔
ایک اور خاص بات جوسامنے آئی وہ یہ کہ پاکستان کی وہ خواتین جو ورکنگ ویمن کہلاتی ہے اور جن کو بے تحاشہ مسائل کا سامنا ہیں۔ انہوں نے بھی آٹھ مارچ کو بڑی بڑی ریلیاں نکالی، اجتماعات کا انعقاد کیا لیکن اپنے پروگرام کو عورت مارچ سے الگ رکھا۔کراچی میں اس حوالے سے ریڈ ورکرز فرنٹ، پروگریسیو یوتھ الائنس اور ایچ بی ڈبلیو ڈبلیوایف یعنی ھوم بیسڈ ورکرز فیڈریشن آف پاکستان کی جانب سے آرٹس کونسل آف پاکستان سے کراچی پریس کلب تک مارچ کا انعقاد کیا گیا۔ اس مارچ میں خواتین کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور مطالبات کے ھق میں نعرے لگائے۔ میں نے جب ریڈ ورکرز فرنٹ کی آرگنائزر سے محترمہ انعم سے عورت مارچ کے مخصوص نعروں اور اپنا مارچ ان سے الگ کرنے کے بارے میں پوچھا تو محترمہ نے کہا کہ: ان نعروں سے ہمارا کوءی تعلق نہیں اور ہم کسی بھی قسم کے بے ہودہ نعروں کی حمایت ہرگز نہیں کرسکتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ چند ایلیٹ کلاس کی خواتین ہیں جن کو عورت کے اصل مسائل سے کوئی سروکار نہیں۔ جبکہ ہمیں حقیقی مسائل کا سامنا ہیں۔ انہوں نے کہ حکومت کو خواتین کے خلاف تمام امتیازی قوانین کا خاتمہ کرتے ہوئے انہیں ملازمت کے یکساں مواقع اور مردوں کے مساوی اجرت ملنی چاہیے۔ ایک سوال کے جواب میں محترمہ کا کہنا تھا کہ عورت کو مختلف تعلیمی اداروں اور کام کی جگہوں پر جنسی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہیں جس کے تدارک کے لیے حکومت کو عملی اقدامات اتھانے چاہیے۔ محترمہ انعم نے یہ بھی کہا کہ حکومت کو فیسوں میں اضافے کی تدارک، گھریلو و صنعتی محنت میں تفریق کا خاتمہ، تمام سرکاری اداروں کی نجکاری روکنے اور صحت، تعلیم ، رہائش اور معیاری ٹرانسپورٹ کی فراہمی کے لیے فی الفور احکامات جاری کرنے چاہیے۔ انہوں نے تمام مسائل کا حل آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے عالمی اداروں سے نکلنے اور سوشلسٹ انقلاب کے لیے جدوجہد تیز کرنے کو قرار دیا۔

قارئین گرامی! یہاں پر آپ محترمہ کے بعض مطالبات سے مخالفت کرسکتے ہیں مگر ان کے بیشتر مطالبات مبنی برحق ہیں اور اسے پورا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہیں۔ ہمیں معلوم ہیں کہ ہماری اج کی عورت مسائل کے کس دلدل میں دھنستی جارہی ہیں۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہماری عورت کو نہ صحت کی سہولیات میسر ہے، نا انہیں صاف پانی دستیاب ہیں۔ ان کے پاس سر چھپانے کو چھت ہیں اور نا وہ اپنے بچوں کو بہتر تعلیم دلاسکتی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ عورت اور مرد دونوں کو فراہم کرنے کی ذمہ داری ہے کس کی؟ یقینا حکومت کی۔ لہذا ہم اس کالم کے ذریعے صوبائی اور وفاقی حکومت دونوں سے کی توجہ اس اہم ایشیو کی جانب دلانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ وہ جو ورکنگ ویمن ہیں یہ آپ ہی کی بیٹیاں اور بہنیں ہیں اور بیٹیوں، بہنوں کی بات تسلی سے سنی جاتی ہیں۔ ان کے مسائل حل کیے جاتے ہیں ناکہ انہیں احتجاج پر مجبور۔ ہم ان ورکنگ ویمنز کو سلام پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے مخصوص ایجنڈے پر عمل پیرا چند خواتین سے خود کو الگ رکھ کر یہ ثابت کردیا ہے کہ انہیں نا تو پردے سے کوئی مسئلہ ہے۔ نا ان کے باپ ظالم ہیں اور نا وہ ان کے شوہر درندے۔ انہیں اگر کوئی شکایت ہیں تو حکومت اور اسک کے متعلقہ اداروں سے ہیں جو ان کے مسائل کو حل کرنے کے لیےب سنجیدہ نہیں لیکن انہیں سنجیدہ ہونا پڑے گا کہ ایک خوشحال عورت ہی روشن پاکستان کی ضمانت ہے۔
Saeed ullah Saeed
About the Author: Saeed ullah Saeed Read More Articles by Saeed ullah Saeed: 112 Articles with 105570 views سعیداللہ سعید کا تعلق ضلع بٹگرام کے گاوں سکرگاہ بالا سے ہے۔ موصوف اردو کالم نگار ہے اور پشتو میں شاعری بھی کرتے ہیں۔ مختلف قومی اخبارات اور نیوز ویب س.. View More