یا الہی یہ ماجرا کیا ہے۔

اسلام بلاشبہ دینِ کامل ہے، یہ وہ واحد دینِ خداوندی ہے جس میں اشرف المخلوقات کے ساتھ ساتھ حیوانات اور نباتات تک کے حقوق واضح کردیے گئے ہیں۔ دوسرے تمام ادیان کے برعکس اسلام وہ واحد نظامِ حیات ہے، جس نے عورت اور مرد کے مساوی حقوق کا تعین کیا ہے۔ اسلامی تاریخ میں کوئی لمحہ ایسا نہیں جس میں عورت کے حقوق پر شب خون مارنے، اور مردانہ حقوق کی تجوریاں بھرنے کی تلقین کی گئی ہو۔ اسلام نے تو جنت جیسا اعلیٰ مقام بھی ایک عورت کے قدموں تلے نچھاور کر چھوڑا ہے، اس سے بڑی عورت کی فضیلت اور کیا ہوگی کہ جنت کا حصول بھی عورت کی مرضی سے مشروط کر دیا گیا ہے۔ میرے پیارے نبیؐ کی حیاتِ طیبہ عورت کے احترام کی مثالوں سے بھری ہوئی ہے، جب بھی آپؐ کی پیاری بیٹی حضرت فاطمہؑ آپ سے ملنے تشریف لاتی آپؐ ان کے احترام میں کھڑے ہو جاتے۔ آپؐ نے اپنی امت کو جنت کی بشارت دی ، اگر وہ اپنی دو بیٹیوں کی پرورش کا مناسب انتظام کریں۔

دراصل اسلام جس مثالی معاشرہ کو قائم کرنا چاہتا تھا، وہ معاشرہ عورت کی تو قیرو تکریم کے بنا ادھورا تھا، اس معاشرے کی تکمیل عورت کا ہاتھ تھامے بغیر ممکن نہ تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک اچھی بیٹی ایک اچھے کنبے کی ضمانت ہوتی ہے، عورت اپنی برداشت، صبر، نرم دلی، ہمدردی و اخلاص، شرم وحیا اور عفو و درگزر سے نہ صرف اپنے گھر بلکہ ملک و ملت کے عروج کا باعث بنتی ہے۔ یہ سب جاننے کے بعد مجھے یہ سمجھ بالکل نہیں آرہی کہ جب ہمارا مذہب عورت کو اتنے حقوق اور تکریم دینے کی ہدایت کرتا ہے، تو پھر آج کل یہ بنتِ حوا کونسے حقوق کی تلاش میں سڑکوں کی خاک چھانتی پھر رہی ہے۔ ایسا کونسا مسئلہ درپیش آگیا کہ اس بیچاری کو بھری دوپہر گلیوں ،چوراہوں میں یہ بتانے کی ضرورت پڑی کہ وہ اپنی مرضی کی مالک ہے،ان خواتین سے بے حد عزت و احترام سے گزارش ہے کہ ، یہ جان اس قادرِ مطلق کی عطا ہے جس نے ہمیں جمے ہوئے خون کے ایک قطرے سے پیدا کیا اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ ہم مان اس چیز پر کرتے ہیں جو ہماری ملکیت ہو، یہاں تو نہ ہمارا کچھ تھا ، نہ ہے اور نہ ہوگا تو پھر جھگڑا کیسا

بقول غالب
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا

لیکن کیا مرضی سے مراد سگریٹ نوشی، اٹھنا بیٹھنا، آزاد خیالی اور پہناوے کی حد تک ہی محدود ہے, بہت معزرت کے ساتھ یہ میرے معاشرے کی عام عورت کے مسائل نہیں ہو سکتا ہے یہ اشرافیہ کی ان چند آزاد خیال خواتین کے ذاتی مسائل ہوں جو آج کل عام عورت کی نمائندگی کی آڑ میں اپنا ایجنڈا بیچنے کی کوشش کررہی ہیں۔

میرے معاشرے کی عورت کا مسئلہ نہ تو آزاد خیالی ہے، نہ مذہبی اور نہ بے راہ روی، ان کا مسئلہ تو معاشرے اور مذہب کے وہ منافق ٹھیکیدار ہیں جنھوں نے عورت کے حقوق کا کبھی مذہب کے نام پر استحصال کیا، تو کبھی ثقافت، رسوم ورواج اور پھر کبھی غیرت کے نام پر۔ یہاں عورت کے چند سوال تو اس معاشرے سے بنتے ہیں ناں کہ

جب اسلام نے عورت کے قدموں تلے جنت تک نچھاور کردی پھر کیوں ہمارے سماج کے فرعون آج بھی اسے اپنے پائوں کی جوتی سمجھتے ہیں۔

اسلام نے عورت کا وراثت میں حصہ مقرر کیا پھر کیوں معاشرے میں اسے بھائیوں کا حق کھانے والی ڈائن جیسے الفاظ سے نوازا جاتا ہے، کیوں صرف جائیداد سے حصہ مانگنے کے باعث اسے خاندان سے الگ تھلگ کر دیا جاتا ہے۔

اسلام نے تو شادی سے پہلے عورت سے اس کی مرضی پوچھنے کا حکم دیا ہے، پھر کیوں بہت سے مرد آج بھی اسے اپنی غیرت و انا کی توہین گردانتے ہوئے بے شرمی و بے حیائی کے تمغوں سے نوازتے ہیں۔

کیوں آج بھی عورت اور مرد کی بے حیائی مقرر کرنے کے اصول بالکل مختلف ہیں، بے حیائی تو بے حیائی ہے نا پھر وہ عورت کرے یا مرد۔ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے جو یہاں لکھا جاسکتا ہے لیکن میں اسی پر اکتفا کرنا چاہوں گا،

غرض یہ کہ ہمارا معاشرہ دوہرے معیار پر قائم ہے، اس میں مرد اور عورت کو جانچنے کے دو مختلف پیمانے ہیں ۔یہ کام میرے معاشرے کے ان منافق ٹھیکیداروں کا ہے جو ڈرتے ہیں کہ کہیں عورت ان کی دسترس سے نہ نکل جائے اور ان کے برابر نہ آ کھڑی ہو، ان سے اپنے حقوق کا سوال نہ کر بیٹھے۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اس منافق معاشرے کا حصہ ہیں، جس کی تعلیمات اور ترجیحات ایک دوسرے سے بالکل جدا ہیں۔ ایک طرف تو ہم عاشقِ رسولْ ہونے کے دعوےکرتے ہیں اور دوسری طرف اپنے نبی کی تعلیمات کو بالکل نظر انداز۔ میرے نبی نے تو رواداری کا درس دیا ہے وہ تو اس بڑھیا کی تیمارداری کے لئے بھی جا پہنچے جو روز آپؐ پر کوڑا پھینکا کرتی تھی، اور ہماری رواداری کا یہ عالم ہے کہ ہم صرف نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر ہر کسی کو کافر، مسلمان، بدکردار، اچھا، برا، جنتی، جہنمی جیسے سرٹیفکیٹ بانٹتے پھرتے ہیں۔ ہمارے ہاں منافقت کا عالم یہ ہے کہ ایک طرف ہم سب حقوقِ نسواں کے داعی ہیں، اور دوسری طرف پردہِ سکرین پر عورت ذات کو دو دو ٹکے میں بیچنے والے ایک نفسیاتی مریض کو راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیتے ہیں۔ معاشرے کی پستی اور منافقت کا اس سے بہتر اندازہ اور کیا ہوگا کہ ہم عورت ذات کی تحقیر اور تذلیل کرنے والے ایک جاہل کو ہی اپنا ماجھی سمجھ بیٹھے ہیں، اب اور تو کچھ نہیں فقط اس معاشرے کے حال پر صرف فاتحہ پڑھی جاسکتی ہے اس دعا کے ساتھ کہ اللہّٰ تبارک وتعالیٰ ہی ہمارے حال پر رحم کریں

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا

Qasim Naqvi
About the Author: Qasim Naqvi Read More Articles by Qasim Naqvi: 42 Articles with 54138 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.