ہم دونوں کی سال ہا سال کی ایک آدھ ادھوری پلینگ آخر آج
رنگ لائی
ہم ہر سال پلان بناتے تھے اب کی بار چھٹیوں میں کہیں دور کسی سہانی وادی
کسی سہانے گہرے گھمبیر جنگل،کسی جھیل کے کنارے،کہیں کسی ساحل سمندر پر،یا
کسی دریا کے کنارے بیٹھ کر چند پل چند لمحے چند گھنٹے ایک ساتھ بیتائیں گے
مگر ہر سال کچھ نا کچھ تقدیر کی ٹانگ بیچ میں اڑ جاتی اور ہماری پلاننگ
ادھوری رہ جاتی
اب کی بار ہم نے پلاننگ نہیں کی بلکہ اچانک سے ملے اور گاڑی میں بیٹھ کر
سفر کو چل دیئے
ہمارے پاس بس اپنا آپا تھا
اور
کچھ نہیں
ہم نہیں جانتے تھے ہم کہاں جا رہے ہیں
بس میں ڈرائیو کر رہا تھا
اور وہ ساتھ والی سیٹ پر میرے کندھے پہ اپنا سر رکھے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے
میرے ساتھ بیٹھی تھی
کبھی نہ ختم ہونے والی باتوں کا سلسلہ شروع تھا
وہ میرے چہرے کی طرف دیکھے جارہی تھی اور میں چپ چاپ ڈرائیو میں مشغول کسی
طوطے کی طرح فر فر اسکی باتوں کا جواب دیئے جا رہا تھا
میں حیران تھا اس دن
حالانکہ معمول کے مطابق میں جب بھی ڈرائیو کرتا تھا تو دو/تین سو کلو میٹر
کے اوپر مجھ سے ڈرائیو نہیں ہو پاتی تھی
ایک پاور نیپ لینا پڑتا تھا
مگر اس دن نہ میں تھکا تھا نہیں ہی ڈرائیو سے بور ہوا تھا
بلکہ اس دن جو لطف مجھے ڈرائیو کرنے میں آرہا تھا
شاید ہی پہلے کبھی آیا ہو
باتیں کرتے،سنتے،بولتے،چہمگوئیاں کرتے کرتے ہمیں پتا تب چلا جب گاڑی کشمیر
کی وادیوں میں پہنچ چکی تھی
کشمیر کا لگا تختہ دیکھ کر ناچاہتے ہوئے بھی میرا پاؤں بریک کو جا لگا اور
گاڑی رک گئی
ہم دونوں چپ چاپ اک دوجے کے منہ کو تکے جا رہے تھے
اور ایک دم سے دونوں ایک ساتھ کھلکھلا کر ہنس دیئے اور وہ ہنسی ایسی تھی کہ
گویا پوری گاڑی میں بونچھال آ گیا ہو
پہاڑوں کو چیرتی سڑک اور اسکے گرد پھلے پھولے سرو قد درخت اور ہلکی ہلکی
بارش کی رم جھم ساتھ میں گرتی سفوف نما برف اور ساتھ میں بہتا دریائے نیلم
سبھی اپنا ایک الگ ہی منظر پیش کر رہے تھے
ہم دونوں گاڑی پر سے اترے
پاس میں ہی ایک چائے کا ڈھابہ
میں چائے کا شوقین تو نہ تھا
مگر
وہ بہت شوق سے چائے پیتی تھی
میں نے گاڑی کا رخ ڈھابے کی طرف کیا
اور اس سے پہلے
کہ میں کچھ بولتا اس نے دو کپ چائے کا آرڈر دے دیا
اسکے چرے پر گری برف اسکے دودھیئے رنگ پر ایک الگ ہی نکھار دے رہی تھی میں
کبھی اسکی طرف دیکھ رہا تھا تو کبھی دیائے نیلم کے گرتے پڑتے چٹانوں پر سے
پیدا ہوتے شور سے لطف اٹھا رہا تھا
اتنے میں چائے آ گئی
میں نے نا چاہتے ہوئے بھی ایک سپ لیا اور کپ ٹیبل پر رکھ دیا
وہ اپنے کپ کو لبوں سے لگائے ہوئے تین چار سپ لے چکی تھی
نا جانے اچانک اسے کیا سوجھی
اس نے کپوں کو آپس میں تبدیل کر دیا
اور مجھے چائے کا سپ لینے کو کہا
ناجانے اس کے لبوں کی مٹھاس اس میں شامل تھی یا محبت کی چاشنی تھی
کب،کیسے،اور کیوں وہ کپ ختم ہو گیا پتا ہی نہیں چلا
وہ مجھے دیکھ کر ہنسی جا رہی تھی اور میں حیران پریشان اسکا منہ تکے جا رہا
تھا
تبھی اس نے اپنا سیل فون پرس سے نکالا اور مجھے سیلفی لینے کو کہا
آپ کو بتلا دوں مجھے تصاویر بنانے اور بنوانے کا ذیادہ شوق نہیں
لیکن اس کی ضد کے آگے مجھے گھٹنے ٹیکنے پڑے اور اسکا کہنا تھا کہ''یاد
گار'' رہے گی یہ سیلفی تو میں نے جھٹ سے موبائل پکڑا اور تین سے چار ایک
ساتھ سیلفیز لے کر اسے سیل واپس کر دیا
میں حیران تھا
کہ
ایسا کیا ہے جو مجھے خلاف معمول کام کرنے پر مجبور کیئے جا رہا ہے
ناچاہتے ہوئے بھی میں وہ تمام کام کر رہا ہوں جن سے مجھے شدید نفرت ہے
مگر میں سمجھ چکا تھا وہ پیار کی طاقت تھی جس کے آگے میں بے بس تھا
وہ میرے پاس آکر میرے بازو کے اندر سے اپنا بازو گزار کر بیٹھ ساتھ بیٹھ
چکی تھی
اسکا سر میرے کاندھے ہر ٹکا ہوا تھا
اور اسکے دل میں میرے لیئے جو کچھ تھا وہ نان سٹاپ کہے جا رہی تھی
مجھے اسکی بک بک سے بہت الرجی تھی باتونی ہی بہت تھی مگر آج سچ پوچھو تو
مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا اسکا بولنا
اور میں چپ کر کے سنے جا رہا تھا
باتوں کے اس ناختم ہونے والے سلسلے میں کب وہی بیٹھے بیٹھے شام بیت گئی پتا
ہی نہ چلا
ٹھنڈ بڑھتی جا رہی تھی
ہم دونوں اٹھ کر گاڑی میں آ بیٹھے ہیٹر چلنے کی وجہ سے پیدا شدہ تپش سے
تھوڑی ٹھنڈک میں کمی ہوئی
رات ہونے کو تھی
میں نے گاڑی کا رخ واپس گھر کی جانب موڑ دیا
گاڑی چلنے کی دیری تھی وہ میرے کاندھے ہر سر ٹکا کر باتیں کرتے کرتے کب
خواب خوگوش میں چلی گئی پتا ہی نہ چلا
اور یوں رات کے پچھلے پہر ہم اپنے منزل مقصود کو پہنچے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|